مشرکین کے منصُوبے خاک میں مِل گئے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 95 - 100۔ ہرچیز کاخالق وہی ہے

آخر بُت شکنی کے واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی الزام میں عدالت میں لے گئے ۔
وہ انہیں ملزم ٹھہراتے ہوئے ان سے پوچھنے لگے کہ :۔
” اس بات کی وحاحت کرو کہ بُت خانے کا وحشت ناک حادثہ کس کے ہاتھ سے انجام پایا ہے “ ۔
قرآن نے اس واقعے کی تفصیل سُورہ ٴ انبیاء میں بیان کی ہے اور زیر ِ بحث آ یات میں اس کے صرف ایک حساس حِصّے کا ذکر کیا ہے اور وہ ہے بُت پرستی کے باطل ہونے کے بار ے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان سے آخر ی گفتگو . ابراہیم نے کہا :کیاتم ایسی چیز کی پرستش کرتے ہوجسے تم اپنے ہاتھ سے تراشتے ہو (قالَ اٴَ تَعْبُدُونَ ما تَنْحِتُونَ ) ۔
کیاکوئی بھی عقل مند انسان اپنی بنائی ہوئی چیز کی عبادت کرتاہے ؟کیاکوئی ذی شعوراپنی مخلوق کے سامنے زمین پر زانو جھکاتاہے ؟کون سی عقل و منطق تمہیں ایساکرنے کی اجازت دیتی ہے ؟
معبود تو وہ ہونا چاہیے جو انسان کاخالق ہو نہ وہ کہ جو خود انسان کاتراشیدہ ہو . اب اچھی طرح سے غور کرو اور معبودِ حقیقی کو تلاش کرو. ” خدانے تمہیں بھی پیدا کیاہے اوران بتوں کو بھی جنہیں تم بناتے ہو “ (وَ اللَّہُ خَلَقَکُمْ وَ ما تَعْمَلُونَ ) ۔
آسمان و زمین سب اسی کی مخلوق ہیں اور زمان ومکان سب اسی کے بنائے ہوئے ہیں . ایسے خالق کے آستانے پر سر رکھنا چاہیے اوراس کی پر ستش و عبادت کرنا چاہیے ۔
یہ ایک بہت ہی قوی اوردندان شکن دلیل ہے ، جس سکے مقابلے میں ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔
” ما تعملون “ میں ” ما “ اصطلاح کے مطابق ” ماموصولہ “ہے ( نہ کہ مامصد ر یہ ) حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدانے تمہیں بھی پیدا کیاہے اور تمہاری مصنوعات کوبھی . اگر بتو ں پر انسان کے ” مصنوع “ یا ” یامعمول “کے لفظ کا اطلاق ہو تو یہ اس صورت کی بناپر ہے جو انسان اسے دیتاہے ، ور نہ اس کامادہ توخداہی نے پیداکیاہے . یہ بات بالکل اس طرح ہے کہ کہتے ہیں یہ فرش ، یہ گھر اور یہ گاڑی اور بس انسان کی بنائی ہوئی ہے . یقینا اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انسان نے اس کے مو اد کو بنا یاہے بلکہ ان کی شکل وصورت انسان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہے۔
لیکن اگر ” ما“کومصدر ی معنی میں لیں تو اس کامفہوم یہ ہوگا کہ خدانے تمہیں بھی پیدا کیاہے اور تمہار ے اعمال کو بھی . البتہ یہ معنی بھی غلط نہیں ہے اوربعض کے نظریہ کے برخلاف جبرپر بھی دلالت نہیں کرتا ، کیونکہ ہمار ے اعمال اگرچہ ہمارے ارادہ واختیار سے انجام پاتے ہیں لیکن کسی کام کے کرنے کے لیے ارادہ و قدرت اور دوسر ی قوتیںجن کے ساتھ انسان اپنے افعال انجام دیتاہے سب خدا کی طرف سے ہیں لیکن اس کے باوجود آ یت اس معنی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ بتوں پردلالت کرتی ہے . آیت یہ کہتی ہے کہ ” خدا تمہارا بھی خالق ہے . اور ان بتوں کا بھی جنہیں تم نے راشا ہے “ اور بات کالطف بھی اسی میں ہے ،کیونکہ بحث بتول کے بار ے میں تھی نہ کہ انسانی اعمال کے بار ے میں
درحقیقت یہ آیت اس بات کے مشابہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام اور جا دو گروں کی داستان میں آئی ہے ، جہان قرآن بیا ن کرتاہے۔
فاذ ا ھی تلقف مایاٴ فکون
موسٰی نے عصا پھینکا ، تو وہ بہت بڑا اژدہ بن گیا اور جو کچھ انہوں نے جھوٹ موٹ بنارکھاتھا انھیں نگل گیا . ( اس سے مراد جا دو گروں کے بنائے ہوئے سانپ ہیں ) ۔ ( اعراف ۔ ۱۱۷)
لیکن ہم جانتے ہیں کہ جھوٹے اورسرکش لوگ کبھی بھی منطق و استدلال سے آشنا نہیں رہے . اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طاقتور اورعمدہ دلیل کا بابل کے جا بر نظام کے سرداروں کے دلوں پر کوئی اثر نہ ہو سکتاہے مستضعف عوام کے ایک گروہ کواس نے بیدار بھی کیاہو . لیکن وہ مستکبر ین جو اس توحیدی منطق کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے ، طاقت ، نیز ے کی نوک اور آگ کی منطق کے ساتھ میدان میں آگئے . یہ وہ منطق جس کے سوا اورکوئی بات انہیں سمجھائی نہ دیتی تھی.انہوں نے اپنی طاقت کاسہارا لیااور چلاّ کر کیا :اس کے لیے اونچی سی جگہ بناؤ اوراس کے اندر آ گ روشن کرو اور اسے اس جلانے والی جہنم میں پھینک دو۔ (قالُوا ابْنُوا لَہُ بُنْیاناً فَاٴَلْقُوہُ فِی الْجَحیمِ ) ۔
اس تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ پہلے یہ حکم دیاگیا کہ ایک بہت بڑی چا ر دیواری بنائی جائے اور پھر اس کے اندر آگ جلائی جائے . شاید اس کی وجہ سے یہ ہو کہ ایک آ گ کو پھیلنے اوراحتمالی خطرات سے روکا جائے .دوسرے وہ دوزخ جس کی ابراہیم علیہ السلام بُت پرستوں کو دھمکی دیتے تھے عملی طور پر تیار کردی جائے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جیسے ایک انسان کوجلانے کے لیے لکڑ یوں کاایک چھوٹا ساگٹھا ہی کافی تھا . لیکن بتوں کے ٹو ٹنے سے ان کے دل میں جو آگ بھڑک رہی تھی وہ اسے ٹھنڈ ا کرنا چاہتے تھے اور جہاںتک انتقام لیاجاسکتا تھا لینا چاہتے تھے اور ضمنی طور پر وہ بتوں کی شوکت و عظمت بھی ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ شاید ا ن کی بر با د ہو نے والی آ بر و پلٹ آ ئے آ نیزاپنے تمام مخالفین کو وہ درس ِ عبرت دینا چاہتے تھے تاکہ یہ حادثہ پھر بابل کی تاریخ میں نہ ہر ا یاجائے . اس لیے وہ آگ کا در یا تیا ر کرنا چاہتے تھے ( اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ” جحیم “ لغت میں اس آگ کے معنی میں ہے جو ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہہ رکھی گئی ہو ) ۔
بعض نے ” بنیان“سے “ ” منجنیق “مراد لی ہے جس سے دورسے بھاری چیزیں پھینکی جاتی تھیں.لیکن اکثر مفسرین نے پہلی تفسیرکواختیار کیاہے کہ” بنیان “سے مراد عمارت اوربڑ ی چا رد یواری ہے۔
یہاں قرآن اس مسئلے کے جز ئیات کی طرف جوسُورہ ٴ انبیاء میں آچکے ہیں ، اشارہ نہیں کرتا . صرف یکجائی طور پر ایک مختصر اورعمدہ پیرائے میں اس قِصّے کے آخر ی حِصّے کو اس طرح بیان کرتاہے : انہوں نے ابراہیم کوختم کرنے کے لیے ایک زبردست منصوبہ تیار کیاتھا لیکن ہم نے انہیں پست اورمغلوب کردیا (فَاٴَرادُوا بِہِ کَیْداً فَجَعَلْناہُمُ الْاٴَسْفَلین) ۔
” کید “ اصل میں ہر قسم کی ” تدبیر سوچنے “ کے معنی میں ہے . چاہے وہ صحیح راستے کے لیے ہو یاغلط کے لیے ، آگر چہ عام طور پر یہ لفظ مذموم موقعوں کے با ر ے میں استعمال ہوتاہے . یہاں یہ لفظ نکرہ کی صورت میں آ یا ہے . جبکہ نکرہ عظمت واہمیّت پر دلالت کر تاہے ،لہذ ا یہ ایک وسیع و عریض منصوبے کی طرف اشارہ ہے ، جو انہوں نے حضرت ابر اہیم علیہ السلام کو ختم کرنے اوران کی قولی و عملی تبلیغ کے اثرات ختم کرنے کے لیے بنا یا تھا ۔
ہاں خدانے انہیں اسفل اور نچلے درجے میں قرار دیا اور ابراہیم کو اعلیٰ مرتبہ عطا کیا . جیسا کہ ان کی منطق میں بھی برتر ی تھی . نیز آگ میں جلانے کے واقعے میں بھی خدانے انہیں برتر رکھا اوران کے طا قتور دشمنوں کو پست کردیا . آگ کو ابرہیم علیہ السلام کے لیے سرد اور سلامتی والا بنادیا . یہاں تک کہ وہ ایک با ل تک بھی نہ جلاسکی اوروہ آگ کے دریاسے صحیح و سالم باہر نکل آ ئے ۔
ایک دن میں تو وہ نوح علیہ السلام کو ” غرق “ ہونے سے نجات دیتاہے اور دوسر ے دن ابراہیم علیہ السلام کو ” حرق “ ( جلنے ) سے ، تاک سب پر واضح کردے کہ پانی اورآگ اس کے تابع فر مان ہیں اور جوکچھ خدا حکم دیتاہے وہ وہی کرتے ہیں ۔
ابرا ہیم علیہ السلام اس ہولناک حادثہ اورخطرناک سازش سے جو دشمن نے ان کے خلاف کی تھی صحیح وسالم اورسربلند باہر نکل آ ئے ، اور چونکہ بابل میں آ پ نے اپنی پیغام رسانی کی ذمہ داری کو ادا کردیاتھا لہذا شام کی مقدس سر زمین کی طرف ، ہجرت کاارادہ کیااور کہا ” میں اپنے پروردگار کی طرف جاتاہو ں وہ مجھے ہدایت کر ے گا “ (وَ قالَ إِنِّی ذاہِبٌ إِلی رَبِّی سَیَہْدین) ۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا کوئی مکان نہیں رکھتا ، لیکن آ لو دہ اور گند ے ماحول سے پاک ماحول کی طر ف ہجر ت کرنا ، خدا کی طرف ہجرت کرنا ہے۔
علاوہ ازیں انجام ِ فریضہٴ الہٰی کی طرف ہجرت دوست کی طرف سفر کرنا ہے ،اوراس سفر میں ہرجگہ ہادی و رہنما خدا ہے۔
یہاں خدا سے ان کاپہلاتقاضا اور درخواست جو مذ کورہ بالا آیات میں مذکور ہے ،صالح اور نیک فرزند کی درخواست ہے . ایسافرزند جو ان کے راستے کو دوام بخشے اوران کے اد ھورے کاموں کی تکمیل کرے . یہ وہ منزل تھی کہ انہوں نے عرض کیا: ” پر وردگار ا ! مجھے ایک فرزندِ صالح عطافر ما “ ۔ (رَبِّ ہَبْ لی مِنَ الصَّالِحین) ۔
کتنی عمدہ تعبیر ہے ” صالح اور نیک فرزند “ اعتقاد و ایما ن کے لحاظ سے صالح ، گفتار وعمل کے لحاظ سے صالح اور تمام جہات سے صالح ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ایک جگہ تو ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے درخواست کرتے ہیں وہ صالحین میں سے ہوں ،جیسا کہ قرآن ان کے قول کونقل کرتاہے :
رب ھب لی حکماً والجقنی بالصالحین
پروردگارا ! مجھے علم ودانش مرحمت فر مااور مجھے صالحین سے ملحق کردے ۔شعراء. ۸۳)
جبکہ یہاں یہ تقاضا کرتے ہیں کہ مجھے اولادِ صالح مرحمت فرما کیونکہ صالح ایک جامع صفت ہے جس میں ایک کامل انسان کی تمام خو بیاں جمع ہوتی ہیں ۔
خدا نے بھی اس دعا کو قبول کر لیا اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام یسے صالح بیٹے انہیں مرحمت فر مائے . چنانچہ اسی سورُہ کی بعد والی آ یات میں یہ بیان ہوا ہے۔
و بشر ناہ باسحاق نبیاً من الصالحین
ہم نے اسے اسحٰق کی پیدائش کی بشارت دی جو صالحین میں سے نبی ہے۔
نیز اسماعیل کے بار ے میں کہتاہے :
وَ إِسْماعیلَ وَ إِدْریسَ وَ ذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِنَ الصَّابِرینَ وَ اٴَدْخَلْناہُمْ فی رَحْمَتِنا إِنَّہُمْ مِنَ الصَّالِحینَ
اور اسماعیل ،ادریس اورذاالکفل کو یاد کر و ،وہ سب صابرین میں سے تھے اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا کیونکہ وہ صالحین میں سے تھے ۔ ( انبیاء ۸۵ ، ۸۶)
سوره صافات / آیه 95 - 100۔ ہرچیز کاخالق وہی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma