اہل دوزخ کے لیے کچھ جانکاہ عذاب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 62 - 70سوره صافات / آیه 71 - 74

جنت کی قیمتی اور روح بخش نعمتوں کے بیان کے بعد زیر بحث آ یات میں دوزخ کے درد ناک اورغم انگیز عذابوں کو بیان کیاگیاہے . ان کی اس حرکت سے تصویرکشی کی گئی ہے جو مذ کورہ نعمتوں کاموازنہ کرنے میںبیدار نفوس پرگہرا اثر مرتّب کرتی ہیں اور انھیں ہرقسم کی برائی اورناپاکی سے باز رکھتی ہیں ۔
پہلے فر مایاگیا ہے : کیا یہ جاودانی اور لذّت بخش نعمتیں ، جن کے ساتھ جنتیوں کی پذ یرائی کی جائے گی بہتر ہیں یا زقوم کانفرت انگیز درخت . (اٴَ ذلِکَ خَیْرٌ نُزُلاً اٴَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ) ۔
” نزل “ کی تعبیراس چیز کے لیے بولی جاتی ہے جو مہمان کی پذ یرائی کے لیے تیار کی جاتی ہے . بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ پہلی چیز ہے کہ جس کے ساتھ تازہ وارد شدہ مہمان کی پذ یرائی کرتے ہیں . یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہشتی لوگوں کی عزیز محترم مہمانوں کی طرح پذیرائی کی جائے گی ۔
قرآن کہتا : کہ کیایہ بہتر ہے یا ” زقوم “ کادرخت ۔
” بہتر“ کی تعبیراس امرکی دلیل نہیں ہے کہ درخت زقوم کوئی اچھی چیز ہے . لیکن جنّت کی نعمتیں اس سے بہتر ہیں . کیونکہ ایسی تعبیریں عربی زبان میں بعض اوقات ایسے موقعوںپ استعمال ہوتی ہیں جہاں ایک طرف اصلاً کسی قسم کی خوبی نہیں ہوتی لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ایک قسم کاکنایہ ہو . اس کی مثال بالکل اس طرح ہے کہ ایک شخص طرح طرح کے گناہوں سے آلود گی کی بنا پر لوگوں میں بہت زیادہ رسوا ہو گیا ہو اور ہم اس سے یہ کہیں کہ کیا یہ رسوائی بہتر ہے یاعزّت و آبر و مندی ؟
” زقوم “ اہل لغت کے قول کے مطابق ایک کڑ وی بد بو دار اوربدذ ائقہ پودا ہے ( ۱) ۔
بعض مفسّرین کے قول کے مطابق یہ ایک ایسے پودے کانام ہے جس کے چھوٹے چھوٹے کڑوے اوربد بو دار پتے ہوتے ہیں اوروہ ” تہامہ “ کے علاقے میں اگتا ہے اور مشر کین اس سے آگا ہ تھے ( ۲) ۔
تفسیر ” روح المعانی “ میں یہ اضافہ بھی کیاگیا ہے کہ اس پودے سے ایک شیرہ نکلتاہے جو انسان کے بدن پر لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے (3) ۔
” راغب “ ” مفردات “ میں کہتاہے ’ ’زقوم“ دوزخیوں کی ہرقسم کی تنفر آ میز غذ ا ہے۔
” لسا ن العرب “ کا موٴ لف کہتاہے :
یہ مادہ اصل میں نگل جانے کے معنی میں ہے۔
اس کے بعد مزید کہتاہے :
جس وقت آیہ ” زقوم “ نازل ہوئی توابوجہل نے کہا اس قسم کادرخت ہماری زمین میں نہیں آ گتاتم میں سے کون شخص ”زقوم “ کے معنی جانتاہے ؟
وہا ں ایک شخص افریقہ کا رہنے والا موجود تھا اس نے کہا : زقوم افریقی زبان میں ” مکھن “ اور ” خرما “ کے معنی میں ہے۔
ابوجہل نے تمسخر اڑا تے ہوئے پکار کر کہا :
اے کنیز ! کچھ خرمے اور مکھن لے آؤ تاکہ ہم زقوم کھائیں ۔
وہ کھاتے جاتے تھے اور تمسخراڑاتے جاتے تھے اور کہتے تھے :
” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آخر ت میں ہمیں اس سے ڈراتاہے “ ۔
اس پر وحی نازل ہوئی اورانھیں یہ داندان شکن جواب دیا جوبعد والی آیت میں آیاہے۔
بہرحال لفظ ” شجرة “ہمیشہ درخت کے معنی میں نہیں ہوتا . بعض اوقات گھاس پُھونس اورپو دوں کے معنی میں بھی آتاہے اور قرائن اس ات کی نشاندہی کر تے ہیں کہ یہاں اس سے مراد گھاس پونس ہی ہے۔
اس کے بعد قرآن اس گھاس کی بعض خصوصیات ب یان کر تے ہوئے کہتاہے :ہم نے اسے ظالموں کے لیے رنج اورعذاب کاموجب قرار دیا ہے (إِنَّا جَعَلْناہا فِتْنَةً لِلظَّالِمینَ)۔  
” فتنة “ممکن ہے رنج وعذاب کے معنی میں ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آ زمائش کے معنی میں ہو . جیسا کہ قرآن میں اکثر موقعوں پر اسی معنی کیلیے آیاہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انھوں نے جب ” زقوم کانام سنا تمسخر اوراستہزاء شروع کردیا اور اس بنا پروہ ان ستم گر وں کی آزمائش کاذریعہ ہوگیا ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : وہ ایسا درخت ہے جو قعر جہنم سے اگتا ہے (إِنَّہا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فی اٴَصْلِ الْجَحیمِ) ۔
لیکن ان ظالموںنے اپنا تمسخر اوراستہزاء جاری رکھا اور یہ کہا : کیایہ ممکن ہے کہ پودے یاکوئی درخت قعر جہنم سے اُگے ؟آگ کہاں اوردرخت اور گھاس کہاں ؟اس بنا پر اس گھاس اوراس کے اوصاف کاسننا اس دنیا میں ا ن کے لیے آز مائش ہے اور وہ خودان کے لیے آ خرت میں دردورنج کاسبب ہے۔
گو یا وہ اس نکتے سے غافل تھے کہ وہ اصول جو اس جہان آخر ت کی زندگی پر لا گوہیں ،وہ اس جہان سے بہت مختلف ہیں. وہ درخت اور پود اجو قعر جہنم سے اگتاہے ،جنہم کے رنگ کا ہے اور اس نے جہنم کے ماحول میں پر ورش پائی ہے نہ کہ وہ اس جہان کے باغو ں کی مانند ہے جو اس جہان کے باغوں میں اُگتے ہیں اور شاید و ہ اس نکتے سے بے خبرنہیںتھے ،بلکہ ان کامقصد توصرف تمسخر اڑانا اوراستہزاء کرنا تھا ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے : اس کاشگوفہ شیاطین کے سروں کی طرح ہے (طَلْعُہا کَاٴَنَّہُ رُؤُسُ الشَّیاطین) ۔
”طلع “ عام طور پر کھجور کے شگوفے کو کہا جاتاہے جس کی چھال سبز رنگ کی ہوتی ہے اوراس کے اندر سفید رنگ کے دھاگے سے ہوتے ہیں جو بعدمیں کھجورکے خوشے میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
لفظ ” طلع “ ”طلوع “ کے مادہ سے ہے اس کی مناسبت یہ ہے کہ یہ پہلا پھل ہے جودرخت کے اوپر ظاہر ہوتاہے اورطلوع کرتاہے۔
یہاں ایک سوال سامنے آ تاہے کہ کیا لوگوں نے شیاطین کے سروں کودیکھا ہواہے کہ قرآن ’ ’ زقوم “ کے شگو فوں کو اُن سے تشبیہ دیتاہے۔
مفسرین نے اس سوال کے متعدد جواب دیئے ہیں ۔
بعض نے تو کہا ہے کہ شیطان کاایک معنی ایک قسم کابد منظر سانپ ہے ،جس کے ساتھ زقوم کے شگوفے کو تشبیہ دی گئی ہے۔
بعض نے کہاہے یہ ایک بدصورت قسم کی گھاس ہے،جیساکہ کتاب ” منتھی الادب “میں آیاہے ” راٴس الشیطان “ یا ” رؤس الشیاطین “ ایک کھاس ہے۔
لیکن جوبات زیادہ صحیح نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تشبیہ انتہائی قباحت اوراس کے تنفّر آمیزشکل کے اظہار کے لیے ہے . کیونکہ انسان جس چیزسے متنفّر ہو اس کے لیے اپنے ذہن میں ایک قبیح اوروحشت ناک تصویر کشی کرتاہے اور جس چیز سے لگاؤ ہو اس کے لیے ایک خوبصورت اورپیاراساتصوّر ہوتاہے۔
اس لیے لوگ جوتصو یریں فرشتوں کی بناتے ہیں ، ان میں انہتائی خوب صُورت اور زیباترین چہروں کی تصویر کشی کرتے ہیں . اوراس کے برعکس شیطانوں اور دیوؤں کے لیے بدترین چہرے بناتے ہیں حالانکہ نہ توانھوں نے فرشتوں کو دیکھا ہے او ر نہ ہی شیطانوں اور دیوؤں کو ۔
روز مرّہ کے الفاظ میں اکثر دیکھاجاتا ہے کہ کہتے ہیں : فلاں آدمی دیوکے مانند ہے یادیو کے شکل رکھتاہے۔
یہ سب تشبیہات،انسانوں کے ذہنی تصوّرات کی بنیاد پر ، مختلف مفاہیم کے اعتبار سے لطیف اومُنہ بولتی ہیں ۔
قرآن مزید کہتاہے : یہ مغر ورظالم یقینایہی گھاس کھائیں گے اوراسی سے شکم پُر کریں گے (فَإِنَّہُمْ لَآکِلُونَ مِنْہا فَمالِؤُنَ مِنْہَا الْبُطُون) ۔
یہ وہی فتنہ عذاب ہے جس کی طرف گزشتہ آ یات میں اشارہ ہواہے . اس دوزخ کی گھاس جوبہت ہی بدبو دار ہے جس کا ذائقہ کڑا و ہے اور جس کے شیرہ سے بدن میں ورم پیدا ہو جاتاہے اوراسے کھانا بھی زیادہ مقدا ر میں ہوتو اندازہ کیاجائے کہ یہ کس قدر درنا ک عذا ب ہے ( ۴) ۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اس نا گوار اورکڑوی غذا میں سے کھانا پیاس لگائے گا ،لیکن جس وقت وہ پیاسے ہوں گے تو کیا پئیں گے ،؟قرآن کہتاہے :ان دوزخیوں کے لیے اس زقوم کے بعد کھولتاہوا ، کثیف اور گنداپانی ہوگا (ثُمَّ إِنَّ لَہُمْ عَلَیْہا لَشَوْباً مِنْ حَمیمٍ) ۔
”شرب“ اس چیز کے معنی میں ہے جو کسی دوسری چیز کے ساتھ مل جائے اور” حمیم “ کھولتے ہوئے اور جلانے والے پانی کو کہتے ہیں ، اس بنا پر وہ گرم کھولتا ہواپانی جو وہ پئیں گے ، وہ بھی خالص نہیں ہوگا بلکہ آ لودہ اور گندہ ہوگا ۔
وہ تو دوزخیوں کی غذاب ہے اور یہ ان کے پینے کی چیز، لیکن اس پذ یرائی کے بعد وہ کہاں جائیں. قرآن کہتاہے : پھران کی بازگش جہنم کی طرف ہے۔ (ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحیمِ) ۔
بعض مفسرین نے اس تعبیر سے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ گرم اور آلودہ پانی جہنم سے باہر کے ایک چشمہ کا ہے . دوزخیوں کو پہلے ان جانو رو ں کی طرح جنھیں پانی کے گھاٹ پرلے جایاجاتاہے اسے پینے کے لیے وہاں بلایا جائے گا اوراسے پینے کے بعد دوبارہ جہنم کی طرف لوٹ جائیں گے ۔
بعض دوسروں نے کہا ہے کہ یہ دوزخ کے مختلف مقامات کی طرف اشارہ ہے کہ ظالموں کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقے کی طرف لے جا یا جائے گا،تاکہ وہ یہ جلانے والاپانی پئیں . پھرانھیں اصلی جگہ کی طرف لوٹا دیاجائے گا . لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔
جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے جنت کی نعمتوں کی حقیقی تصویر کشی اس دنیا میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی دوزخیوں کے عذاب کی . صرف دور سے ایک دھندلی سی تصویر مختصر سی عبارتوں کے ساتھ ہمارے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔
( پر وردگارا ! ہمیں ان عذابوں سے اپنے لطف وکرم کی پناہ میں محفوظ رکھ )
قرآن زیر بحث آخری آیت میں دوزخیوں کی ان درد ناک سزاؤں اور عذاب کے چنگل میں گرفتار ی کی اصل وجہ کو دومختصر اور پرمعنی جملو میں بیان کرتے ہوئے کہتاہے : انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کو گمراہ پایا (إِنَّہُمْ اٴَلْفَوْا آباء َہُمْ ضالِّینَ)۔
لیکن اس حال میں بھی وہ بے اختیار تیزی کے ساتھ انہی کے پیچھے درڑے چلے جاتے ہیں (فَہُمْ عَلی آثارِہِمْ یُہْرَعُون) ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ یہاں ” یھر عون “ ” اھرا ع “ کے مادہ سے ، صیغہ مجہول کی صُورت میں آیاہے اورسرعت اور تیزی کے ساتھ دوڑنے کے معنی میں ہے . یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انھوں نے اپنے بڑوں کی تقلید پراپنے دل اور دین کواس طرح سے لگا دیاہے کہ وہ انھیں بے اختیار تیزی کے ساتھ اپنے پیچھے دوڑارہے . گو یاوہ خود سے ان کاکوئی ارادہ ہی نہیں یہ ان کے انہتائی تعصّب اپنے بڑوں کے خر افات کے ساتھ شیفتگی کی طرف اشارہ ہے۔
۱۔ مجمع البحرین ، مادہ ” زقم “ ۔
۲۔تفسیرروح البیان ، جلد ۷ ،ص ۴۶۴۔
۳۔ روح المعانی ، جلد ۲۳ ،ص ۸۵۔
۴۔ ” منھا“ کی ضمیر ” شجرة “ کی طرف لوٹتی ہے اور یہ خوداس بات کے لیے قرینہ ہے کہ یہاں ”شجرة “ سے مراد گھاس ہے نہ کہ درخت کیوکہ گھاس کوتر کھاتے ہیں درخت کو نہیں ۔
سوره صافات / آیه 62 - 70سوره صافات / آیه 71 - 74
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma