انتظار اور فطرت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
فلسفه انتظار
غلط فیصلےحضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

بعض لوگوں کا قول ھے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ھے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ھے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ھے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ھوئی ھے۔
انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ھے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ھے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ھی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ھیں۔
انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ھے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ھے اور نیکی کو پسند کرتا ھے۔
بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ھے۔ یہ وہ جذبہ ھے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ھے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ھی زیادہ اس میں کمال نمایاں ھوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواھش ھوتی ھے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ھے۔
کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذھنیت کا نتیجہ ھیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ھے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ھے ھاں یہ ضرور ھے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ھیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ھے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ھے۔ ان تقاضوں کے فطری ھونے کی ایک دلیل یہ بھی ھے کہ تاریخ کے ھر دور اور ھر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ھیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ھوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ھے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ھے وھی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ھے۔
کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ھے جو ھمیشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ھے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ھے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ھے۔
یہ کیوں کر ممکن ھے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ھو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ھم کنار نہیں ھوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ھو۔
اب یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذھنیت کا نتیجہ نہیں ھے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ھے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ھے۔
ھم یہ دیکھتے ھیں کہ انسانی بدن کا ھر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ھوتا ھے ھمیں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ھو، ھر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ھے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ھیں۔
انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ھے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ھلاکت سے بچاتی ھے اور انسان کے لئے ایک سپر ھے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے
غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ھے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ھوجاتی ھیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ھونے سے بچا تا ھے اور فائدہ کو تباہ ھونے سے محفوظ رکھتا ھے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ھے۔
اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ھے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ھے، یہ وہ جذبات ھیں جو کمالات کی طرف انسان کی رھبری کرتے ھیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ھیں، جس کی بناء پر وہ ھمیشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رھتا ھے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ھوجاتی ھے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔
یہ بات بھی سب کو معلوم ھے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ھے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ھے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ھے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماھتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ھے۔
چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ھے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ھے تو یہ اس بات کی دلیل ھے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ھے۔
اسی بناء پر جب ھمیں پیاس لگتی ھے تو ھم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ھیں اسی جذبے کے تحت ھمیں اس بات کا یقین ھے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ھے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ھوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ھوتا تو ھرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ھم اپنی کوتاھیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ھرگز دلیل نہ ھوگی کہ پانی کا وجود نہیں ھے، پانی کا وجود ھے البتہ ھماری سعی و کوشش ناقص ھے۔
اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ھے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ھوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔
اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رھا ھے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ھے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ھے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ھے۔
عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ھے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ھے۔ اور صرف مسلمانوں ھی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ھے بلکہ دنیا کے دیگر مذاھب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ھے۔
اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ھے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذھنیت کا نتیجہ نہیں ھے اور نہ ھی اقتصادیات کی پیداوار ھے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ھیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ھاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ھوتے ھیں کہ ھر قوم و ملّت اور ھر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ھے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ھے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ھے جب اس کا ظھور ھوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ھوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذھنیت کی ایجاد نہیں ھے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ھے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ھے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ھے۔
بعض لوگوں کا نظریہ ھے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلکہ دوسرے مذاھب سے اس کو اخذ کیا گیا ھے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ھے۔ ان لوگوں کا قول ھے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ھے۔ دیکھنا یہ ھے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ھے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ھے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ھے۔
اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ھوتا ھے کہ ھم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ھی ھے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ھے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ھے۔
یہ بات بھی درست نہیں ھے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ھی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ھے کہ اسلام شناسی کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ھم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ھیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ھم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔
ھم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ھیں۔ دوسری وجہ یہ ھے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ھیں، ھر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ھیں۔ بدیہی بات ھے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔
اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ انتظار کا شمار ان مسائل میں ھے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ھے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ھوئی ھیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے تواتر سے انکار نہیں کرسکتا ھے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ھیں اور سب ھی نے ان روایات کے متواتر ھونے کا اقرار کیا ھے۔ ھاں صرف ابن خلدون اور احمد امین مصری نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ھے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ھیں بلکہ ان کا خیال ھے کہ یہ ایسا مسئلہ ھے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ھے۔
اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ھوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ھے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رھے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ھے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ھے۔ سب کو یہ بات معلوم ھے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ھیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ھوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اھمیت کا حامل ھے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ھے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ھوجاتی ھے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ھے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ھیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ھے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ھے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ھے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ھے۔

غلط فیصلےحضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma