۱۸ . انفاق کا بہترین مقام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
دولت کا بهترین مصرف
(ج) کیا انفاق، میانہ روی اورایثار کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے؟اولویت ،روایات اسلامی میں

<لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اٴُحْصِرُ وْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباًفِیْ الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اٴَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ
یہ صدقہ ان فقراء کے لئے ہے جو راہ خدا میں گرفتار ہو گئے ہیں اور کسی طرح سفرکرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔نا واقف افراد انہیں ان کی حیا اور عفت کی بنا پر مالدار سمجھتے ہیں حا لانکہ تم آثارسے غربت کا اندازہ کر سکتے ہو اگر چہ یہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی انفاق کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہٴ بقرہ: آیت۲۷۳)
توضیح
اس آیہٴ کریمہ کے شان نزول کے بارے میں امام محمد باقر(ع) سے منقول ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(اصحاب صفہ مکہ اور اطراف مدینہ کے تقر یباً چار سو مسلمان تھے جن کے نہ ہی مدینہ میں گھر تھے اور نہ ہی کوئی رشتہ دار جس کے یہاں جا سکیں لہٰذا یہ افراد مسجد النبی میں مقیم تھے اور میدان جہاد میں جانے کے لئے اپنی تیاری کا اعلان کرتے تھے )لیکن چونکہ ان کا مسجد میں رہنا مسجد کی شان کے مطابق نہ تھا لہٰذا ان کو حکم دیا کہ مسجد کے کنارے صفہ( ایک بڑے اور وسیع چبوترے )پر منتقل ہو جائیںتومذکورہ بالا آیت ناز ل ہوئی اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے امکان بھر اپنے ان دینی بھا ئیوں کی مدد سے دریغ نہ کریںاور مسلمانوں نے ایسا ہی کیا (یعنی سبھی نے اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مددکی۔)
پروردگار عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں اپنی راہ میں انفاق کے بہترین مواقع اور مقامات کو بیان کیا ہے اور وہ مندرجہٴ ذیل صفات کے حامل افرادہیں :
(۱) اَلَّذِیْنَ اٴُحْصِرُ وْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی وہ افراد جو اہم کاموں مثلاًدشمن سے جہاد کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی وجہ سے اپنی زندگی کے اخراجات فراہم کرنے سے عاجز ہیں ، اصحاب صفہ کی طرح جو اس کے واضح مصداق تھے۔
(۲) لَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباًفِیْ الْاَرْض ِیعنی وہ افراد جو سفر نہیں کر سکتے اورسامان زندگی فراہم کرنے کے لئے ایسے شہروں کی طرف بھی نہیں جا سکتے جہاں بہت زیادہ نعمتیں ہیں ۔لہٰذا جو لوگ اپنی زندگی کے اخراجات کو پورا کر سکتے ہیں انھیں چاہئے کہ سفر کی زحمت و مشقت برداشت کریں اور ہر گز دوسروں کے انفاق اور کمائی پر بھروسہ نہ کریں ۔ مگر یہ کہ کوئی اہم کام ہو جیسے راہ خدا میں جہاد جو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے اور پروردگار کی خوشنودی بھی اسی میں ہے۔
(۳) یَحْسََبُہُمُ الْجَاہِلُ اٴَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّف جو لوگ ان کے حا لات سے باخبر نہیں ہیں وہ انہیں ان کی خودداری اور عزت نفس کی وجہ سے مالدار اور بے نیاز سمجھتے ہیں۔
(۴) تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُم (آپ ان کو ان کے آثار سے پہچانتے ہیں ) لغت میں سیما علامت اور نشانی کو کہتے ہیں ۔یعنی اگر چہ وہ لوگ اپنے حا لات کوزبان پر نہیں لاتے لیکن ان کے چہروںپر ان کے اندرونی رنج و درد کی نشانیاں موجودہیں جو عاقل اور سمجھ دار انسان کے لئے واضح اور آشکار ہیں۔بے شک (رنگ رخسار ہ خبرمی دہداز سِرّدرون) یعنی رخسار کی رنگت اندرونی راز کی خبر دیتی ہے ۔
(۵) لَاْ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً وہ لوگ عام فقیروں کی طرح اصرار کے ساتھ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے۔در حقیقت وہ کسی کے آگے دست سوال ہی نہیںپھیلاتے کہ اصرار کی نوبت آئے ۔
اگر قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ اصرار کے ساتھ سوال نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اصرار کے بغیر مانگتے ہیں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ وہ عام فقیروں کی طرح نہیں ہیں کہ سوال کریں ۔
لہٰذا اس جملہ اور جملہ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُمْ میں کوئی منافات نہیں ہے ایسے افراد کو ان کے آثارکے ذریعہ پہچانا جاسکتا ہے ، مانگنے کے ذریعہ نہیں۔
اس آیہٴ کریمہ میں ایک احتمال یہ بھی پایاجاتا ہے کہ جب سخت حالات انہیں اپنا حال بیان کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں تب بھی وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ ہے اصرار کرتے ہیں بلکہ اپنی حاجت کو بہت ہی محترمانہ شکل میں اپنے مسلمان بھائیوںکے سامنے پیش کردیتے ہیں ۔
(۶) وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ یہ جملہ انفاق کرنے والوں کی تشویق کے لئے ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں پر انفاق کرنے کے لئے جو عزت نفس اور نیک طینت کے مالک ہیں ۔ اس لئے کہ جب انھیں یہ معلاوم ہو کہ وہ جو کچھ راہ خدا میںخرچ کررہے ہیں چاہے خفیہ طور سے ہی کیوں نہ ہوخدا اس سے باخبر ہے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے ثواب سے نوازے گا تو ان میںاس عظیم خدمت کو انجام دینے پر مزید شوق پیدا ہو جائے گا ۔
لیکن افسوس کہ ہر سماج میں اس طرح کے آبرو مند فقیر پائے جاتے ہیں جن کے اندرونی حالات اور رنج و درد سے اکثر لوگ بے خبر ہوتے ہیں ۔لہٰذا باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو تلاش کریں اور ان کی مدد کریں اور بہترین انفاق یہی انفاق ہے۔
 

(ج) کیا انفاق، میانہ روی اورایثار کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے؟اولویت ،روایات اسلامی میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma