سید نعمة اللہ جزائری،جلیل القدر عالم دین اور مقدس اردبیلی کے شاگرد کہتے ہیںایک خشک سالی میں میرے استاد نے کھا نے کے لئے گیہوں وغیرہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتاتھا فقیروں میں تقسیم کردیتے تھے اور اپنے گھر والوں کے لئے بھی فقیروں کی طرح ایک حصہ بچاتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن ان کی بیوی کافی غصہ ہوگئی اوراس نے استاد کے اس کام پر اعتراض کیاکہ آپ تو اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور جو کچھ بھی ہے فقیروں میں تقسیم کردیتے ہیں۔
استاد اس اعتراض کی وجہ سے گھر سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں اور مسجد کوفہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جاتے ہیں۔اعتکاف کے دوسرے دن ایک شخص ان کے دروازہ پر آتا ہے اور بہت اچھے قسم کے گیہوںاور آٹے کی چند بوریاں ان کے لئے لاتا ہے اور کہتا ہے اسے آقا نے بھیجا ہے۔
مقدس اردبیلی کی واپسی پر ان کی زوجہ نے کہا:جو گیہوں آپ نے بھیجا ہے بہت اچھا ہے۔استاد نے کہا:میں نے اس طرح کے مرد عربی کو کبھی نہیں دیکھا ہے اور مجھے اس کی کوئی خبر بھی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے یہاں گیہوں بھیجا ہے!مقدس اردبیلی نے اس خدائی تحفہ پر اس کا شکر ادا کیا۔