یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محروم فقیر اور مسکین افراد ہی کیوںہوں کہ ہم کو انفاق کرنا پڑے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ خداوند عالم انہیں ان کی ضرورت کی تمام چیزیں عطا کر دیتاتا کہ ہم ان اوپر انفاق کرنے کے محتاج نہ ہوتے؟
جواب -
آیت کا آخری حصہ گویا اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے پروردگار عالم فرماتا ہے -:
<ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر انہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً
دراصل یہ تمہارے لئے ایک امتحان ہے ورنہ پروردگار کے لئے ہر چیز ممکن ہے وہ اس طرح سے تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اندر سخاوت، فدا کاری اور ایثار کے جذبہ کو پروان چڑھا نا چاہتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگربعض لوگ بالکل بے نیاز ہو جائیںتو وہ سر کشی پر اتر آئیں گے لہٰذا ان کی مصلحت اسی میں ہے کہ انہیں ایک معین مقدار میں روزی دی جائے جو نہ ہی ان کے فقراور تنگدستی کا سبب ہو اور نہ ہی طغیان اور سرکشی کا باعث ہو۔
ان سب باتوں کے علاوہ انسانوں ( کچھ موارد کے علاوہ یعنی بے کار اور معمولی افراد کے علاوہ ) کی روزی میں وسعت اور تنگی کا تعلق خود ان کی سعی و کوشش سے ہے اور یہ کہ خدا وند عالم فرما رہا ہے کہ:وہ جس کی روزی کو چاہتا ہے تنگ یا کشادہ کر دیتا ہے۔ یہ مشیت پروردگار بھی اس کی حکمت کے مطابق ہے اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ جو بھی زیادہ کوشش کرے گا اس کا حصہ زیادہ اور جس کی سعی و کوشش کم ہوگی وہ اتنا ہی محروم ہوگا۔
بعض مفسرین نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیات کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ اس آخری فقرہ میں انفاق میں افراط و تفریط سے منع کرنے کی دلیل کو بیان کیا گیا ہے۔ گویایہ آیت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پروردگار بھی اپنی ساری قدرت کے باوجود روزی عطا کرنے میں درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے اور حد وسط کی رعایت کرتا ہے نہ ہی اتنا زیادہ عطا کرتا ہے کہ فساد اور تباہی کا سبب بن جائے اور نہ ہی روزی میں اتنی تنگی کرتا ہے کہ انسان زحمت میں پڑ جائے یہ تمام چیزیں بندوں کے حالات کی رعایت اور ان کی بھلائی کے پیش نظر ہیں ۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم بھی اخلاق الٰہی کو اپناوٴ ، اعتدال اور درمیانی راستہ اختیار کرو اور افراط وتفریط سے پرہیز کرو ۔