گمراہ پیشو اؤں اوران کے پیر و کاروں کاانجام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 33 - 40مخلصین کا اجر وثواب

قیامت کے دن جہنم کے پاس گمراہ پیر وکاروں اورپیشواؤں کے جھگڑا کرنے کے بیان کے بعد . ( اب زیر بحث آ یات میں دونوں گروہوں کاانجام ایک ہی جگہ بیان کیاگیا ہے . نیز ا ن کی بدبختی کے عوامل کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیاگیا . ان میں گو یا مرض کابیان بھی ہے اور علاج کاذکر بھی ۔
پہلے فر مایا گیا ہے : وہ سب کے سب، پیر واور پیشوا ، اس دن عذاب ِ الہٰی میں مشترک ہوں گے (فَإِنَّہُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْعَذابِ مُشْتَرِکُو) ۔
البتہ ان کاعذاب میں مشترک ہونا ، دوزخ او ر عذابِ الہٰی میں ان کے مختلف درجات میں مانع نہیں ہے . کیونکہ یقینی طورپر ایساشخص جوہزار ہا انسانوں کی گمراہی اورانحرافی کاسبب بنا ہے ہرگز سزا اورعذاب میں ایک عام گمراہ فرد کے برابر نہیں ہوگا ۔
یہ آیت حقیقت میں سورہٴ مومن کی آیہ ۴۸ کے مانند ہے کہ جس کے مطابق مستکبر ین کمز ور عقیدہ لوگوں کے ساتھ لڑنے جھگڑ نے کے بعد کہیں گے ۔
قالَ الَّذینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُلٌّ فیہا إِنَّ اللَّہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبادِ
اب تو ہم سب ہی دوزخ میں ہیں کیونکہ خدانے اپنے بندوں کے درمیان عادلانہ فیصلہ کردیاہے۔
اور یہ بات سورہ ٴ عنکبوت کی آیہ ۱۳ سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی جس میں فرمایاگیا ہے :
وَ لَیَحْمِلُنَّ اٴَثْقالَہُمْ وَ اٴَثْقالاً مَعَ اٴَثْقالِہِم
وہ قیامت کے دن اپنا سنگین بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے ہو ں گے اوران کے اپنے سنگین بار پر دوسروں کے بار کا بھی اضافہ ہوگا ۔
جودوسروں کو گمراہ کرنے اور گناہ کی طرف مائل کرنے اوربدعت کی بنیاد رکھنے کے نتیجہ میں حاصل ہوا ہے۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لیے قرآن فرماتاہے :ہم مجر موں کے ساتھ ایساہی سلوک کیاکرتے ہیں (إِنَّا کَذلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ ) ۔
یہ ہماری ہمیشہ کی سنت ہے ، وہ سنت جو قانون عدالت سے پیدا ہوئی ہے۔
اس کے بعد ان کی بدبختی کی اصل بنیاد کو بیان کرتے ہوئے کہتاہے : وہ ایسے تھے کہ جب کلمہ توحید اورلاالہٰ الا اللہ ان سے کہاجاتاہے تھا تو وہ تکبر و استکبا ر کرتے تھے (إِنَّہُمْ کانُوا إِذا قیلَ لَہُمْ لا إِلہَ إِلاَّ اللَّہُ یَسْتَکْبِرُون) ۔
ہاں ! ان کے تمام انحرافات کی اصل جڑ بنیاد،تکبّر اورخود کو بر تر سمجھنا،حق کو قبول نہ کرنا ،غلط طریقوں اور باطل کی پیروی پر اصرار اورہٹ دھرمی کرنا اوراس کے علاوہ تمام چیزوں کوحقا رت کی نگاہ سے دیکھنا تھا ۔
روح ِ استکبار کامدّ مقابل حق کے سامنے انکسار ی اور تسلیم خم کرناہی ہے اورحقیقتاًاسلام یہی ہے اور بس . وہ استکباربدبختی کاباعث ہے اور یہ خضوع و تسلیم،سعادت کاموجب ہے۔
قابلِ تو جہّ بات یہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات میں ، عذابِ الہٰی استکبار کے ساتھ مربوط بیان ہواہے ،جیساکہ سورہٴ احقا ف کی آ یہ ۲۰ میں ہے :
فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْہُونِ بِما کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ
آج کے دن ذلیل کرنے والا عذاب تمہاری جزا ہے ، کیونکہ تم زمین میں ناحق استکبارکیاکرتے تھے ۔
جبکہ وہ اپنے اس عظیم گناہ کے لیے بدترازگناہ عذر پیش کیاکرتے تھے اور ہمیشہ یہی کہتے تھے : کیا ہم اپنے خداؤں اور بتوں کو ایک دیوانے شاعر کے لیے چھوڑ دیں ؟(وَ یَقُولُونَ اٴَ إِنَّا لَتارِکُوا آلِہَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُون) ۔
وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس لیے شاعر کہتے تھے کہ آپ کی باتیں اس طرح دلوں پر اثر کرتی تھیں اورانسانوں کو توجہّ کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں کہ جیسے آپ بہترین اشعار پڑھ رہے ہوں . حالانکہ آپ کی باتیںبالکل شعر نہیں تھیں اورانھیں مجنون اس لیے کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ماحول کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے تھے اور وہ ہٹ دھرم متعصّب لوگوں کے بہیودہ عقائد کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے . یہ ایساکام تھا جو گمراہ عوام کی نگاہ میں ایک قسم جنون آمیز خودکشی تھی .حالانکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کاعظیم افتخار یہی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان حالات کے سامنے نہیں جھکے ۔
اس کے بعد قرآن ان بے بنیاد باتوں کی نفی کرنے اور پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی رسالت اور مقام ِ وحی کادفاع کرنے کے لیے مزید کہتا ہے : ایسانہیں ہے وہ تو حق لے کر آیاہے اوراس نے گزشتہ پیغمبروں کی تصدیق کی ہے (بَلْ جاء َ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلینَ ) ۔
ایک طرف تو اس کی گفتگو کے مطالب اور دوسری طرف اس کی ابنیاء کی دعوت کے ساتھ ہم آہنگی اس کی گفتگو کی صداقت کی دلیل ہے۔
لیکن اے دل کے اندھے مستکبر ، اور بدزبان گمراہوں ! تم یقینی طورپر خدا کا دردناک عذاب چکھو گے (إِنَّکُمْ لَذائِقُوا الْعَذابِ الْاٴَلیمِ) ۔
لیکن کہیں یہ گمان نہ کرلینا کہ خدا بھی انتقام جُو ہے اوروہ تم سے اپنے پیغمبرکاانتقام لیناچاہتاہے ایسانہیں ہے ، بلکہ ” جو اعمال تم انجام دیاکرتے تھے بدلہ توتمہیں صرف اسی کا ملے گا (وَ ما تُجْزَوْنَ إِلاَّ ما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)۔
حقیقت میں وہ تمہارے اعمال ہی ہوں گے جو تمہارے سامنے مجسم ہوجائیں گے اور تمہارے ساتھ رہیں گے . اور تمہیں آزار پہنچا تے رہیں گے . تمہاراعمل ہی تمہاری سزا ہے ، وہی استکبار وکفرو بے ایمانی، وہی آ یاتِ الہٰی اوراس کے پیغمبرپر شاعر ی اورجنون کی تہمت باندھنا ، وہی ظلم و زیادتی ، بے انصافیاں اوربُر ے کام ۔
آخری زیر بحث آیت میں آئندہ کے مباحث کے لیے ایک مقصد اور تمہید ہے . اس میں ایک گروہ کومستثنٰی کرتے ہوئے فر مایا گیاہے : پروردگار کے مخلص بندوں کے سوا، جواس تمام ترسز اوعذاب سے دور اورمحفوظ رہیں گے (إِلاَّ عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصینَ ) ( ۱) ۔
لفظ ” عباداللہ“ اکیلا ہی اس گروہ کے خدا ربط کوبیان کرنے کے لیے کافی ہے . لیکن جب ” مخلصین “ بھی اس کے ساتھ ہو تو اس میں ایک اور ہی گہرائی اورجان ڈال دیتاہے . وہ لفظ ” مخلص“ اسم ِ مفعول کی صورت میں ، وہ شخص جسے خدا نے خالص کیاہے . ہر قسم کے شرک دریاسے خالص اورہر قسم کے شیطانی وسوسوں اورہوائے نفس کی ملاوٹوں سے خالص ۔
ہاں ! صرف یہی گروہ ہے کہ جسے اس کے اعمال کی ہی جزانہیں ملے گی بلکہ خدااس اپنے فضل و کرم کے ساتھ پیش آ ئے گا اور وہ بے حساب اجر حاصل کریں گے ۔
 ۱۔ یہ جملہ استثناء منقطع کی شکل میں ہے جو ” تجزون“ کی ضمیر یا ” لذ ائقو ا “ کی ضمیر سے استثناء ہے۔
سوره صافات / آیه 33 - 40مخلصین کا اجر وثواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma