وہ فرشتے جو انجام اُمور کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 1 - 5سوره صافات / آیه 6 - 10

یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سُورہ ہے جس کا آغاز قسم سے ہوتاہے . اس کی پر معنی اورفکرانگیز قسمیں انسان کی فکر کواپنے ساتھ اس جہان کے مختلف گوشوں کی طرف کھینچ لے جاتی ہیں اورحقائق قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ خدا سب سے بڑھ کرراست گو ہے اوراسے قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . علاوہ ازیں اگر قسم مو منین کے لیے ہو تووہ قسم کے بغیر بھی سرتسلیم خم کے ہوئے ہیں اوراگر منکرین کے لیے ہے تووہ خدا کی قسموں پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے ۔
لیکن قرآن کی تمام آیات میں جن سے اس کے بعد ہمیں کبھی کبھی واسط بڑے گا ،دونکات کی طرف توجہ سے قسم کا مسئلہ واضح ہوجائے گا ۔
پہلا یہ کہ قسم ہمیشہ قابل ِ قدر اوراہم امورکے بار ے میں کھائی جاتی ہے .اس بناء پر قرآنی قسمیں ان امور کی عظمت اوراہمیّت کی دلیل ہیں کہ جن کی قسم کھائی گئی ہے اور ایہی امر ” مقسم بہ “ یعنی وہ چیز جس کی قسم کھائی گئی ہے کے بار ے میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کاسبب بنتاہے . ایسا غور و فکر جو انسان کونئے حقائق سے آشنا کرتا ہے۔
دوسرا یہ کہ قسم ہمیشہ تاکید کے لیے ہوتی ہے اوراس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ امور جن کے لیے قسم کھائی جارہی ہے ایسے ہیں کہ جن کے بار ے میں تاکید شدید ہے۔
اس سے قطع نظرجس وقت کہنے والا اپنی بات کو دوٹوک طریقے سے بیان کرے تو نفسیاتی طور پر سننے والے کے دل پر زیادہ اثر اندازہوتی ہے .لہذا قرآن کی ہر قسم مومنین کوزیادہ قوی اورمنکر ین کوزیادہ نرم کردیتی ہے ۔
بہرحال وہ اس سورہ کی ابتداء میں ہمیں تین نام ملتے ہیں جن کی قسم کھائی گئی ہے ( ۱) ۔
پہلے فر ماتاہے : قسم ہے ان کی جوصف باندھے ہوئے ہیں اورجنہوںنے اپنی صفوں کومنظم کیاہوا ہے (وَ الصَّافَّاتِ صَفًّا) ۔
وہی جو پوری قوت کے ساتھ روکتے ہیں (فَالزَّاجِراتِ زَجْرا) ۔
اور و ہ جوپے ذکر الہٰی کی تلاوت کرتے ہیں (فَالتَّالِیاتِ ذِکْراً) ۔
یہ تین گروہ کون ہیں ؟اور یہ کن افراد کی صفات ہیں ؟ اوران کااصلی ہدف و مقصد کیاہے ؟ مفسرین نے یہاں بہت سی باتیں کی ہیں لیکن معروف ومشہور یہی ہےک ہ یہ فرشتوں کے مختلف گروہوں کے اوصاف ہیں ۔
ایسے گروہ جو فرمان الہٰی کو انجام دینے کے لیے عالم ِ ہستی میں صف باندھے ہوئے آمادہ تعمیل ہیں ۔
فرشتوں کے ایسے گروہ جو انسانوں کو گناہ سے روکتے ہیں اور شیطانوں کے وسوسوں کو ان کے دلوں میں بے اثر کرتے ہیںیاآسمان کے بادلوں پر مامور ہیں اورانھیں اِدھر اُدھر دھکیلتے ہیں اورانھیں خشک سرز مینوں کی سیرابی کے لیے لیے جاتے ہیں ۔
اور آخر میں فرشتوں کے وہ گروہ جو آسمانی کتابوں کی آیات نزولِ وحی کے وقت پیغمبروں کے سامنے پڑھتے ہیں (۲) ۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ” صافات “ ”صافتہ“ کی جمع ہے اورخود صافتہ بھی اپنی جگہ پرجمع کامفہوم رکھتاہے اورایسے گروہ کی طرف اشارہ ہے جوصف باندھے ہوئے ہے . اس بنا پر”صافات“ متعدد صفوں کے معنی میں ہے ( ۳) ۔
” زاجرات“ بنیاد ی طور پر” زجر “ کے مادہ سے کسی چیزکوبلندآواز کے ساتھ ہانکنے کے معنی میں ہے .بعد از اں یہ لفظ وسیع معنی میں استعمال ہونے لگا جو ہرطرح سے دھتکارنے روکنے اورمنع کرنے کامفہو م دیتاہے۔
اس بنا پر ” زاجرات “ ان گرو ہوں کے معنی میں جو دوسروں کوروکتے ، دھتکار تے او رجھڑ کتے ہیں ۔
اور” تالیات “ ” تلاوت “ کے مادہ سے ” تالی “ کی جمع ہے جوان گر وہوں کے معنی میں ہے جو کسی چیز کی تلاوت کرتے ہیں( ۴) ۔
ان الفاظ کے مفا ہیم کی وسعت اورپھیلاؤ کی طرف توجہ ّ کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی کہ ان کے لیے مفسرین نے گونا گو ں تفاسیربیان کی ہیں .جومختلف ہونے کے باوجود متضاد ہیں اور ممکن ہے کہوہ سب کی سب ان آیات کے مفہوم میں جمع ہوں . مثلاً ”صافات“ سے فرشتوں کی وہ تمام صفوف مراد ہوں جو عالم ِ آفر ینش میں اوامر الہٰی کے اجراء کے لیے آمادہ ہیں اوروہ فرشتے بھی مرادہوں جوعالم ِ تشریع میں پیغمبروں پر نزولِ وحی پرمامور ہیں. اسی طرح راہ خدا میں لڑ نے والے اور مجاہدین کی صفیں یانما گذاروں اورعباد ت کرنے والوں کی صفیں۔
اگرچہ قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ تر مراد فرشتے ہی ہیں اوربعض روایات میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہواہے ( ۵) ۔
اسی طرح اس بات میں بھی کوئی امرمانع نہیں ہے کہ ” زاجرات“ کے مفہوم میں وہ فرشتے بھی شامل ہوں کہ جو شیطانی وسوسے انسانوں کے دلوں سے دور کرتے ہیں اوران انسانوں کوبھی جونہی عن المنکر کافریضہ اداکرتے ہیں ۔
نیزہوسکتاہے ” تالیات“ تمام فرشتوں اور موٴ منین کی تمام جماعتوں کی طرف اشارہ ہو جو آیات الہٰی اورذکر خداکی پے درپے تلاوت کرتے ہیں ۔
یہاں یہ سوال سامنے آ تاہے کہ ان تینوں کے ایک دوسرے پر ” فاء “ کے ساتھ عطف کی وجہ سے آیات کاظاہر یہ ہے کہ یہ تینوں گروہ ایک دوسرے کے پیچھے ہیں، تو کیایہ ترتیب انجام ِ ذمہ دار ی کے لحاظ سے ہے یامقام کے لحاظ سے یادونوں معانی کے لحاظ سے ؟
یہ بات واضح ہے کہ صف باندھنا اورتیار ہوناپہلے مرحلہ میں ہوتاہے ، اس کے بعد ر کاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کامرحلہ ہے اوراس کے بعد احکام بیان کرنے اوران کے اجراء کی نوبت ہے۔
دوسری طرف سے وہ جو فرمان کے اجراء کے لیے تیارہونے میں ایک مقام رکھتے ہیں اور جو رکاوٹوں کودور کرتے ہیں وہ افضل و برتر مقام رکھتے ہیں اور جو فرامین کو پڑھتے ہیں اورانھیں جاری کرتے ہیں وہ سب سے بلند مقام رکھتے ہیں ۔
بہرحال پروردگار کاان سب گروہوں کی قسم کھانااس کی با ر گاہ میں ان کے مقام کی عظمت ظاہر کر تاہے . ضمنی طور پر اس حقیقت کی طرف بھی راہنمائی کرتاہے کہ راہ ِ حق کے راہبوں کو مقصود تک پہنچانے کے لیے ان تینوں مراحل سے گز رناچاہیے ۔
پہلے وہ اپنی صفوں کومنظم کریں اور ہرگر وہ اپنی صف میں موجو د ہو . اس کے بعد سب راستے سے روکاوٹوں کادُور کرنے اوربلند آواز کے ساتھ مزاحمتوں کوہٹانے میں مصروفِ کارہوجائیں . وہی کا م جو زجر ( جھڑکنے ) کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اس کے بعد آیاتِ الہٰی اور پر وردگار کے فرامین کی اہل دلوں پر پے درپے تلاوت کر یں اوران کے مضامین ومطالب کورُو بہ عمل لائیں۔
راہ ِ حق کے مجاہد ین کو ان تینوں مرحلوں سے گز رنے کے سواچار ہٴ کار نہیں . سچے علماء اور دانش مندوں کو بھی اپنی اجتماعی مساعی اور کوششوں میں اسی اندا ز سے سبق حاصل کرناچاہیے۔
یہ با ت قابل ِ توجہ ہے کہ بعض مفسرین نے ان آیات سے مجاہدین اور بعض نے علماء مراد لیے ہیں لیکن آیات کے مفہوم کو ان دوگروہوں میں محدود کرنا بعید نظر آتاہے،البتہ آ یات کی عمومیّت بعید نہیں ہے اوراگر ہم انھیں فرشتوں کےساتھ ہی مخصوص سمجھیں پھر بھی دوسر ے لوگ اپنی زندگی میں ان فرشتوں سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔
امیر الموٴ منین علی علیہ السلام بھی نہج البلاغہ کے پہلے خُطبے میں جہاں فرشتوں کے بار ے میں گفتگو کرتے ہیں اورانھیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ،فر ماتے ہیں :
وصافون لا یتز ایلون،ومسبحون لایساٴمون،لایغشاھم نوم العیون ولا سھو ا لعقول،ولافترة الابدان ،ولا غفلة النسیان،ومنھم امناء علی وحیہ،والسنة الی رسلہ
ان میں سے ایک گروہ ایسی صفوں میں موجود ہے جو ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں وہ میشہ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور تھکتے نہیں.ان کی آنکھوں میں کبھی نیند طاری نہیں ہوتی .سہوو نسیان میں گرفتار نہیں ہوتے .بدن کی سُستی انھیںدامن گیر نہیں ہوتی اور نسیان کی غفلت انھیں عارضی نہیں ہوتی.ان کاایک گروہ وحی کے امناء ہیں اور وہ پیغمبروں کے لیے خدا کی زبانیں ہیں ( ۶) ۔
ان تینوں آیات کے بار ے میں آخر ی بات یہ ہے کہ بعض یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ ان آیات میں خداکی پاک ذات کی قسم کھائی گئی ہے اوران سب میں لفظ ” رب “ مقدر ہے اورحقیقت میں یہ اس طرح تھا :
وربّ الصافات صفّا ً ورب الزاجرات زجراً ورب التالیات ذکراً
صف باندھ کرکھڑے ہوئے ان گروہوں کے پروردگار کی قسم جنھوںنے اپنی صفوں کو منظم کیاہوا ہے اور جھڑک کر روک دینے والوں کے پر وردگار کی قسم ، اور پے درپے ذکر خدا کی تلاوت کرنے والوں کے پر ور دگار کی قسم ۔
جن لوگوں نے آ یات کی اس طرح تفسیر کی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ چونکہ خدانے اپنے بندوں کوحکم دیاہے کہ وہ غیرخدا کی قسم نہ کھائیں.پس خدا بھی اپنی ذات کے علاوہ کسی کی قسم نہیں کھات.علاوہ ازیں قسم کسی اہم امر کی کھانا چاہیے اور زیادہ اہم اس کی پاک ذات ہے۔
لیکن وہ اس نکتے سے غافل ہیں کہ خدا کاحساب اس کے بندوں سے الگ ہے . وہ انسانوں کو متوجّہ کرنے کے لیے ” آفاقی “ اور” انفسی “ آ یات اور آسمان و زمین میں اپنی قُدرت کی نشانیوں میں سے ہمیشہ مختلف موجودات کی قسمیں کھاتا ہے تاکہ وہ انھیں ان آیات میں غور وفکر کر نے پرآ مادہ کرے اور وہ اُسے اس راستے سے پہچانیں ۔
اس سے قطع نظر قرآن مجیدکی کئی آیات ہیں جیسے سورہٴ الشمس کی آیات میں خدانے موجوداتِ عالم کی اپنی پاک ذات کے ساتھ قسم کھائی ہے اور وہاں کسی چیز کا مقدّر کرنا ممکن نہیں ہے.فر ماتاہے:
وَ السَّماء ِ وَ ما بَناہا وَ الْاٴَرْضِ وَ ما طَحاہا وَ نَفْسٍ وَ ما سَوَّاہا
قسم ہے آسمان کی اورجس نے اسے بنایا،قسم ہے زمین کی اور جس نے اسے بچھایاہے اورقسم انسان کی جان کی اور جس نے اُسے منظم کیاہے ( ۷) ۔
بہرحال زیر بحث آ یات کاظاہر یہی ہے کہ ان ہی تینوں گروہوں کی قسم کھائی گئی ہے اور کسی چیز کو مقدر ماننا خلافِ ظاہر آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ ملائکہ اورانسانوں کی صفوں کی یہ پرمعنی قسمیں کس مقصد کے لیے کھائی گئی ہیں ؟
بعد والی آیت اس مقصد کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہے:
تمہارامعبود یقینا یکتا ہے (إِنَّ إِلہَکُمْ لَواحِدٌ) ۔
قسم ہے ان مقد سات کی جوبیان کیے گئے ہیں، کہ تما م بُت بتا ہ و برباد ہیں اور پر وردگار کا کوئی کسی قسم کاشریک و شبیہ ونظیر نہیں ہے۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے : وہی جو آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی ، اورجوکچھ ان کے درمیان ہے ان کابھی سب مشرقوں کا پر وردگار وہی ہے (رَبُّ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ وَ ما بَیْنَہُما وَ رَبُّ الْمَشارِق) ۔
یہاں دوسوال سامنے آتے ہیں :
۱۔ آسمانوں اور زمین اورجوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، کاذکر کرنے کے بعد ” مشارق “ کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ، کیونکہ یہ بھی توانھیں کاایک جزء ہے۔
اس سوال کاجواب ایک نکتے کی طرف توجّہ کرنے سے واضح ہوجاتاہے اور وہ نکتّہ یہ ہے کہ ”مشارق “ چاہے سال کے دنوں میں سورج کے مشارق کی طرف اشارہ ہو یاآسمان کے مختلف ستاروں کے مشارق کی طرف، سب کے سب ایک مخصوص نظم اور پر وگرام رکھتے ہیں کہ جوآسمانو ں اور زمین کے نظام کے علاوہ ان کے پیدا کر نے والے اور مدبّر کے قدرت وعلم پردلالت کرتاہے۔
آسمان کاسور ج سال بھر میں روزانہ ایک نئے نقطے سے طلوع کرتاہے اوران نکات کاایک دوسرے سے فاصلہ اس قدر عظیم اوردقیق ہے کہ ایک سیکنڈ کا ہز ارواں حصّہ ِ بھی کم یازیادہ نہیں ہوتا اورلاکھوں سال گزر چکے ہیں مگر”سورج “ کے مشارق کامنظم وضبط اسی طرح قائم و بر قرار ہے۔
دوسرے ستا روں کے طلوع وغروب میں بھی یہی نظام کار فر ماہے۔
علاوہ ازیں اگرسورج سال بھر کے اندر اس تدریجی راستے کوطے نہ کرتا تو چاروں فصلیں اورمختلف برکتیں جواس سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں نہ ہوسکتیں اور یہ بات خود اس کی عظمت و تدبیر کی ایک اور نشانی ہے۔
اس کے علاوہ ” مشارق “ کاایک دوسرامعنی یہ ہے کہ زمین کے گول ہونے کی بنا پر اس کاہر نقطہ دوسرے نقطے کی نسبت مشرق یامغرب شمارہوتاہے اور اس طرح سے زیربحث آیت ہمیں زمین کے کر وی ہونے اور اس کی مشر قوں اور مغر بوں کی طرف توجّہ دلاتی ہے۔
( اس آیت سے دونوں معانی مراد ہونے میں بھی کوئی امر نہیں ہے ) ۔
۲۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ” مشارق “ کے مقابلے میں یہاں ” مغارب“ کے بار ے میں کیونکہ گفتگو نہیں ہوئی،جیساکہ سورہٴ معارج کی آ یہ ۴۰ میں آ یا ہے :
فلا اقسم برب المشارق و المغارب
مشرقوں اورمغربوں کے پروردگار کی قسم ۔
اس کاجواب یہ ہے کہ بعض اوقات کلام کے ایک حصّےِ کودوسرے حصّے کے قرینہ کی وجہ سے حذف کردیتے ہیں،اور کبھی دونوں کواکٹھا لے آ تے ہیں.یہاں ” مشارق “ کاذخر ” مغارب“ کے لیے قرینہ ہے اوربیان کایہ تنوع بھی ایک انداز ِ فصاحت شمار ہوتاہے۔
بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ ” مشارق “ کاذکرطلوع وحی کے ساتھ مناسبت رکھتاہے جو ” تالیات ذکراً “ فر شتوں کے ذریعے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قلب پاک پر نازل ہوئی ( ۸) ۔
۱۔ یہ تین جملے ایک معنی کے لحاظ سے تین قسمیں ہیں اورایک معنی کے لحاظ سے ایک قسم ہے تین اوصاف کے ساتھ ۔
۲۔ مذکورہ بالاآیا کی تفسیر کے بار ے میں دوسرے احتمالات بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ میدانِ جہاد میں مجاہد ین اسلام کی صفوں کی طرف اشارہ ہے اور میدانِ جنگ میں دشمنوں کے سروں پرچیختے ہیں اور وہ انھیں حریم اسلام اورقرآن سے تجاوز کرنے سے روکتے ہیں اوروہ جوہمیشہ ذکرتلاوت ِ الہٰی کرتے ہیں اوراپنے قلب وروح کوا س کے نور سے روشن کرتے ہیں ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیاگیاہے کہ ان تین اوصاف کے ایک حصّہ کا اشارہ ان فرشتوں کی طرف ہے جو منظم صفوں کی صورت میں ہوتے ہیں اورایک حصّہ قرآنی آیات کی طرف اشارہ ہے جولوگوں کو برائیو ں سے روکتی ہیں اورایک حصّہ مومنین کی طرف اشارہ ہے جو نماز کے علاوہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن ان اوصاف کے درمیان جدائی بعید نظر آ تی ہے . کیونکہ ” فاء “ کے ساتھ ان کا عطف اس بات کی نشاندہی کر تاہے کہ یہ سب اوصاف ایک ہی گر وہ کے ہیں ۔
” علامہ طباطبائی “ نے ” المیزان “ میں یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے یہ تینوں اوصاف ان فرشتوں کے ہوں جو وحی الہٰی کی تبلیغ پرمامور ہیں ، وہ منظم صفوں میں وحی کی حفاظت کرتے ہیں اور شیطا نوں کواپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں اورسرانجام آیات الہٰی کی پیغمبروں کے لیے تلاوت کرتے ہیں ۔
۳۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان اوصاف کا” جمع موٴنث “ کی شکل میں ذکر کر نااس بناپر ہے کہ ان کامفر د خود جماعت کامعنی
رکھتاہے جوموٴ نث لفظی ہے۔
۴۔یہ بات قابلِ تو جّہ ہے کہ بعض ارباب لُغت کے کہنے کے مطابق ’ ’ تالی “ کی جمع ” تالیات“ ہے اور” تالیة “ کی جمع ” توالی “ ہے۔
۵۔ تفسیر برہان ، جلد ۴ ،ص ۱۵ ،الدرالمنثور جلد ۵ ،ص ۲۷۱۔
۶۔ نہج البلاغہ ،خُطبہ ۱۔
۷۔سورہ ٴ ” الشمن “ (آ یات ۵ تا ۷) ۔
۸۔تفسیرالمیزان ، جلد۱۷ ،ص ۱۲۸۔
سوره صافات / آیه 1 - 5سوره صافات / آیه 6 - 10
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma