بعض مفسّرین نے ان آیات کے بار ے میں کئی شان نزول نقل کیے ہیں ان کے مطابق یہ آ
یات ان دو افراد کی طرف اشارہ کررہی ہیں جن کا ذکر سورہ ٴ کہف میں ایک مثال کے طور
پر کیاگیا ہے جہاں قرآن فر ماتاہے :
وَ اضْرِبْ لَہُمْ مَثَلاً رَجُلَیْنِ جَعَلْنا لِاٴَحَدِہِما جَنَّتَیْنِ مِنْ
اٴَعْنابٍ وَ حَفَفْناہُما بِنَخْلٍ وَ جَعَلْنا بَیْنَہُما زَرْعاً ...
ان کے لیے مثال بیان کی : ان دومَردوں کی داستان،جن میں سے ایک کے لیے ہم نے
انواع واقسام کے انگور وں کاباغ قرار دیاتھا جس کے گر د اگرد کھجور کے درخت تھے اور
دونوں کے درمیان پُر برکت زراعت ہوتی تھی ... ( کہف ۳۲ تا ۴۳) ۔
ان آیات میں یہ بیان ہواہے کہ ان دونوں آدمیوں میں سے ایک شخص بہت ہی خود خواہ ،مغرور،کم ظرف اور منکر معاد تھا ۔
دوسرا مومن اور قیامت کامعتقدتھا . بالا آخر وہ بے ایمان مغرور شخص اس جہان میں
بھی خدا ئی عذاب میں گرفتار ہو ااوراس کاسارامال و سرمایہ تباء و برباد ہوگیا ( 1)
۔
لیکن زیربحث آیات کالب و لہجہ سور ہٴ کہف کی آ یات کے ساتھ ہرگز ہم آہنگ نہیں ہے
اور یہ آیات کوئی علیحدہ داستان بیان کررہی ہے۔
بعض دوسرے مفسرین اسے دوشریک کار یا دوستوں سے متعلق جانتے ہیں . وہ دونوں ہی دولت
مند تھے . ایک نے راہ ِ خدا میں بہت زیادہ خرچ کیااوردوسر ے نے بُخل کی. وہ ان
باتون کامعتقد نہیں تھا . کچھ مدّت کے بعد خرچ کرنے والا آدمی محتاج ہوگیا تو اس
کے دوست نے اسے سرزنش کی اور بُر ابھلا کہا اور مذاق کے طور پر کہا :
ء انک لمن الصداقین
کیاتو راہِ خُدا میں انفاق کرتاہے ( 2) ۔
لیکن یہ شان ِ نزول اس با ت پر موقوف ہے کہ ہم زیر بحث آیات میں ”مصد قین “ کے ”
صاد “ کوتشدید کے ساتھ پڑ ھیں تاکہ اس کاتعلّق انفاق اورصدقہ دینے سے ہوجائے ۔
جبکہ ” مصدقین “ کی مشہور قراء ت ” صاد “ کی تشدید کے بغیر ہے . اس بنا پر مذ کورہ
شان ِ نزول مشہور قراء ت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
1۔تفسیر فخرازی،جلد ۲۶ ،ص ۱۳۹۔
2۔روح المعانی جلد ۲۳ ،ص ۸۳۔