خواب اورخواب دیکھنے کے بار ے میں بہت سی باتیں ہیں،جس کی ایک مبسوط تفصیل ہم
سُورہ ٴ یوسف کی آ یہ ۴ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں ( 1) ۔
یہاں پر جو بات ضروری ہے کہ جس کی طرف توجہّ کی جائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے خواب کوکس طرح حجت سمجھا اوراسے کیوں اپنے عمل کامعیارقرار یا؟اس سوال کے
جواب میں کبھی تو یہ کہا جاتاہے کہ انبیاء کے خواب ہرگز شیطانی خواب نہیں ہوتے اور
نہ ہی ہ قوتِ واہمہ کی فعالیت کی پیدا وا ر ہوتے ہیں،بککہ وہ ان کی نبوّت اوروحی
کاایک گوشہ ہوتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں انبیاء کامصد رو حی کے ساتھ ارتباط کبھی تو دل میں القاء کی شکل
میں ہوتاہے اور کبھی فرشتہ لوحی کو دیکھنے کی صورت میں ہوتا اور کبھی صوتی امواج کی
راہ سے جو خدا کے فرمان سے پیدا ہوتی ہیں اور کبھی خواب کے طریقے سے.لہذ اان کے
خوابوں میں کسی قسم کی خطا یاغلطی پیدانہیں ہوتی،اورجو چیز وہ خواب میں دیکھتے
ہیں دہی کچھ ہوتا ہے جووہ بیداری میں دیکھتے ہیں ۔
کبھی یہ کہا جاتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیدار ی کی حالت میںوحی کے ذ
ریعے آ گاہی حاصل کی تھی کہ وہ ” ذبح “ کے بار ے میں جو خواب دیکھیں اس پر عمل
کریں ۔
نیز کبھی یہ کہا جاتا ہے کہاس خواب میں مختلف قرائن تھے . ایک یہ کہ تین شب پے در
پے بعینہ اس کا تکرار ہو اکر جس نے اُنکے لیے یہ علم و یقین پیدا کردیا کہ یہ ایک
خدائی مامو ریت ہے کوئی اور چیز نہیں ہے۔
بہرحال ممکن ہے کہ یہ تمام ہی تفاسیر صحیح ہوں اور آپس میں کوئی تضاد بھی نہیں
رکھتیں اورظو اہر آ یات کے خلاف بھی نہیں ہیں ۔
1۔جلد ۹ میں ملاحظہ کیجیے ۔