دلوں میں آیات قرآنی کا نفوذ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
دولت کا بهترین مصرف
۱۲.بلند وبالا مقاصد تک پہنچنے کا راستہ انفاق ،روایات اسلامی میں

صدر اسلام میں بعض مسلمانوں کے دلوں میں آیات قرآنی کا اتنا جلدی اور گہرا اثر ہوتا تھا کہ نزول آیات کے فوراً بعد اس کا اثر ظاہر ہو جاتا تھا ۔نمونہ کے طور پر مذکورہ آیت کے سلسلہ میں تاریخ اورتفسیر کی کتابوںمیں مندرجہ ذیل واقعات آئے ہیں :
(۱) رسول خد(صلی الله علیه و آله و سلّم) کے صحابی ابوطلحہ انصاری کا مدینہ منورہ میں ایک بہت ہی وسیع وعریض کھجور کا باغ تھا ،مدینہ میں ہر ایک کی زبان پر اس کا چرچا تھا۔ اس باغ میں پانی کا ایک چشمہ تھا۔ جب بھی رسولخدا اس باغ میںتشریف لے جاتے اس چشمہ سے پانی پیتے اور وضو فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ اس باغ کی آمدنی بھی بہت اچھی تھی اس آیہٴ کریمہ کے نزول کے بعد ابو طلحہ انصاری آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: آپ تو جانتے ہیں کہ میرے نزدیک سب سے محبوب شے یہی باغ ہے اور میں اس کو راہ خدا میں انفاق کرنا چاہتا ہوں تاکہ روز قیامت میرے لئے ذخیرہ بن سکے ۔ آپ نے فرمایا”بخ بخ ذٰلک مال رابح لک“ شاباش شاباش یہی وہ ثروت ہے جو تمہارے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: میری نظر میں بہتر یہ ہے کہ اس باغ کو ضرورت مند اور فقیر رشتہ داروں کو بخش دو۔“
ابو طلحہ انصاری نے رسول کریم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا ۔
(۲) ایک دن جناب ابوذر کے گھر ایک مہمان آیا۔ چونکہ جناب ابوذر سادہ اور معمولی زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا انہوں نے مہمان سے معذرت چاہی کہ مشکلات کی بنا پر میں خود تمہاری مہمان نوازی نہیں کر سکتا۔ فلاں مقام پر میرے چند اونٹ ہیں ۔ زحمت کرکے ان میں سے ایک سب سے اچھا اونٹ لیتے آوٴ (تاکہ تمہارے لئے قربانی کروں )مہمان گیا اور ایک لاغراور کمزور اونٹ لے کر آیا ۔جب ابوذر نے دیکھا تو اس سے فرمایا: تم نے حق امانت ادا نہیں کیا ۔ کیوں ایسا اونٹ لائے ہو؟اس نے جواب میں عرض کیا کہ: میں نے سوچا: ایک دن آپ کو ان اونٹوں کی ضرورت پڑے گی۔جناب ابوذرۻ نے فرمایا: میری نیاز مندی کا زمانہ وہ ہے جب میں اس دنیا سے آنکھ بند کر لوں (کتنا اچھا ہوگا کہ اس دن کے لئے کچھ ذخیرہ کرلوں) اور خدا وند عالم فرماتا ہے:لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ“
(۳) خلیفہ عباسی ہارون رشید کی زوجہ زبیدہ کے پاس ایک بہت ہی گراں قیمتی قرآن تھا ،زبیدہ نے اسے زرو زیورات اور جواہرات سے مزین کر رکھا تھا اور اس سے بہت زیادہ محبت رکھتی تھی۔ ایک دن جب اسی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آیہلَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ“تک پہنچی تو آیت کو پڑھ کر میں ڈوب گئی اوراپنے آپ سے کہا :میرے نزدیک اس قرآن سے زیادہ محبوب کوئی دوسری چیز نہیں ہے لہٰذا اسی کو راہ خدا میں انفاق کر دینا چاہئے۔اس نے ایک شخص کو جوہری کے پاس بھیجا اور اس قرآن کے سارے زروزیورات اور جواہرات کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے حجاز کے بیابانوں اور صحراؤں میں بیابان نشینوں کی پانی کی ضرورتوں کو پوراکرنے پر خرچ کر دیا (کنویں کھدوائے)لوگ کہتے ہیں کہ ان کنوؤں کے آثار آج بھی موجود ہیں اور زبیدہ کے نام پر ان کا نام رکھا گیا ہے۔
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیٍٴ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ
آخر آیت میں انفاق کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرماتا ہے :تم جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کروگے، کم ہویا زیادہ ،محبوب مال میں سے ہو یا غیر محبوب مال میں سے، خداوند عالم سب سے آگاہ اور با خبر ہے۔ لہٰذا کوئی بھی چیز اس کے نزدیک نہ ہی گم ہوگی اور نہ ہی پوشیدہ اور نہ ہی اس کی کیفیت اس پر مخفی رہے گی۔(یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ راہ خدا میں انفاق ہونے والی ہر چیز محفوظ ہے اور انفاق کرنے والے روز قیامت ان سب کی جزا دریافت کریں گے۔)
 

۱۲.بلند وبالا مقاصد تک پہنچنے کا راستہ انفاق ،روایات اسلامی میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma