شیاطین کے نفوذ سے آسمان کی حفاظت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 6 - 10توضیح و تکمیل

گزشتہ آ یات میں فرشتوں کی مختلف صفوں کے بار ے میں گفتگو تھی ،جن کی بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں اور زیربحث آیات میں ان کے مد مقابل یعنی شیاطین کے مختلف گرو ہوں اوران کے انجام کے بار ے میں گفتگو ہے . ہوسکتاہے کہ یہ مشرکین کی اس جماعت کے اعتقاد کو باطل کرنے کے لیے ایک مقدمہ ہو، جوشیاطین اورجنوں کواپنا معبود قراردیتے ہیں ضمنی طور پر اس میں توحید کاایک درس بھی پوشیدہ ہے۔
ارشاد ہوتاہے : ہم نے نزدیکی آسمان ( نچلے آسمان ) کوستاروں سے مزّین کیاہے (إِنَّا زَیَّنَّا السَّماء َ الدُّنْیا بِزینَةٍ الْکَواکِب) (۱) ۔
سچ مچ تاریک اور ستاروں بھری رات میں صفحہ ٴ آسمان پر ایک نگاہ سے اس قسم کاخوبصورت منظر انسان کے سامنے مجسّم ہوتاہے کہ وہ مسحور ہو کر رہ جاتاہے۔
گو یا تاروں بھری را ت زبانے زبانی سے ہم سے گفتگو کر رہی ہے اورخلقت کے راز ہم سے بیان کررہی ہے گو یاسب کے سب تارے شاعر ہیں جو وپے درپے عشق وعرفان میں ڈوبی ہوئی خوبصورت غزلیں گار ہے ہیں ۔
ان کا ٹمٹما نااورپلکیں جھپکنا ایسے رازوں کوبیان کرتاہے کہ جوسوائے عاشق ومعشوق کے اور کہیں نہیں ہوتے ۔
واقعاً آسمان کے ستاروں کامنظر اس قد ر خوبصُورت ہے کہ ہر گز آنکھ اس کے دیکھنے سے نہیں تھکتی،بلکہ انسانی وجود سے ساری خسگی دُور کردیتاہے ( اگرچہ یہ مسائل ہمارے زمانے میں شہروں کے رہنے والوں کے لیے کچھ مفہوم نہیں رکھتے کیونکہ وہ کار خانوں کے دھوئیں میں ڈوبے رہتے ہیں اوران پر ایک سیاہ تاریک آسمان ہوتاہے،لیکن دیہاتوں کے رہنے والے اب بھی قرآن کے اس ارشاد کی عملی صورت یعنی آسمان کادرخشاں ستاروں سے مز یّن ہونادیکھ سکتے ہیں ) ۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ قرآن کہتاہے کہ ” ہم نے نچلے آسمان کوستاروں سے مزیّن کیاہے “ حالانکہ جومفروضہ اس زمانے کے افکار اور دانش مندوں میں تسلیم کیاجاتاتھا وہ یہ تھاکہ صرف اوپر والاآسمان ثواب ستاروں کا آسمان ہے ( بطلمیوس کے مفروضہ کے مطابق آٹھواں آسمان ) ۔
لیکن جیساکہ کہ ہم جانتے ہیں کہ اس مفروضہ کاباطل ہوناثابت ہوچکا ہے اورقرآن کااس زمانے کے غیر صحیح مفروضہ کی پیروی نہ کرنااس آسمانی کتاب کازندہ مُعجزہ ہے۔
دوسراقابلِ توجّہ نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سائنس کی رُو سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ستاروں کاخوبصورتی کے ساتھ ٹمٹما نااور پلکیں جھپکنااس کُرّہ ہوائی کی بناپر ہے جس نے اطرافِ زمین کوگھیر رکھاہے اوراسی کی بنا پر یوں دکھائی دیتاہے اور یہ بات ” السماء الدنیا “ (نچلے آسمان ) کی تعبیر کے ساتھ بہت سی مناسب ہے.فضائے زمین سے باہر ستارے دھندلے دھندلے نظر آتے ہیں اوران میں یہ چمک دمک نہیں ہوتی ۔
بعد والی آیت میں آسمان کے منظر کے شیاطین کے نفوذ سے محفوظ رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر مایاگیاہے : ہم نے اسے ہر خبیث اورخبر ونیکی سے عاری شیطان سے محفوظ رکھاہے (وَ حِفْظاً مِنْ کُلِّ شَیْطانٍ مارِدٍ) ( ۲)
بعض نے یہ احتمال بھی ظاہر کیاہے کہ ” بزینة “ کے محل پر عطف ہوجو ” مفعول لہ “ ہے اور یہ تقد یر میں اس طرح ہوگا :
انا خلقنا الکواکب زینة للسماء و حفظاً
” مارد “ ” مرد “ (بروزنِ ” سرد“ کے مادہ سے اصل میں اس بلند سرزمین کے معنی میں ہے جوکسی بھی قسم کے سبزے سے خالی ہو ، وہ درخت جس کے پتے جھڑ جائیں اسے” امرود “ کہتے ہیں اسی مناسبت سے اس نوجوان پر جس کے چہر ے پر بال نہ اُگے ہوں اس لفظ کا اطلاق ہوتاہے یہاں ” مارد“ سے مراد وہ شخص ہے جو ہر قسم کی خیروبرکت سے عا ری ہو . ہماری تعبیر کے مطابق” جس کے پاس کچھ نہ ہو “ ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ شیطانوں کے اوپر چڑھنے سے آسمانوں کا محفوظ رکھنے کا ایک ذ ریعہ ستاروں کا ایک گروہ ہے اور انھیں ”شہب“ کہاجاتاہے .جس کی طرف بعد کی آیات میں اشارہ ہوگا۔
اس کے بعد مزید فر مایاگیاہے : وہ عالمِ بالا کے فرشتے کی باتوں کونہیں سُن سکتے اورغیب کے اسرار ان سے نہیں معلوم کرسکتے اور اگر ایساکرنا چاہتے ہیں توہر طرف سے شہاب کے تیروں کانشانہ بنتے ہیں (لا یَسَّمَّعُونَ إِلَی الْمَلَإِ الْاٴَعْلی وَ یُقْذَفُونَ مِنْ کُلِّ جانِبٍ ) ۔
ہاں انھیں شدّت کے ساتھ پیچھے کی طرف دھکیل دیاجاتاہے اورانھیں آسمان کے منظر سے نکال دیاجاتاہے اوران کے لیے دائمی عذاب ہے (دُحُوراً وَ لَہُمْ عَذابٌ واصِبٌ) ۔
” لا یسمعون “ ( جو لایتسمعون کے معنی میں ہے ) اس کامفہوم یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں ” ملااعلیٰ “ کی خبریں سُن لیں لیکن انھیں اجازت نہیں دی جاتی۔
” ملااعلیٰ “ عالم ِ بالا کے فرشتوں کے معنی میں ہے کیونکہ ” ملا“ اصل میں اس جماعت اور گروہ کوکہاجاتاہے جو ایک نظر یہ پراتفاق رکھنے والوں پر مستمل ہو اور دوسروں کی آنکھ کو اس ہم آہنگی ووحدت سے پُر کردیں اور مسند اقتدا ر کے گرد موجود افراد اور اشراف و اعیان کوبھی ” ملا “ کہتے ہیں کیونکہ ان کی ظاہری وضع قطع آنکھ کو پُر کرتی ہے لیکن جب اس کی ” اعلیٰ“ کے ساتھ توصیف ہو تو پھر حق تعالیٰ کے ملائکہ کرام اور فر شتگان و الامقام کی طرف اشارہ ہوتاہے۔
” یقذ فون “ ” قذف“ کے مادہ سے پھینکنے اور دور کی جگہ پر تیر مارنے کے معنی میں ہے اوریہاں مراد ” شہب “ کے ذ ریعے ” شیاطین “ کو بھگانا اور دور دھکیلنا ہے ، جس کی تشریح ہم بعد میں بیان کریں گے اوریہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ انھیں اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتاکہ وہ ملااعلیٰ کی قلمر و کے قریب جاسکیں ۔
” دحوراً “ ” دحر ‘ ‘ ( بروزن ِ ’ ’ دہر “ ) کے مادہ سے دھکیلنے اور دور کرنے کے معنی میں ہے اور” واصب“ اصل میں پرانی بیماریوں کے معنی میں ہے لیکن کلی طور پر دائم و مسلسل کے معنی میں ہے اور کبھی یہ لفظ خالص کے معنی میں بھی آیاہے ( ۳) ۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیاطین نہ صر ف آسمان تک پہنچنے سے روک دیئے جاتے اوربھگار ئے جاتے ہیں بلکہ آخر کار دائمی عذاب میں بھی گرفتار ہوجاتے ہیں ۔
آ خر ی زیر بحث آیت میں سرکشی اور جسارت کرنے والے شیطانوں کے ایک گرو ہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے جو آسمان کی بلندی کی طرف جانے کاارادہ کرتے ہیں، قرآن فرماتاہے: مگر وہ جو مختصر سے لمحے کے لیے چوری چُھپے اچٹتی سی بات سننے کے لیے آسمان کے نزدیک ہوجائیں تو شہاب ِ قاقب ان کا پیچھا کرتے ہیں اور انھیں جلادتے ہیں (إِلاَّ مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاٴَتْبَعَہُ شِہابٌ ثاقِب) ۔
”خطفة “ یعنی کسی چیز کوجلدی سے اچک لینا ۔
” شھاب“ اصل میں اس شُعلہ کے معنی میں ہے جو جلتی ہوئی آگ سے بلند ہوتا ہے اوروہ آتشیں شعلے جوآسمان میں ایک لمبے خط کی صورت میں ابھر تے ہیں انھیں بھی ” شہاب“ کہتے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ ستارے نہیں ہیں بلکہ ستاروں کے مانند پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑ ے ہیں جوفضا میں پھیلے ہوئے ہیں . یہ زمین کی کشش کی حد ود میں میں آ جاتی ہیںتوپھر زمین کی طرف دوڑ تے ہیں اور زمین کے چا روں طرف پھیلی ہوئی ہوا کے ساتھ تیزی اور شدت سے ٹکرانے کی وجہ سے شعلہ ورہوجاتے ہیں ۔
” ثاقب “ نفوذ کرنے والے اور سوراخ کرنے والے کے معنی میں ہے گو یا شدید نور کے زیر اثر آنکھوں میں سوراخ کرکے انسان کی آنکھ کے اندر نفوذ کرجاتاہے،اور یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ جس چیز سے ٹکراتاہے اس میں سوراخ کرکے آگ لگادیتاہے۔
اس طرح شیاطین کے آسمانوں میں نفوذ کرنے میں دوطرح کی رکاوٹیں موجود ہیں ۔
پہلی رکاوٹ توہر طرف سے دھتکا ر اجانا اوربھکایاجاناہے . اور وہ بھی ظاہری طور پر شہب ہی کے ذریعے صورت پذ یرہوتاہے۔
دوسری رکاوٹ شہاب کی ایک خاص قسم ہ جس کانام ” شہاب ثاقب“ ہے اوروہ ان کے انتظار میں رہتے ہیں .وقت بے وقت جب کبھی وہ چوری چُھپے کوئی بات سننے کے لیے آسمان پر ملا اعلیٰ کے نزدیک ہوتے ہیں تووہ ان سے ٹکرا جاتے ہیں ۔
اسی طرح کی بات سورہ ٴ حجر کی آیہ ۱۷ اور ۱۸ میں کی گئی ہے ، ارشاد ہوتاہے :
وَ حَفِظْناہا مِنْ کُلِّ شَیْطانٍ رَجیمٍ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاٴَتْبَعَہُ شِہابٌ مُبینٌ
ہم آسمانی بُر جوں کی ہرراندہ ٴ درگاہ شیطان سے حفاظت کرتے ہیں ، مگر جوچوری چھپے باتیں سننے لگے تو شہابِ مبین اس کے پیچھے لگ جاتاہے ( انھیں بھگادیتا ہے او ر جلادیتاہے ) ۔
اس تعبیر کی نظیر سورہ ٴ ملک کی آیہ ۵ میں بھی آئی ہے۔
وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّماء َ الدُّنْیا بِمَصابیحَ وَ جَعَلْناہا رُجُوماً لِلشَّیاطینِ
ہم نے نچلے آسمان کوچراغوں کے ساتھ مزیّن کیاہے اوران ( میں سے ایک حصّہ ) کو شیطانوں کو دور کرنے اوربھگانے کے لیے قرار دیاہے۔
۱۔ ترکیب کے لحاظ سے ” الکو اکب “ ’ ’ زینب “ کابدل ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ عطف بیان ہو اورزینب یہاں پر اسمِ مصدر ی کامعنی رکھتا ہو نہ کہ مصدری معنی کا . ادبی کُتب میں ہے کہ جس وقت نکر ہ معرفہ سے بدل جائے تو اس کے ساتھ ایک صفت ہونی چاہیے لیکن اس کے برعکس ضروری نہیں ہے۔ ( غور کیجیے گا )
۲۔ ” حفظ “ بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق فعلِ مقدّرکے لیے ” مفعول مطلق “ ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا :
وحفظنا ھا حفظاً
۳ ۔ ” واصب “ کے معنی میں کے بار ے میں جلد ۱۱ میں سورہٴ نحل کی آیہ ۵۲ کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔
سوره صافات / آیه 6 - 10توضیح و تکمیل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma