ابرا ہیم (ع) خدا کاموٴ من بندہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 111 - 113سوره صافات / آیه 114 - 122
زیر نظر تین آ یات حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے فر زندوں کے بار ے میں جاری گفتگو کے اعتبار سے آخری آ یات ہیں . ان میں درحقیقت جو کچھ گذ رچکاہے اس کی ایک دلیل بھی بیان کی گئی ہے اورایک نتیجہ بھی . پہلے فرمایا گیا ہے :وہ ( براہیم ) ہمارے باایمان بندوں میں سے ہے ( إِنَّہُ مِنْ عِبادِنَا الْمُؤْمِنین) ۔
دراصل یہ جملہ ایک دلیل ہے اس چیز کی جو گزرچکی ہے . اس میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ساری ہستی اوروجود کو یہاں تک کہ اپنے عزیز فرزند کو بھی پور ے اخلاص کے ساتھ اپنے معبود کی راہ میں قربان کردیا، تو یہ اپنے عمیق اورطاقت ورایمان کی وجہ سے کیا تھا ۔
ہاں ! یہ تمام چیزں ایمان کے جلوے ہیں اور یہ ایمان کے کیاہی عجیب وغیریب جلوے ہوتے ہیں ۔
یہ تعبیر لاکر قرآن ابراہیم علیہ السلام اوران کے بیٹے کے واقعے کووسعت اور ہمہ گیری دے رہاہے اوراسے ایک شخصی اورانفر ادی واقعے سے ممتاز کر رہا ہے . گو یا قرآن اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ یہاں کہی ایمان ہے وہاں ایثار ،عشق ،فدا کار ی اور قربانی ہے . ابراہیم علیہ السلام اُسی چیز کو پسند کرتے تھے جسے خدا پسند کرتاتھا اوروہی چاہتے تھے جوخدا چاہتاتھا اورہرموٴ من ایسا ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے خدا کی ایک اور نعمت کو بیان کرتے ہوئے فر ماتا ہے :ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی،جس کے ساتھ مقدر میں تھاکہ پیغمبرہو اورصالحین میں سے ہو (وَ بَشَّرْناہُ بِإِسْحاقَ نَبِیًّا مِنَ الصَّالِحین) ۔
” فبشر ناہ بغلام حلیم“ کی آ یات کی طرف توجہ کرتے ہوئے جواس واقعے کے آغاز میں ذکر ہوئی ہے ،بخوبی واضح وروشن ہو جاتاہے کہ یہ دونوں بشارتیں دوبٹیوں کے ساتھ مربوط ہیں . اگرآخر ی بشار ت زیر بحث آ یت کی صراحت کے مطابق ” اسحا ق علیہ السلام “ سے مربوط ہے تو پھر”غلام حلیم“ ( بر وباروصابر ) کی بشار ت یقینا ” اسماعیل علیہ السلام ربط رکھتی ہے اورجن لوگوں کا یہ اصرار ہے کے اسحا ق علیہ السلام ہی ذبیح ہیں انہوں نے دونوں آ یات کاایک ہی مطلب کی طرف اشارہ سمجھاہے . اس فرق کے ساتھ کہ پہلی آ یت کوخود بیٹے کی اصل بشارت سمجھا ہے اوردوسر ی آ یت کونبوّت کی بشارت . لیکن یہ معنی بہت بعید ہے۔
زیربحث آ یات وضاحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ دونوں بشارتیں دوالگ الگ بیٹوں کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ( غورکیجئے گا )
اس سے قطع نظر بشارت ِ نبوّ ت بتاتی ہے کہ اسحا ق علیہ السلام زندہ رہیں گے اورفرائص ِ نبوّت انجامدیں گے،لیکن یہ بات ذبح کے مسئلے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
قابلِ توجہ یہ ہے کہ یہاں ہم ایک مرتبہ پھرصالحین کے مقا م و مرتبہ کی عظمت ملاحظہ کررہے ہیں .حضرت اسحاق علیہ السلام کی توصیف وتعریف میں فر ما یاگیاہے،کہ وہ پیغمبرہوں گے اورصالحین میں سے ہوں گے . اس سے واضح ہوتاہے کہ خدا ئے بزرگ و برتر کی بار گاہ میںصالحین کامقام کتنابلند وبالا ہے۔
زیر بحث آ خری آ یت میں اس برکت کے بار ے میں گفتگو ہو رہی ہے جو خدا نے ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند اسحاق علیہ السلام کوعطا فرمائی ،فرمایاگیاہے : ہم نے اسے اوراسحاق کو برکت سے نوازا ( وَ بارَکْنا عَلَیْہِ وَ عَلی إِسْحاقَ)۔
لیکن کس چیز میں برکت دی گئی ؟اس کی وضاحت نہیں کی گئی اور ہم جانتے ہیں کہ عام طورپر جس وقت کوئی فعل مطلق آ ئے اوراس میں کوئی قید وشرط نہ ہو تو وہ ہمہ گیر ی کے معنی میں دیتاہے اس بنا پر برکت سب چیز وں پر محیط ہوگی یعنی عمر اورزندگی میں ، آ ئندہ کی نسلوں میں ،تا ریخ و مکتب میں گو یاہر ایک چیز میں . اصو لی طورپر ” برکت “اصل میں ” برک“ ( بروزن ” ورک “ ) اونٹ کے سینے کے معنی معنی میں ہے . جس وقت اونٹ اپنا سینہ زمین پررکھتاہے تو یہی مادہ اس کے بار ے میں استعمال ہوتاہے۔
سینے کے معنی میں ہے . جس وقت اونٹ اپناسینہ زمین پر رکھتاہے تو یہی مادہ اس کے بار ے میں استعمال ہوتاہے۔
” برک البعیر“
رفتہ رفتہ یہ مادہ کسی چیز کے ثبات و دوام کے معنی میں استعمال ہونے لگا . ” برکہ آب “ کو بھی اسی بنا پر” برکہ “ کہتے ہیں کہ اس میں پانی ثابت و بر قرار رہتاہے اور مبارک کو بھی اس لحاظ سے مبارک کہتے ہیں کہ اس کی خیر وخوبی باقی اور بر قرار رہتی ہے۔
اس سے واضح ہو جاتاہے کہ زیر بحث کہ زیر بحث آ یت واسحٰق ( اوران کے خاندان پر ) نعمات الہٰی کے ثابت و برقرار رہنے اوردوام کی طرف اشارہ ہے اورایک برکت جوخدا نے ابراہیم علیہ السلام کودی ، یہ تھی کہ بنی اسرائیل کے تمام ابنیاء اسحاق کی اولادمیں ہوئے ،جبکہ السلام کے عظیم پیغمبرحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت اسماعیل علیہ السلام کی او لاد میں سے ہیں ۔
لیکن اس بنا پر کہ یہ تو ہم نہ ہو کہ یہ برکت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں نسب اورقبیلے کے طورپر ہے بلکہ یہ تو مذہب و مکتب اورایمان کے ساتھ رابط رکھنے کی بنا پر ہے . آ یت کے آخر میں مز یدارشاد ہوتاہے :ان دو نوں کی اولاد میں سے نیک بھی تھے اورایسے افرا د بھی جنہوںنے عدم ایمان کی بنا پراپنے اوپر ظلم کیا( وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہِما مُحْسِنٌ وَ ظالِمٌ لِنَفْسِہِ مُبینٌ) ۔
”محسن“ یہان مومن اور فرمان ِ خداکے مطیع کے معنی میں ہے او رکون سااحسان اورنیکی اس سے برتر وافضل تصوّر ہوسکتی ہے ؟ جبکہ ” ظالم “ کافرو گنہ گار کے معنی میں ہے اور” لنفسہ“کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کفر و گناہ پہلے درجے میں خود اپنے اوپرظلم ہے او ر وہ بھی واضح و آشکار ظلم ۔
اس طرح سے مذ کورہ بالا آ یت یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کو جواس با ت پر فخر کرتے تھے کہ ہم ابنیا ء کی اولاد ہیں،جوا ب دیتی ہے کہ صرف رشتہ باعث ِ افتخار نہیں ہے جبکہ اس کے ساتھ فکری و مکتبی رشتہ بر قر ار نہ ہو ۔
اس بات پرشاہد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وہ حدیث ہے جو پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل ہوئی ہے کہ آ پ نے بنی ہاشم کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا :
لایاٴ تینی الناس باعما لھم وتاٴ تونی بانسا بکم
اے بنی ہاشم ! کہیں ایسانہ ہو کہ قیامت کے دن باقی لو گ تو میر ے پاس اپنے اعمال کے ساتھ آ ئیں اور تم اپنے نسب اوررشتہ داری کاتعلق جتاتے ہوئے آؤ ( 1) ۔
 1۔روح البیان ، جلد ۷ ص ۴۷۹۔ 
سوره صافات / آیه 111 - 113سوره صافات / آیه 114 - 122
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma