وہ ہر گز حق کوقبول نہیں کریں گے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 11 - 15 ۱ ۔ ”یَسْتَسْخِرُون “ کا مفہوم

یہ آیات بھی مسئلہ قیامت او ر ہٹ دھرم منکرین کی مخالفت کو بیان کررہی ہیں ۔
گزشتہ بحث کے بعد اب ان آیات میں قرآن ہرچیز پر خدا وندتعالیٰ اور آسمان وزمین کے خالق کی قدرت کے متعلق فرماتا ہے :ان سے پوچھوکیاان کی خلقت اور معادزیادہ مشکل اورسخت تر ہے یافرشتوں اور آسمانوں و زمین کی خلقت (فَاسْتَفْتِہِمْ اٴَ ہُمْ اٴَشَدُّ خَلْقاً اٴَمْ مَنْ خَلَقْنا ) ۔
ہاں ہم نے انھیں ایک معمولی سی چیز ،چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا (إِنَّا خَلَقْناہُمْ مِنْ طینٍ لازِبٍ ) ۔
گو یا مشرکین جومعاد کے منکر تھے انھوں نے گزشتہ آیات سننے کے بعد یہ اظہا ر کیاکہ ہماری خلقت آسمان و زمین اور فرشتوں کی خلقت سے زیادہ اہمیّت رکھتی ہے۔
قرآن ان کے جواب میں کہتاہے : انسانوں کی خلقت ،وسیع زمین و آسمان اوران فرشتوں کی خلقت کے مقابلے میں ، جو ان عوامل میں ہیں کوئی زیادہ اہمیّت نہیں رکھتی ، کیونکہ انسان کی خلقت کامبداٴ مٹھی بھرچپکنے والی مٹی سے زیادہ نہیں ہے۔
” استفتھم “ ” استفتاء “ کے مادہ سے نئی خبروں کے مطالبہ کے معنی میں ہے اور یہ جونوجوان کو ’ ’ فتٰی “ کہاجاتاہے وہ بھی اس کی روح وجسم کی تر وتاز گی کی بنا پر ( ۱) ۔
یہ تعبیرا ت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگروہ حقیقتاً اپنی خلقت کو آسمان اور فرشتوں کی خلقت سے زیادہ اہم اور زیادہ مستحکم سمجھتے ہیں تو یہ بالکل ایک نئی بات ہے جس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
” لازب“ کالفظ بعض کے قول کے مطابق اصل میں ” لازم “ تھا . اس کی ” میم “ ” ب “ سے بدل گئی ہے اور اب اسی شکل میں استعمال ہوتاہے .بہرحال یہ ایسی مٹی کے معنی میں ہے جس کے اجزاء ایک دوسر ے کے ساتھ لازم یعنی چپکے ہوئے ہیں . کیونکہ انسان کی خلقت کاپہلایہ مبداٴ تومٹی ہی ہے اس کے بعد اس میں پانی ملایاگیا ہے . پھر آہستہ آہستہ اس نے بد بو دار گار ے کی صورت اختیار کی . اس کے بعد و ہ چپکنے والاگار ابن گیا ۔ ( اس بیان کے ساتھ قرآن مجید کی آیات کی گو ناگوں تعبیرات جمع ہوتی ہیں ) ۔
اس لے بعد مزید فرمایاگیا ہے: توان کے معاد کے بار ے میں انکار سے تعجّب کرتاہے ، لیکن وہ تو معاد کامذاق اڑاتے ہیں (بَلْ عَجِبْتَ وَ یَسْخَرُونَ ) ۔
اس برائیوں کاعامل صرف لاعلمی اورجہالت نہیں ہے بلکہ ہٹ دھرمی اور عناد ہے . اس لیے جب انھیں یاددہانی کرائی جائے معاد کے دلائل اورخدائی عذاب کی یاد دہانی تووہ ہر گز متوجّہ نہیں ہوتے اوراسی طرح سے اپنی راہ پر چلتے رہتے ہیں(وَ إِذا ذُکِّرُوا لا یَذْکُرُونَ ) ۔
اور اس سے بھی پڑھ کر ہ کہ : جب وہ تیر ے معجزات میں سے کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو نہ صرف خودتمسخر اڑاتے ہیں بلکہ دوسروں کوبھی ٹھٹھا کرنے پر آمادہ کرتے ہیں (وَ إِذا رَاٴَوْا آیَةً یَسْتَسْخِرُون) ۔
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادؤ ہے اورکچھ نہیں (وَ قالُوا إِنْ ہذا إِلاَّ سِحْرٌ مُبین) ۔
ان کامعجزات اور آیات الہٰی کو ” ھذٰا ‘ ‘ ( یہ ) کہنااس لیے تھا تاکہ وہ انھیں حقیر اور بے قدرو قیمت ظاہر کریں اورانھیں ”سحر “ کہنااس بنا پر تھا کہ ایک طرف توپیغمبر السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے خارق اور لعاد ہ اعمال افعال قابلِ انکار نہیں تھے اور دوسری طرف وہ ایک معجزہ کے طورپر ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنانہیں چاہتے . تھے صرف ایک لفظ جوان کی شیطنت کااظہار اوران کی ہو ائے نفس کو پورا کر سکتا تھا وہ یہی لفظ سحر تھا جو اس حال میں بھی قرآن اور پیغمبرکے عجیب اورانتہائی زیادہ اثر کے بار ے میں دشمن کے اعتراف کی نشاندہی کرتاہے۔
 ۱۔ ” روح المعانی “ زیربحث آ یت کے ذیل میں ۔
سوره صافات / آیه 11 - 15 ۱ ۔ ”یَسْتَسْخِرُون “ کا مفہوم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma