۵. انفاق کا اجر عظیم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
دولت کا بهترین مصرف
۴ . انفاق نہ کر سکنے پر گریہجذبہٴ انفاق

خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
<
آمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاَنْفِقُوْا مِمَّاجَعَلَکُمْ مُسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَ اَنْفَقُوْ لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ ( سورئہ حدید آیت /۷)
تم لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔
وضاحت
ایمان اورانفاق دو عظیم سرمائے
مذکورہ بالا آیت تمام انسانوں کو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان اور راہ خدامیں انفاق کی دعوت دے رہی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے :خدا اوراس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ (آمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ)
یہ دعوت ایمان اور انفاق ایک عمومی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی جا رہیہے۔ صاحبان ایمان کو راسخ اور کامل ایمان کی دعوت دی جا رہی ہے اور غیرمومنین (کفار و مشرکین-)کو ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے ایسی دعوت جو دلیل کے ساتھ ہے اور اس کی دلیل اس سے قبل کی آیات توحیدی میںذکر کی جا چکی ہے۔
اس کے بعد ایمان کے ایک اہم اثر ”راہ خدا میں انفاق“ کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :اس مال میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے۔
یہ پروردگار کی عطا کردہ نعمتیںجو انسان کے اختیار میں ہیں ان میں ایثار، فداکاری اور انفاق کی دعوت ہے اور پروردگار نے اس دعوت کو ایک اہم نکتہ سے جوڑ دیا ہے جس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔وہ یہ کہ اصل میں مالک حقیقی خداوندعالم ہے اور یہ مال ودولت امانت کے طور پر کچھ دنوں کے لئے تمہارے حوالے کئے گئے ہیںویسے ہی جیسے تم سے پہلے دوسروں کے اختیار میں تھے اور آئندہ بھی دوسروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔
بے شک ایسا ہی ہے اسلئے کہ قرآن کریم کی دیگر آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ساری کائنات کا حقیقی مالک پروردگار عالم ہے۔ اس حقیقت اور واقعیت پر ایمان رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اس کے ”امانتدار“ہیں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ امانتدار ،صاحب امانت کے فرمان کو نظر انداز کر دے !
اس اہم نکتہ کی طرف توجہ، انسان کے اندر جذبہٴ سخاوت اور ایثار پیداکرتا ہے اور اس کے دل اور ہاتھ کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کھو ل دیتا ہے ۔
مستخلفین (نائب اور جانشین ) کی تعبیر ممکن ہے انسان کے زمین اور نعمات زمین میں خدا کے نمائندہ اور جانشین ہونے کی طرف اشارہ ہو یاگذشتہ امتوں کی جانشینی کی طرف اشارہ ہو یا دونوں کی طرف اشارہ ہو۔
”تعبیر“ ”مما“(ان چیزوں میںسے)ایک عام تعبیر ہے جو صرف مال ہی نہیں بلکہ ہر سرمایہ اور نعمت الٰہی کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ انفاق کا ایک وسیع اور عام معنی ہے جو صرف مال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علم،ہدایت،سماجی اثرو رسوخ اور دوسرے مادی اور معنوی سرمایہ کو بھی شامل ہوتا ہے۔
اس بیان کے بعد مزید تشویق کے لئے ارشاد فرماتا ہے: تم میںسے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے۔فَالَّذِیْنَ آمَنُوْامِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ
کلمہ کبیرکے ذریعہ اجرکی صفت لانا ،الطاف اور نعمات الٰہی کی عظمت اور اس کی ہمیشگی کو بیان کرنا ہے ۔یہ اجر عظیم صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی انسان کو نصیب ہوگا ۔
راہ خدا میں انفاق کے حکم کے بعد اس کی ایک دلیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :اور راہ خدا میں انفاق کیوں نہ کرو جبکہ زمین وآسمان کی ساری میراث اسی کی ہے ! وَ مَا لَکُمْ اٴَلاَّتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلَّہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ“
یعنی آخر کار تم سب اس کائنات اور اس کی ساری نعمتوں سے آنکھ بند کرکے ،سب کچھ چھو ڑ کر چلے جاؤ گے لہٰذا فی الحال جبکہ یہ ساری چیز یں تمہارے اختیار میں ہیں ان سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟
راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ ”میراث “اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر کسی قرار داد اور معاہدہ کے کسی کو حاصل ہو اور مرنے والے کی جانب سے جو چیز اس کے رشتہ داروں کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ اسی کا ایک مصداق ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے یہی معنی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔
تعبیر ”لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ “ اس لئے ہے کہ نہ صرف روئے زمین کی مال ودولت بلکہ زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے سب خدا وند عالم کی طرف پلٹ جائے گا جب ساری مخلوقات مر جائے گی تو پروردگار ان سب کا وارث ہوگا۔
دوسرے اعتبار سے چونکہ مختلف حا لات اور مواقع میں انفاق کی اہمیت اور قیمت میں فرق ہوتا ہے اسی وجہ سے بعد کے جملہ میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
”جنہوں نے فتح اور کامیابی سے پہلے راہ خدا میں انفاق کیا اور جہاد کیا ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد اس کام کو انجام دیا: ”لَاْ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ“
اس آیت میں فتح سے مراد کون سی فتح ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض نے اس کو۸ ھء میں فتح مکہ کی طرف اشارہ جانا ہے اور بعض نے ۶ ھء میں فتح حدیبیہ کی طرف ۔
چونکہ سورئہ ”اِنَّا فَتَحْنَاْ لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناًمیں کلمہ ”فتح “سے مراد فتح (صلح )حدیبیہ ہے لہٰذا یہاں پر بھی مناسب یہی ہے کہ مراد فتح حدیبیہ (صلح حدیبیہ) ہو، لیکن تعبیر ”قاتل“(جنگ و جہاد کیا ) فتح مکہ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اس لئے کہ صلح حدیبیہ میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی لیکن فتح مکہ میں ایک مختصر سی جنگ ہوئی جو زیادہ مقاومت اور مقابلہ سے رو برونہ ہو سکی۔
یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں”الفتح“سے مراد مختلف جنگوں میں مسلمانوں کی طرح طرح کی فتح اور کامیابی ہو ۔ یعنی جن لوگو ںنے سخت اوربحرانی حالات میں انفاق کرنے اور راہ خدا میں جاںنثاری کرنے سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی ان لوگوں سے برتر اور افضل ہیں جو طوفان حوادث اور سختیوں کے خاتمہ کے بعد اسلام کی مدد کے لئے دوڑتے ہیں اور آیت کی یہ تفسیر زیادہ مناسب ہے۔
اسی لئے مزید تاکید کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ان لوگوں کا مقام اور منزلت ان لوگوں سے برتر اور بالا تر ہے جنہوں نے فتح کے بعد انفاق اور جہاد کیا ”اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْامِنْ بَعْدِوَقَاتَلُوْا“
اس نکتہ کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ بعض مفسرین اس بات پر مصر ہیں کہ انفاق اور راہ خدا میں خرچ کرنا جہاد سے برتر اور افضل ہے اور شاید آیہٴ کریمہ میں”انفاق“ کو جہاد سے پہلے ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہو۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مالی انفاق کو جہاد پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جنگی وسائل ،مقدمات اور اسلحے مال ہی سے خریدے اور فراہم کئے جاتے ہیں ورنہ بلا شک و شبہ جاںنثاری اور راہ خدا میںشہادت کے لئے آمادہ رہنامالی انفاق سے بر تر اور بالا تر ہے۔
بہرحا ل چونکہ دونوں دستہ (فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد انفاق کرنے والے ) درجات میںفرق کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خاص عنایت کے حقدار ہیں لہٰذا ارشاد فرماتا ہے: خدا وندعالم نے دونوں گروہ سے نیکی کا وعدہ کیا ہے : ” وَکُلاًّ وَّعَدَاللّٰہُ الْحُسْنیٰ “
دونوں دستہ سے نیکی کا وعدہ کرنا خدا کی جانب سے ہر اس شخص کی قدر دانی ہے جو حق کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں کلمہٴ”حسنیٰ“اس آیہٴ کریمہ میںایک عام معنی میںہے جو ہر طرح کے ثواب اور دنیا و آخرت کے جزائے خیر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
اورچونکہ ہر انسان کے عمل کی قیمت اس کے خلوص کی بنیاد ہو تی ہے لہٰذا پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ اور باخبر ہےوَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ“یعنی خداوند عالم تمہارے اعمال کی مقدار اور کیفیت سے بھی آگاہ ہے اور نیت وخلوص سے بھی باخبرہے ۔
مذکورہ آیت میں ایک بار پھر راہ خدا میں انفاق کی تشویق کے آخر میں ایک خوبصورت تعبیر بیان کی گئی ہے :کون ہے جو پروردگار کو قرض دے اور جو مال ودولت خدا نے اسے عطا کیا ہے ان میں سے انفاق کرے تاکہ پروردگار اسے کئی گنا کر دے اور اس کے لئے بہت زیادہ اور با قیمتی اجر ہے: ”مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہُ قَرْضاًحَسَناًفَیُضَاعِفْہُ لَہُ وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ“
واقعاً یہ ایک عجیب وغریب تعبیر ہے وہ خدا جو ساری نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اور ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ ہر لمحہ اس کے بے پایاں دریائے فیض سے بہرہ مند ہو رہا ہے اور اسی کی ملکیت ہے۔ اس نے ہم کو صاحب مال و دولت شمار کیا ہے اور ہم سے قرض کا مطالبہ کر رہا ہے ۔اور عام قرض کے خلاف جہاں اتنی ہی مقدار واپس کی جاتی ہے وہ اس میں کئی گنا اور کبھی سو گنا اور کبھی ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور ان سب باتوں کے علاوہ اَجْرٌ کَرِیْمٌ “کاوعدہ بھی کرتا ہے جو ایک عظیم اجر ہے جس کی مقدار خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔


۴ . انفاق نہ کر سکنے پر گریہجذبہٴ انفاق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma