ابراہیم قُر بان گاہ میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 101 - 110 ۱۔ ذبیح اللہ کون ہے ؟

گزشتہ آ یات میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ابراہیم نے بابل میں اپنی رسالت کی ادائیگی کے بعد وہاں سے ہجرت کی اوراپنے پروردگارسے ان کاپہلا نقاضا یہ تھا کہ انہیں فرزند صالح عطافر مائے کیونکہ ابھی تک وہ صاحبِ اولاد نہ تھے ۔
زیربحث پہلی آ یت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعاکی قبو لیّت کو بیان کررہی ہے ، ارشاد ہوتاہے : ہم نے اسے ایک حلیم و برد بار اور با استقا مت نوجوان کی بشارت دی (فَبَشَّرْناہُ بِغُلامٍ حَلیم) ۔
حقیقت میں اس جملے میں تین بشار ت جمع ہیں ، ایک بیٹے کی ، دوسری اس کے نو جوانی کے سن تک پہنچنے کی اور تیسر ی اس کے حلم جیسی صفت کا حامل ہو نے کی ۔
” حلیم “ کی تفسیر میں بیان کیاگیاہے کہ اس سے مراد ایساشخص ہے جو توانا ئی ہوتے ہوئے کسی کام میں اس کے وقت سے پہلے جلدی نہیں کرتا اور مجرموں کو سزا دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا ، جو ایک عظیم روح کا مالک ہوتاہے اوراپنے جذبات واحساسات پر کنٹر ول رکھتا ہے۔
” راغب “ مفردات میں کہتاہے :
حلم زیادہ غُصّے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھنے کے معنی میں ہے اور چونکہ ایسی حالت عقل و خرد سے پیدا ہوتی ہے لہذا بعض اوقات یہ لفظ عقل وخرد کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔
البتہ ” حلم “ کاحقیقی معنی رہ ہے جوپہلے بتایا گیا ہے . ضمنی طور پر اس توصیف سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ خدا نے اس فرزند کے بقا ء کی بشارت اس زمانہ تک کے لیے دی ہے جب وہ ایسے سن تک پہنچ جائے کہ حلم کے ساتھ متصف ہو جائے اور جیسا کہ ہم بعد والی آ یت میں دیکھیں گے،اس نے اپنے حلیم ہونے کا ”ذبح “ کے موقع پر مظاہرہ کی. جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے حلیم ہونے کا مظاہرہ اس وقت بھی اور آگ میں ڈالے جانے کے موقع پر بھی کیا ۔
قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ لفظ ” حلیم “ قرآن مجید میں پندرہ بار آ یا ہے یہ لفظ زیادہ ترخداکی صفت کے طور پر آ یاہے . سوائے دوموقعوں کے ، جن میں یہ ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند کی صفت کے طور پر کلامِ خدا کے طور پر آ یاہے اورایک موقع پردوسروں کی زبان سے حضر ت شعیب کی صفت میں بیان ہوا ہے۔
لفظ ” غلام “بعض کے نظر یہ کے مطابق سنِ جوانی تک پہنچنے سے پہلے ہر بچے کے لیے استعمال ہوتاہے . بعض نے اس بچہ پر اس کا اطلاق کیاہے جو دس سال سے اوپر ہو لیکن ابھی سنِ بلوغ کو نہ پہنچا ہو ۔
عربی لغت میں جو مختلف تعبیریں بیان ہوئی ہیں ، ان سے معلوم ہوتاہے کہ ”غلام “ دراصل ”طفل “ (بچہ ) اور ”شب “ ( جوان ) کے درمیان حدِّ فاصل ہے ،جسے ہم فارسی زبان میں ” نو جوان “ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
آ خر حضرت ابراہیم علیہ السلام کافرزندِ موعود خدائی بشارت کے مطابق پیدا ہو ااورباپ کا دل تو سالہاسال سے فر زند ِ صالح کی انتظار میں تھا . فرزند کی پیدا ئش سے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈ ک ملی پھر وہ فرزند بچپن کے دور کوگزار کرجوانی کے سن میں داخل ہوا ۔
قرآن اس موقع پر کہتاہے :جس وقت وہ اس کے ساتھ سعی و کوشش کے قابل ہوا(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ ) ۔
یعنی وہ ایسے مرحلہ میں پہنچ گیا کہ زندگی کے مختلف مسائل میں باپ کے ہمراہ سعی و کوشش کرسکے اوراس کی مدد کرسکے ۔
بعض نے یہاں ”سعی “ کوعبادت اورخد ا کے لیے کام کرنے کے معنی میں سمجھا ہے .البتہ ” سعی “ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں یہ معنی بھی شامل ہے لیکن اس میں منحصر نہیں ہے اور ” معہ “ باپ کے ساتھ کا معنی دیتا ہے . اس سے مراد امو رزندگی میں باپ کی معاونت و مدد ہے۔
بہرحال مفسّرین کے قول کے مطابق بیٹا ۱۳ سال کاتھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک عجیب اورحیرت انگیز خواب دیکھا . یہ خواب اس عظیم الشان پیغمبرکے لیے ایک اور آزمائش شروع ہونے کے بیان کر تاتھ. انہوں نے خواب دیکھا کہ انہیں خداکی طر ف سے یہ حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قربانی کریں اوراسے ذبح کردیں ۔
ابر اہیم وحشت زدہ خواب سے بیدار ہوئے ، وہ جانتے تھے کہ پیغمبر وں کے خواب حقیقت ہو تے ہیں اور شیطانی وسوسوں سے دور ہوتے ہیں، لیکن اس کے با وجود دو اور راتوں میں بھی یہی خواب دیکھاجو اس امر کے لازم ہونے اوراسے جلد انجا م دینے کے لیے تاکید تھی ۔
کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ” شب ترو یہ “ ( آ ٹھ ذ ی الحجہ کی رات ) یہ خواب اور” عرفہ “ اور ” عید قر بان “ ( نویں اوردسویں ذی الحجہ ) کی راتوں میں خواب کاتکرار ہو ا.لہذ ا اب ان کے لیے ذراسابھی شک باقی نہ رہاکہ یہ خدا کاقطعی فرمان ہے۔
ابراہیم جو بار ہا امتحان ِ خداند ی کی گرم بھٹی سے سرفراز ہو کر باہر آ ئے تھے اس دفعہ بھی چا ہتے کہ بحر ِ عشق میں کودپڑ یں اور حق تعالیٰ کے فرمان کے سامنے سر جھکادیں اوراس فرزند کوجس کے انتظار میں عمر کا ایک حِصّہ گذ ار دیا تھا اوراب وہ ایک آ بر و مند نو جوان تھا ،اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کردیں ۔
لیکن ضر وری ہے کہ ہر چیز سے پہلے اپنے فرزند کواس کام کے لیے آ ماد ہ کریں،لہذ ااس کی طرف رخ کرکے فرمایا :میرے بیٹے ! میں نے خواب دیکھاہے کہ میںتجھے ذبح کروں ، اب تم دیکھو ! تمہاری اس بار ے میں کیارائے ہے ؟(قالَ یا بُنَیَّ إِنِّی اٴَری فِی الْمَنامِ اٴَنِّی اٴَذْبَحُکَ فَانْظُرْ ما ذا تَری) ۔
بیٹا بھی تو ایثار پیشہ باپ کے وجود کاایک حصّہ تھا اور جس نے صبرواستقامت اورایمان کادرس اپنی چھوٹی سی عمر میں اسی کے مکتب میں پڑ ھاتھا،اس نے خوشی خوشی خلوص ِ دل کے ساتھ اس فر مان ِ الہٰی کااستقبال کیا اورصراحت اورقاطعیّت کے ساتھ کہا:اباجان ! جو حکم آپ کو دیاگی ہے اس کی تعمیل کیجیے (قالَ یا اٴَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَر) ۔
میری طرف سے بالکل مطمئن رہنے . ” انشاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے (سَتَجِدُنی إِنْ شاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرینَ)۔
باپ اوربیٹے کی یہ با تیں کس قد ر معنی خیز ہیں اورکتنی باریکیاں ان میں چھپی ہوئی ہیں ۔
ایک طرف تو باپ ۱۳ سالہ بیٹے کے سامنے اسے ذبح کرنے کی بات بڑی صراحت کے ساتھ کرتاہے اوراس سے اس کی رائے معلوم کرتاہے . اس کے لیے مستقل شخصیت اور ارادے کی آ زادی کاقائل ہوتاہے ، وہ ہرگز اپنے بیٹے کودھو کے میں رکھنا نہیں چاہتا اوراسے اندھیر ے میں رکھتے ہوئے امتحان کے اس عظیم میدان میں آنے کی دعوت نہیں دیتا.وہ چاہتا ہے کہ بیٹا بھی اس عظیم امتحان میں پور ے دل کے ساتھ شرکت کرے اورباپ کی طرح تسلیم ورضا کامزہ چکھے ۔
دوسری طرف بیٹا بھی یہ چاہتا ہے کہ باپ اپنے عزم و ارادہ میں پکا اورمضبوط رہے .یہ نہیں کہتاکہ مجھے ذبح کردیں.بلکہ کہتا ہے : جو آپ کوحکم دیاگیاہے اسے بجالا ئیں میں اس کے امر وفرمان کے سامنے سرِ تسلیم خم ہوں،خصوصاً باپ کو ” یاابت “ ( اباجان ! ) کہہ کر مخاطب کرتاہے ، تاکہ اس بات کی نشاندہی کردے کہ اس مسئلے پر جذ بات فرزند وپد ر کا سوئی کی نو ک کے برا بر بھی اثر نہیں ،کیونکہ فرمان ِ خداہر چیز پر حاکم ہے۔
او ر تیسر ی طرف سے پر وردگار کی با ر گاہ میں مر اتبِ ادب کی اعلیٰ ترین طریقے سے پاسدار ی کرتا ہے،ہر گز اپنے ایمان اور عزم و ارادہ کی قوت پر بھرو سہ نہیں کرتا ، بلکہ خدا کی مشیت اوراس کے ارادے پر تکیہ کرتا ہے اوراس عبارت کے ساتھ اس سے پامردی اوراستقامت کی توفیق چاہتاہے۔
اس طرح سے باپ بھی اوربیٹا بھی اس عظیم آ زمائش کے پہلے مرحلے کو مکمل کامیابی کے ساتھ گز اردیتے ہیں ۔
اس دوران کیاکیا حالات پیش آ ئے ، قرآن نے انہیں تشریح کے ساتھ بیان نہیں کیا اور صرف اس عجیب ماجر ے کے نہایت حسّاس پہلو ذکر کیے ہیں ۔
بعض نے لکھاہے کہ فدا کار بیٹے نے اس بناپر کہ باپ کی اس ماموریت کی انجا م دہی میں مدد کر ے اور ماں کے رنج اندو ہ میں کمی کرکے . جس وقت وہ اسے سر زمین ” منٰی کے “ خشک اور جلاڈ النے والے گرم پہاڑ وں کے درمیان، قربان گاہ میں لائے تو باپ سے کہا :اباجان ! رسی کومضبوطی کے ساتھ باندھ دیجئے ، تاکہ میں فر مان ِ خداند ی کے اجراء کے وقت پاتھ پاؤ نہ ہلا سکوں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرے اجر میں کمی واقع نہ ہوجائے ۔
ابّاجان ! چُھری تیز کر لیجیے اور تیری کے ساتھ میرے گلے پر چلائے تاکہ اسے برداشت کرنا مجھ پر بھی ( اور آ پ پر بھی ) زیاد ہ آسا ن ہوجائے ۔
اباجان ! میاکرتاپہلے ہی میرے بدن سے اتارلیجیے تاکہ وہ خون آلود نہ ہو ، کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں میری ماں اسے دیکھے تو دامن صبراس کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے ۔
پھر مزید کہا،میرا سلام میری ماں کو پہنچا دیجیے گا اور اگر کوئی امر مانع نہ ہو تومیرا کُرتا اس کے لیے لے جا ئیے گا جو اسکی تسلّی خاطر اور تسکین کاباعث بنے گا کیونکہ وہ اس سے بیٹے کو خوشبو سونگھے گی اور جس وقت دل بے قر ار ہوگا تو اسے اپنی آ غوش میں لے لے گی اس طرح یہ اس کے دردِ دل میں تخفیف کاباعث ہوگا ۔
آ خر وہ حساس لمحے آن پہنچے جب فرمان ِ الہٰی کی تعمیل ہونا تھی . حضرت ابراہیم علیہ السلان نے جب بیٹے کے مقامِ تسلیم کو دیکھا ، اسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس کے رخساروں کے بوسے لیے اوراس گھڑی دونوں رونے لگے . ایسا گر یہ تھا کہ ان کے جذبات اور لقائے خدا کے لیے ان کاشوق ظاہر ہوتاتھا ۔
قرآن مختصر اورمعنی خیز عبارت میں صرف اتنی سی بات کہتاہے : جب دونوں آمادہ وتیار ہوگئے اور ( باپ ) ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا ...(لَمَّا اٴَسْلَما وَ تَلَّہُ لِلْجَبینِ) (۱)
قرآن یہاں پھر اختصار کے ساتھ گزرگیا ہے اور سننے والے کو اجازت دیتاہے کہ وہ اپنے احساسات کی موجوں کے ساتھ قصّے کو سمجھے ۔
بعض نے کہا ہے کہ ”تلّہ للجبین“ سے مراد یہ تھی کہ بیٹے کی پیشانی خود اس کی فر مائش پرزمین پر رکھی کہ مباد اان کی نگاہ بیٹے کے چہر ے پرپڑ ے اور پدر ی جذبات جوش میں آ جائیں اور فرمان ِ خدا کے اجزاء میں مانع ہوجائیں ۔
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کے چہر ے کو خاک پررکھا اور چُھری کو حرکت دی اور تیزی اورطاقت کے ساتھ اسے بیٹے کے گلے پر پھیر دیا جب کہ ان کی روح ہیجان میں تھی اورصرف عشقِ خدا ہی انہیں راپنی راہ میں کسی شک کے بغیر آگے بڑھا رہاتھا ۔
لیکن تیز دھا ر چھری نے بیٹے کے لطیف ونازک گلے پر معمولی سابھی اثرنہ کیا ۔
حضر ت ابراہیم حیرت میں ڈوب گئے ، دوبارہ چھر ی کو چلا یا، لیکن پھر بھی وہ کار گر ثابت نہ ہوئی ، ہاں , خلیل تو کہتے ہیں کہ ” کاٹ “ لیکن خدا وند جلیل یہ حکم دے رہا ہے کہ ” نہ کاٹ “ اور چھری توصرف اسی کی فرما نبر دار ہے۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں قرآن ایک مختصر اور معنی خیز جُملے کے ساتھ انتظار کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے : اس وقت ہم نے ندادی ( اور پکار کرکہا) کہ اے ابراہیم ! (وَ نادَیْناہُ اٴَنْ یا إِبْراہیمُ ) ۔
خواب میں جو حکم تمہیں دیاگیاتھا وہ تم نے پورا کردیا (قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیا ) ۔
ہم نیکو کاکروں کو اسی طرح جز ادیاکرتے ہیں (إِنَّا کَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنین) ۔
ہم ہی انہیں امتحان میں کا میابی کی توفیق دیتے ہیں اور ہم ایسا بھی نہیں ہونے دیں گے کہ ان کافر زند دل بند ان کے ہاتھ ہی سے چلا جائے . ہاں ! جوشخص سر تاپا ہمارے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہے اور اس نے نیکی کو اعلیٰ حد تک پہنچا دیاہے ، اس کی اس کے سو ااور کوئی جز انہیں ہوگی ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : بے شک یہ اہم اور آشکار امتحان ہے (إِنَّ ہذا لَہُوَ الْبَلاء ُ الْمُبینُ ) ۔
بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا ، وہ بھی نیک اورلائق بیٹا،اس باپ کے لیے جس نے ایک عمر ایسے فرزند کے انتظا ر میں گذا ری ہو سا دہ اور آسان کا م نہیں ہے . ایسے فر زند کی یاد کس طرح دل سے نکال سکتاتھا ؟اس سے بھی بالا تر یہ کہ وہ انتہائی تسلیم و رضا کے ساتھ ما تھے پر شکن لائے بغیر ایسے فرمان کی تعمیل کے لیے آ گے بڑھے اوراس کے تمام مقدمات کو آخر ی مرحلے تک انجام دے،اس طورپر کہ روحانی اور عملی آ ماد گی کے لحاظ سے کوئی کر باقی نہ چھوڑ ے ۔
اس سے بھی پڑھ کر عجیب،اس فر مان کے آگے اس نو جوان کی اطاعت شعار ی کی انتہائی . وہ خوشی خوشی ، اطمینان ِ قلب کے ساتھ،پروردگار کے لطف سے،اس کے ارادہ کے سامنے،سر تسلیم خم کرتے ہوئے،ذبح کے استقبال کے لیے آ گے بڑھا ۔
اسی لیے بعض روایات میں ہے کہ جس وقت یہ کام انجام پاچکاتو جبرئیل نے ( تعجب کرتے ہوئے ) پکار کر کہا ” اللہ اکبر “ ” اللہ اکبر “ ابراہیم علیہ السلام کے فرزند نے کہا :” لآالٰہ الاّ اللہ و اللہ اکبر “ اور عظیم فدا کا رباپ نے بھی کا ”اللہ اکبر و للہ الحمد “ ( ۲) ۔
اور یہ ان تکبیروں کے مشابہ ہے جو ہم عید قربان کے دن پڑ ھتے ہیں ۔
لیکن اس غر ض سے کہ ابراہیم کاپرو گرام ب بھی نامکمل نہ رہ جائے اور خدا کی بار گاہ میں ان کی طرف سے قربانی بھی ہو جائے اور ابراہیم کی آ ر زو پوری ہوجائے ، خدانے ایک بہت بڑا مینڈ ھابھیج دیا تاکہ بیٹے کی جگہ اس کی قربانی کریں اور مراسم ” حج“اور سرزمین ” منٰی “ میں آ نے والوں کے لیے اپنی سنت چھوڑ جائیں . چنانچہ قرآن کہتاہے : ہم نے ذبح عظیم کو اس کافدیہ قرار دیا (وَ فَدَیْناہُ بِذِبْحٍ عَظیمٍ) ۔
اس بار ے میں کہ اس ذبح کی عظمت کس لحاظ سے تھی ، جسمانی اور ظاہری لحاظ سے یااس جہت سے کہ فر زندِ ابراہیم علیہ السلام کافدیہ تھی
یا اس لحاظ سے کہ خدا کی راہ میں اورخد کے لےے تھی یا اس لحاظ سے کہ یہ قربانی خدا کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بھیجی کئی تھی ( ۳) ۔
مفسرین نے اس سلسلے میں بہت کچھ کہا ،لیکن کوئی مانع نہیں کہ یہ تمام جہات ذبح ِ عظیم میں جمع ہوں اور وہ مختلف جہات سے عظمت کی حامل ہو ۔
اس ذبح کی عظمت کی ایک نشانی یہ ہے کہ زمانہ گذ رنے کے ساتھ ساتھ ہرسال زیادہوسعت پارہی ہے۔
اس وقت ہرسال اس ذبح ِ عظیم کی یا د میں دس لاکھ سے زیادہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں اوراس یاد کوزندہ کیاجاتاہے۔
” فد ینا“ ”فدا “ کے مادہ سے اصل میں کسی شخص یاچیز کی بلا دور کرنے یادفع ضر ر کے لیے کسی دوسری چیز کوصدقہ قرار دینے کے معنی میں ہے . اسی لیے وہ مال جوقید ی کو آز اد کرنے کے لیے دیتے ہیں اسے ” فدیہ “کہتے ہیں . نیز اس کفّار ہ کو بھی فد یہ کہتے ہیں جو بعض بیمار روزہ کے بجائے دیتے ہیں ۔
وہ بہت بڑا مینڈ ھا ابراہیم علیہ السلام کو کس طرح دیا گیا ہے اس بار ے میں زیادہ تر اس بات کے معتقد ہیں کہ اسے جبرائیل لائے تھے ،بعض یہ بھی کہتے ہیں وہ کہ ” منٰی “کے پہاڑوں کے دامن نیچے اُترا تھا . بہرحال جوکچھ بھی تھا خد اکے حکم اوراس کے ارا دے سے تھا ۔
خدا نے نہ صرف اس دن کے عظیم امتحان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کامیابی کی تعریف و توصیف کی . بلکہ اس کی یاد کو جا و دانی بنادیا .
جیسا کہ بعد والی آیت میں فر مایاگیاہے:ہم نے ابراہم کے نیک نام کو بعد کی امتوں میں باقی رہنے والا بنایا (وَ تَرَکْنا عَلَیْہِ فِی الْآخِرین) ۔
وہ آنے والی سب نسلوں اور لوگوں کے لیے نمونہ اور تمام پاکباز اور کو ئے دوست کے ولد ادہ عاشقوں کے لیے راہنما بن گئے اورہم نے ان کے طرز عمل کورہتی دنیا تک کے لیے حج کی سنّت کے طور پر جاو دانی بنادیا . وہ عظیم پیغمبروں کے باپ تھے وہ امتِ اسلامی اورپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے باپ تھے ۔
ابراہیم پر سلام ( جوشخص اورپاکباز تھا ) (سَلامٌ عَلی إِبْراہیمَ ) ۔
ہاں ہم اسی طرح سے نیکو کار وں کابدلہ دیاکرتے ہیں (کَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنینَ)۔
عظمت ِ دنیاکا صلہ ، تمام زمانوں میں ہمشیگی کاصلہ ، خدائے بزرگ کے لائق درود و سلام کاصلہ ۔
قابلِ توجہ ّ بات یہ ہے کہ ” کَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنین“ کاجملہ ایک دفعہ تو یہاں آ یا ہے اوراس سے پہلے کی چند آ یات میں بھی آ یاہے . اس تکرار میں حتماً کوئی نکتہ ہے۔
ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ پہلے مرحلے میں توخدا تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان عظیم امتحان میں کامیا بی کاتصدیق کرتاہے اوران کی کا میابی پرمہر تصدیق ثبت کرتاہے . یہ خود ایک عظیم جز ا ہے ، یہ ایک اہم خوشخبری تھی جو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی تھی اس کے بعد ذبح ِ عظیم کے فدیہ کرنے ، ان کے نام اورسنت کے جا وداں رہنے اوران پر خد ا کے سلام بھیجنے کاذکر ہے جوتین دوسر ی بڑی نعمتیں ہیں اوراسے نیکو کاروں کے اجر کے عنوان سے بیان کر تاہے۔
۱۔” تلّہ “ ” تل “کے ماد ے سے اصل میں اونچی جگہ کے معنی میں ہے اور” تلّہ للجبین “ کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو ایک اونچی جگہ پر چہرے کی ایک طرف زمین پرلٹا یا . ” جبین “چہر ے کی طرف کے معنی میں ہے اوراس کی دونوں طرفوں کو ” جبینان “ کہتے ہیں ۔
۲۔ تفسیر قرطبی اور تفسیر روح المعانی ۔
۳۔ظاہر ہے کہ جا نور کتناہی باعظمت کیوں نہ ہو وہ کسی عام انسان کے مقابلے میں بھی عظیم نہیں ہوسکتا ، چہ جائیکہ وہ ایک نبی ورسول اور وہ بھی ذبیح اللہ جیسے نبی کے مقابلے میں ، ظاہر ایسامعلوم ہوتاہے کہ مفسرین نے اس کی طرف توجہّ کی ،ورنہ مسئلہ واضح ہے . سوال پید اہوتا ہے کہ اگر یہ نہیں توپھر ذبح ِ عظیم سے کون مراد ہے ؟اس سلسلے میں شا عرِ مشرق کہتے ہیں:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ٴ ” ذبح ِ عظیم “ آ مد پسر
جبکہ شیعہ وسنی طرق سے کئی ایک روایات بھی اس پر دلالت کر تی ہیں کہ ذبح عظیم سے مراد امام حسین علیہ السلام کی قر بانی ہے ( مترجم ) 
سوره صافات / آیه 101 - 110 ۱۔ ذبیح اللہ کون ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma