ابراہیم کی بُت شکنی کا زبردست منظر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 83 - 94۱۔ کیا انبیاء بھی توریہ کرتے ہیں ؟
حضرت نوح علیہ السلام کی بھر پور تاریخ کے کئی گوشوں کو بیان کر نے کے بعد اب ان آیات میںبُت شکنی کے ہیر وحضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم حصّے کوبیان کیاگیاہے۔
یہاں پر حضرت ابرا ہیم کی بُت شکنی کے واقعے اوران سے بُت پرستوں کی شدید مڈھ بھیڑ کے بار ے میں گفتگو کی گئی ہے . دوسر ے حصّے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم فداکاری اوران کے فر زند کی بانی کے مسئلہ کاذکر کیاگیاہے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کایہ حِصّہ قرآن مجید میں صرف اسی مقام پر بیا ن کیاگیا ہے۔
پہلی آ یت میں قِصّہ ٴ ابراہیم علیہ السلام کو قِصّہ ٴ نوح علیہ السلام کے ساتھ اس طرح سے منسلک کیاگیا ہے : اورابراہیم نوح کے پیر و کاروں میں سے تھا (وَ إِنَّ مِنْ شیعَتِہِ لَإِبْراہیم) ۔
وہ اسی راہ ِ توحید و عدل اوراسی راہ ِ تقوٰی واخلاص پر گامز ان تھا جو نوح کی سُنّت تھی ، کیونکہ انبیاء سارے کے سارے ایک ہی مکتب کے مبلغ اورایک ہی یونیور سٹی کے استاد ہیں اوران میں سے ہرا یک دوسرے کے پرو گرام کو دوام بخشتا ، اسے آگے بڑھاتا اوراس کی تکمیل کرتاہے۔
کیسی عمدہ تعبیر ہے کہ ابراہیم نوح کے شیعوں میں سے تھے حالانکہ ان دونوں کے زمانے میں بہت فاصلہ تھا (بعض مفسّرین کے قول کے مطا بق تقریبا ً ۲۶۰۰ سال ) لیکن ہم جانتے ہیں کہ مکتبی رشتے میں زمانے کی حیثیت نہیں ہے ( ۱) ۔
قرآن کہتاہے :
فبھد اھم اقتدہ
اے پیغمبر ! گزشتہ ابنیاء کی ہدایت کی پیرو ی کر ۔ ( انعام . ۹۰)
اس اجمالی بیان کے بعد اس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے فر مایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جبکہ ابراہیم قلبِ سلیم کے ساتھ اپنے پروردگار کی بار گا ہ میں آ یا (إِذْ جاء َ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلیمٍ ) ۔
مفسّرین نے ”قلب سلیم “ کی متعدد تفسیریں بیان کی ہیں ، جن میں سے ہرایک اس مسئلے کی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مثلاً
وہ دل جوشرک سے پاک ہو ۔
وہ دل جو گناہوں ، کینہ اور نفاق سے پاک ہو ۔
وہ دل جو عشق ِ دنیا سے خالی ہو ۔
وہ دل جس میں خدا کے سوااور کچھ نہ ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ ” سلیم “ سلامت کے مادہ سے اور جب مطلق طور سے سلامت کہاجائے تو اس سے مراد ہر قسم کی اخلاقی ، اعتقادی بیماری سے سلامتی ہوگی ۔
قرآن مجید منافقین کے بار ے میں کہتاہے :
فی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزادَہُمُ اللَّہُ مَرَضا
ان کے دلوں میں ایک قسم کی بیماری ہے اورخدا بھی ( ان کی ہٹ دھرمی اور گناہ کی وجہ سے ) اس بیمار ی میں اضافہ کردیتاہے۔ ( بقرہ . ۱۰) ۔
” قلب ِ سلیم “ کی عمدہ ترین تفسیرا مام صادق علیہ السلام نے فر مائی ہے.آ پ علیہ السلام فر ماتے ہیں :
القلب السلیم الذ ی یلقی ربہ ولیس فیہ احد سواہ
قلب ِ سلیم ایک ایسادل ہوتاہے جو خدا سے اس حالت میں ملا قات کرے کہ اس میں خدا کے سوااور کچھ نہ ہو ( ۲) ۔
اس کے علاوہ ایک دوسر ی روایت میں امام صاد ق علیہ السلام سے ہی مر وی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فر مایا :
صاحب النیة الصادقة صاحب القلب السلیم ،لان سلامة القلب من ھو اجس المذ کورات تخلص النیة اللہ فی الامور کلھا
جو شخص نیّت صادق رکھتاہے وہ صاحب قلب سلیم ہے کیونکہ شرک و شک سے دل کی سلامتی نیت کو ہرچیز میں خالص کردیتی ہے ( ۳) ۔
قلب ِ سلیم کی اہمیّت کے بار ے میں یہی کافی ہے کہ قرآن مجید اسے روز ِ قیامت کے لیے اکیلاہی سرمایہٴ نجا ت شمار کرتاہے۔چنانچہ سورہ ٴ شعراء کی آیہ ۸۸ . ۸۹ میں اسی عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی یہ بیان کیاگیاہے :
یَوْمَ لا یَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ إِلاَّ مَنْ اٴَتَی اللَّہَ بِقَلْبٍ سَلیمٍ
اس دن مال و اولاد انسان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے ،البتہ جوقلبِ سلیم کے ساتھ بار گاہِ خداوندی میں حاضر ہوگا( ۴) ۔
ہاں ! ابراہیم علیہ السلام قلب سلیم،روح پاک،قوی ارادہ اورعزم ِ راسخ کے ساتھ بُت پرستوں کے خلاف جہاد کے لیے مامور ہوئے اور اپنے باپ ( یعنی چچا ) اوراپنی قوم سے اس کا آغاز کی. جیسے کہ قرآن کہتاہے :
یاد کرو اس وقت کوجبکہ اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہا : یہ کیاچیز ہیں کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو ۔ (إِذْ قالَ لِاٴَبیہِ وَ قَوْمِہِ ما ذا تَعْبُدُونَ)۔
کیایہ بات قابلِ افسوس نہیں ہے کہ انسان باوجود اس مقام ِ ذاتی اور عقل وخرد کے ، بے قدرو قیمت اورحقیر مٹی اور لکڑ یوں کی تعظیم کرے ؟تمہاری عقل کہاں کھو گئی ؟
اس تعبیر میں بتوں کی کھلی تحقیر موجود تھی پھر اس بات کی ایک دوسرے جملہ سے تکمیل کی اورکہا : کیا تم خدا کوچھوڑ کرجوبرحق ہے جھوٹے خدا ؤں کے پیچھے جاتے ہو (اٴَ إِفْکاً آلِہَةً دُونَ اللَّہِ تُریدُونَ) (۵) ۔
” افک “ بڑ ے جھوٹ کے معنی میں ہے یاقبیح ترین جھوٹ کے معنی میں ہے . ایسے الفاظ کے استعمال سے حضرت ابراہیم کی قاطیت اور بتوں کے بار ے میں ان کادوٹوک فیصلہ زیادہ واضح ہوجاتاہے۔
آ خر میں ایک اور تیکھے جملے کے ساتھ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا : تمہارا عالمین کے پروردگار کے بار ے میں کیاگمان ہے ؟(فَما ظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعالَمینَ ) ۔
روزی تم اس کی کھاتے ہو ، اس کی نعمتوں نے تمہارے سارے وجود کااحاطہ کیاہوا ہے ،اس کے باوجود تم نے حقیر اور بے قدر وقیمت موجودات کو اس کا ہم پلہ بنادیا ہے . اس حالت میں بھی تم یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تم پررحم کرے اور تمہیں زیادہ سخت عذاب کے ساتھ سزا نہ دے ؟ کتنی بڑی غلطی ہے یہ ؟اور کتنی خطرناک گمراہی ہے یہ ؟
’ ’ رب العالمین “ کی تعبیر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سارے عالم کانظام اس کے سایہ ربوبیّت میں چلتاہے تم اسے چھوڑ کرمعمولی سی خیالی اور وہمی چیزکے پیچھے لگ گئے ہو، جس سے کوئی کام نہیں ہوسکتا ۔
تو رایخ و تفاسیر میں آ یا ہے کہ بابل کے بُت پرست ہرسال ایک مخصوص عید کے دن کچھ رسومات اداکیاکرتے تھے . بُت خانہ میں کھانے تیار کرتے ہیں اور وہیں انھیں دستروخوان پرچُن دیتے تھے اس خیال سے کہ یہ کھانے متبرک ہوجائیں گے .اس کے بعدسب کے سب مل کر اکٹھے شہرسے باہر چلے جاتے تھے اور دن کے آخر میں واپس لوٹتے تھے اورعباد ت کرنے اورکھانا کھانے کے لیے بُتخانہ میں آجاتے تھے . اس روز اسی طرح شہر خالی ہوگیا اور بتوں کوتوٹنے اورانھیں درہم برہم کرنے کے لیے ایک اچھا موقع حضرت ابر اہیم کے ہاتھ آگیا . یہ ایساموقع تھا جس کاابراہیم علیہ السلام عرصے سے انتظار کررہے تھے اور نہیںچاہتے تھے کہ ہاتھ سے نکل جائے ۔
لہذاجب انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کوجشن میںشرکت کی دعوت دی تو ” اس نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی“ (فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُومِ ) ۔
” اور کہا میں تو بیمارہوں “ (فَقالَ إِنِّی سَقیمٌ) ۔
اوراس طرح سے اپنی طرف سے عذر خواہی کی ۔
” انہوں نے رُخ پھیرا اور جلدی سے اس سے دور ہو گئے “ اوراپنے رسم ورواج کی طرف روانہ ہوگئے ( فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرینَ)۔
یہاں دوسوال پیدا ہوتے ہیں:
پہلا یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کیوں دیکھا ، اس دیکھنے سے ان کامقصد کیاتھا ؟
دوسرایہ کہ کیا واقعاًوہ بیمار تھے کہ انہوں نے کہامیں بیمار ہوں ؟ انھیں کیابیماری تھی ؟
پہلے سوال کا جوا ب بابل کے لوگوں کے اعتقاد او ر رسوم کو دیکھتے ہوئے واضح وروشن ہے . وہ علم نجوم میں بہت ماہر تھے . یہاںتک کہ کہتے ہیں کہ ان کے بُت ستاروں کے ہیکلوں اور شکلوں میں تھے اوراسی بناپر ان کااحترام کرتے تھے کہ وہ ستاروں کے سمبل تھے ۔
ابلتہ علم ِ نجوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ بہت سی خرافات بھی ان کے درمیان موجو د تھیں . ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ستاروں کو اپنی سرنوشت میں موٴ ثر سمجھتے تھے اوران سے خیر و برکت طلب کرتے تھے اوران کی وضع و کیفیّت سے آنے والے واقعات پر استد لال کرتے تھے ۔
ابراہیم علیہ السلام نے اس غرض سے کہ انہیں مطمئن کردیں ، ان کی رسوم کے مطابق آ سمان کے ستاروں پرایک نظرڈالی تاکہ وہ یہ تصوّر کریں کہ انہوں نے اپنی بیماری کی پیش گوئی ستاروں کے اوضاع کے مطالعے سے کی ہے اوروہ مطمئن ہوجائیں ۔
بعض بزرگ مفسّرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیاہے کہ وہ چاہتے تھے کہ ستاروں کی حرکت سے اپنی بیماری کاوقت ٹھیک طور سے معلوم کرلیں کیونکہ ایک قسم کی بیمار ی انہیں تھی وہ یہ کہ نجارا نہیں ایک خاص وقفہ کے ساتھ آ تا تھا لیکن بابل کے لوگوں کے افکار ونظر یات کی طرف توجہّ کرتے ہوئے پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیاہے کہ ان آ سمان کی طرف دیکھنا درحقیقت اسرار آفرینش میں مطالعہ کے لیے تھا اگرچہ وہ آپ کی نگاہ کوایک منجم کی نگاہ سمجھ رہے تھے . جو یہ چاہتا ہے کہ ستاروں کے اوضا ع سے آئندہ ہے کہ واقعات کی پیش بینی کرے ۔
دوسرے سوال کے مفسّرین نے متعدد جواب دیئے ہیں ۔
منجملہ ان کے یہ ہے کہ وہ واقعاً بیمار تھے ، اگرچہ و ہ صحیح وسالم بھی ہوتے تب بھی بتوں کے جشن کے پرو گرام میں ہرگز شرکت نہ کرتے ،لیکن ان کی بیماری ان مراسم میں شرکت نہ کرنے اوربتوں کوتوڑ نے کے لیے ایک سنہرا مو قع اچھا بہانہ بھی تھا ،اوراس با ت پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ انہوں نے یہاں ” توریہ “ کیاتھا ،کیونکہ ابنیاء کے لیے ” توریہ “ کرنا مناسب نہیں ہے۔
بعض دوسروں نے کہاہے کہ ابراہیم علیہ السلام کوواقعی طورپر کوئی جسمانی بیماری نہیں تھی لیکن ان کی روح ان لوگوں کے غیر موزوں اعمال اوران کے کفر وشرک اورظلم و گناہ کی بنا پر بیمار تھی . اس بنا پر انہوں نے حقیقت کوبیان کیااگرچہ انہوں نے دوسری طرح سوچا اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کوجسمانی طورپر بیمار سمجھا ۔
یہ احتمال بھی بیان کیاگیاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گفتگو میں تویہ کہا ہوگا ۔
مثلاً یہ کوئی شخص گھر کے درواز ے پر آ کر سوال کرتاہے کہ فلا ں شخص گھر میں ہے،وہ جواب میں کہتے ہیں: یہاں نہیں ہے اور” یہاں “ سے ان کی مراد گھر کے دروازکے پیچھے ہوتی ہے نہ کہ ساراگھر . جبکہ سننے والا اس طرح نہیں سمجھا ( ایسی تعبیرات کو جوجھوٹ نہیں ہیں لیکن ا ن کاظاہر کچھ اور ہوتا ہے ،فقہ میں ” توریہ “ کہتے ہیں ) ۔
اس بات سے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہو سکتا ہے میں آ یندہ بیمار ہو جاؤں،تاکہ وہ ان سے الگ ہو کراپناکام کریں ۔
لیکن پہلی اوردوسر ی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔
اس طرح ابراہیم علیہ السلام اکیلے شہر میں رہ گئے اوربُت پرست شہرخالی کرکے باہر چلے گئے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اِدھراُدھر دیکھا،شوق کی بجلی ان کی آنکھوں میں چمکی وہ لمحات جن کا وہ ایک مُدّت سے انتظار کررہے تھے آن پہنچے،انہوں نے اپنے آپ سے کہا ،بتوں سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہو اورسخت ضرب ان کے پیکر وں پرلگا . ایسی ضرب جوبُت پرستوں کے سوئے ہوئے دماغوں کو ہلا کررکھ دے اورانہیں بیدار کر دے ۔
قرآن کہتاہے :وہ ان کے خداؤں کے پاس آ یا،نگاہ ان پر اور کھانے کے ان برتنوں پر جوان کے اطراف میں موجود تھے، ڈالی اور تمسخر کے طورپر کہا : تم یہ کھانے کھاتے کیوں نہیں ؟ (فَراغَ إِلی آلِہَتِہِمْ فَقالَ اٴَ لا تَاٴْکُلُونَ ) (۶) ۔
یہ کھا نے توتمہاری عباد ت کرنے والوں نے فراہم کیے ہیں . مرغن وشیریں، طرح طرح کی رنگین غذ ائیں ہیں ،کھاتے کیوں نہیں ہو ؟
اس کے بعد مزید کہتاہے : تمہیں کیاہوگیا ہے ؟ تم بات کیوں نہیں کرتے ؟تم گونگے کیوں بن گئے ہو؟تمہارا منہ کیوں بند ہے ؟ (ما لَکُمْ لا تَنْطِقُونَ ) ۔
اس طرح ان کے تمام بیہودہ اور گمراہ عقائد کامذاق اڑایا . بلاشک وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کھاناکھاتے ہیں اورنہ ہی بات کرتے ہیں اور بے جان موجودا ت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ،لیکن حقیقت میں وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنی بُت شکنی کے اقدام کی دلیل اس عمدہ اور خوبصورت طریقہ سے پیش کریں ۔
پھر انہوں نے اپنی آستین چڑھالی ، کلہاڑ ا ہاتھ میں اٹھایا اورپوری طاقت کے ساتھ اسے گھمایا اوربھر پور ” توجہّ کے ساتھ ایک زبردست ضرب ان کے پیکر پر لگائی “ (فَراغَ عَلَیْہِمْ ضَرْباً بِالْیَمینِ) ۔
” یمین “ سے مراد یاتوواقعی داہاں ہاتھ ہے جس سے انسان اپنے زیادہ ترکام کرتاہے اور یایہ قدرت وقوّت کیلیے کنایہ ہے ( دونوں معنی بھی ہوسکتے ہیں )۔
بہرحال تھوڑ ی سی دیر میں وہ آ باد یاورخوبصورت بُت خانہ ایک وحشت ناک ویرانہ بن گیا . تمام بت ٹوٹ پھوٹ گئے . ہر ایک ہاتھ پاؤں تڑ وائے ہوئے ایک کونے میں پڑا تھا اور سچ مچ بت پرستوں کے لیے ایک دلخراش ،افسو سنا ک اورغم انگیز منظرتھا ۔
ابراہیم علیہ السلام اپناکام کرچکے اورپورے اطمینان وسکون کے ساتھ بتکد ے سے با ہر آ ئے اوراپنے گھرچلے گئے . اب وہ اپنے آپ کو آئندہ کے حوادث کے لیے تیار کررہے تھے ۔
وہ جانتے تھے کہ انہوں نے شہرمیں بلکہ پورے ملک ِ بابل میں ایک بہت بڑ ا دھما کہ کیاہے جس کی صدابعد میں بلند ہوگی . غُصّہ اورغضب کاایک ایسا طوفان اٹھے گا اوروہ اس طوفان میں اکیلے ہوں گے . لیکن ان کاخدا موجود ہے اور وہی ان کے لیے کافی ہے۔
بُت پرست شہر میں واپس لوٹے اوربُت خانے کی طرف آئے ، کتنا وحشت ناک اور مبہوت کن منظر تھا ؟جہاں کے تہاں بے حس و حرکت ہوگئے ؟ کافی دیرتک ان کے اوساں خطار ہے . انتہائی حیرانی اورپر یشانی کے عالم میں اس و یرانے پرنگاہ ڈالی اوران بتوں کو جنہیں وہ اپنی بے پنائی کے دن کے لیے پناہ گا ہ خیال کرتے تھے وہاں بے پنا ہ دیکھا ۔
اس کے بعدسکوت ٹوٹا اور چیخ وپکار اور نالہ وفریاد کی صدابلند ہوئی ... کس نے کیاہے یہ کام ؟کون تھا وہ ستمگر ؟
دیر نہ گزری تھی کہ انہیں یاد آگیا . اس شہر میں ایک خدا پرست جوا ن رہتاہے . اس کا نام ابراہیم ہے . وہ بتوں کامذاق اڑایا کرتاتھا . اوراس نے یہ دھمکی دی تھی کہ میں نے تمہار ے بتوں کے لیے ایک خطرناک منصوبہ بنالیاہے .معلوم ہوتاہے کہ یہ کام اسی نے کیاہے۔
پھروہ اس کی طرف چل پڑے . وہ بڑی تیزی سے ( غُصّہ کے عالم میں ) چل رہے تھے (فَاٴَقْبَلُوا إِلَیْہِ یَزِفُّونَ ) ۔
’ ’ یزفّون “ ” زف “ ( بروزن ” کف “ ) کے مادہ سے دراصل ہو ا کے چلنے اور شتر مُرغ کے تیز دوڑ نے کے معنی میں ہے جبکہ شترمرغ دوڑتے ہوئے پھڑ پھڑا بھی رہاہوتاہے .بعد ازں یہ یہ لفظ بطور کنایہ ” زفاف عروس “ یعنی دلہن کو دولہا کے گھر لے جانے کے موقع پر استعمال ہونے لگا ۔
بہرحال مراد یہ ہے کہ بُت پرست تیزی کے ساتھ ابراہیم کی طرف آ ئے اس قصّے کاباقی حصّہ بعد کی آ یات میں بیان ہوگا ۔
۱۔ بعض مفسّرین نے ” شیعتہ “ کی ضمیر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پلٹائی ہے حالانکہ قرآن کی آیات یہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ، دین ابراہیم کے پیرو تھے . اس کے علاوہ اس قسم کی ضمیر کامرجع قبل و بعد کی آیات میں موجود نہیں ہے . شاید انہوں نے تصوّر کرلیا ہے کہ شیعہ کی تعبیر حضرت نوح علیہ السلام کی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضلیت کی دلیل ہے ، جبکہ قرآن ابراہیم کے لیے والاترشخصیّت کاقائل ہے لیکن یہ تعبیراس مسئلے پر کوئی دلیل نہیں رکھتی بلکہ اس سے مراد راہِ فکر ی و مکتبی کادوام ہے ، جیساکہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا تمام ابنیا ء سے افضل ہونا ، ابراہیم کے مکتب توحیدی کی پیرو ی کے منافی نہیں ۔
۲۔ تفسیرصافی ،سورہٴ شعراء کی آیہ ۸۹ کے ذیل میں ، بحوالہ کافی ۔
۳۔ایضاً
۴۔قلب سلیم کے بار ے میں تفسیر نمونہ کی جلد ۱۵ میں سورہٴ شعراء کی آ یہ ۸۸ ۔ ۸۹ کے ذیل میں تفصیلی بحث کی ہے۔
۵۔ اس جملے کی تفسیرمیں مفسرین نے دواحتمال ذکر کیے ہیں . پہلا یہ کہ ” افکاً “ مفعول ہے ” تریدون“ کااور ” اٰلھة “ اس سے بدل ہے ، دوسر ا یہ کہ ” اٰلھة “ مفعول بہ ہے اور” افکاً“ مفعول لاجلہ ہے کہ جس اہمیّت کی بنا پر مقدّم رکھاگیاہے۔
۶۔ ” راغ “ ” روغ “ کے مادہ سے کسی چیزکی طرف توجہ ّ اورمیلان کے معنی میں،جو پوشیدہ اورمخفی طور سے ہو یا سازش اورتخر یب کی صورت میں ۔
سوره صافات / آیه 83 - 94۱۔ کیا انبیاء بھی توریہ کرتے ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma