حاملانِ عرش ہمیشہ موٴ منین کے لیے دعاگو ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 7- 9۱۔ حاملین عرش کی چار دعائیں

گزشتہ آیات کے تیور بتارہے ہیں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھیں جب مسلمان اقلیت میں تھے اورمحرومی کی زندگی بسر کررہے تھے اوران کے دشمن طاقت ، تسلط اوروافروسائل کے لحاظ سے عروج پر تھے ۔
ان آیات کے بعد زیرنظر آیات درحقیقت اس لیے نازل ہوئیں تاکہ سچّے مومنین کو اس بات کی خوشخبری سنائیں کہ وہ ہرگز تنہا نہیں ہیں اور نہ ہی وہ خود کو تنہامحسوس کریں کیونکہ عرش الہٰی کے حامل خدا کے مقرب ترین اورعظیم ترین فرشتے ا ن کے ہم صدا ،دوست اورطرفدار ہیں اور ہمیشہ ا ن کے لیے دعاکرتے رہتے ہیں . اس دنیامیں بھی اوراس جہان میں ہمیشہ ان کی کا میابی کے لیے دعاگوں ہیںیہی چیز زمانہ ٴ ماضی کے مومنین کی طرح زمانہٴ حال اورآئندہ زمانہ مومنین کے لیے تسلّی خاطر اوردلجمعی کابہت بڑا ذریعہ ہے ۔
فر مایاگیا ہے: جوفرشتے عرش کواٹھائے ہوئے ہیں اوروہ فرشتے جوعرش کے ارد گرد رہتے ہیںخدا کی تسبیح اورحمد بجالانے ہیں،اسی پر ایمان رکھتے ہیں ورموٴمنین کے لیے استغفار کرتے ہیں (الَّذینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَ یَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذینَ آمَنُوا) ۔
وہ اپنی باتوں میں کہتے ہیں : پروردگا ر ا ! تیری رحمت اورتیرا علم سب چیزوں پر حاوی ہے ( تو اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبرہے اوران کی بابت رحیم بھی ہے ) خدا وندا ! ان لوگوں کوبخش دے جنہوں نے توبہ کی اورتیری راہ کواختیار کیا انہوں نے جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ (رَبَّنا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْء ٍ رَحْمَةً وَ عِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذینَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبیلَکَ وَ قِہِمْ عَذابَ الْجَحیم) ۔
یہ گفتگو مومنین کو اس بات کی طرف متوجہ کررہی ہے کہ صرف تم ہی عبادتِ خدااوراس کی حمد و تسبیح بجانہیں لاتے،تم سے پہلے خدا کے مقرب ترین فرشتے یعنی حاملانِ عرش اوراس کاطواف کرنے والے فرشتے اس کی حمد وتسبیح بجالارہے ہیں ۔
ساتھ ہی کفار کو بھی تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم ایمان لاؤیانہ لاؤ اس کے نزدیک ایک جیسی بات ہے کیونکہ اسے کسی کے ایمان کی ضرورت نہیںاس قدر فرشتے اسکی حمد و تسبیح بجالاتے ہیں جن کاتصوّر بھی نہیں کیاجاسکتا اس کے باوجود کہ اسے کسی کی حمد و ثنا بجالانے کی ضرورت نہیں اس قدر فرشتے اسکی حمد وتسبیح بجالاتے ہیں جن کاتصوّر بھی نہیں کیاجاسکتا اس کے باوجود کہ اسے کسی کی حمد و ثنا بجالانے کی ضرورت نہیں ہے . وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز بر تر اور بالاتر ہے ۔
ساتھ ہی مومنین کویہ خبر بھی دی جارہی ہے کہ تماس دنیا میں اکیلے نہیں ہو... اگر چہ بظاہر اس ماحول میں تم اقلیت میں ہوکا ئنات کی طاقتور ترین غیبی طاقتیں اورحاملین ِ عرش تمہارے حامی اور دعا گو ہیں جو ہمیشہ خداسے یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ تمہیں اپنے عفو اور رحمتوں میں شامل فرمائے . تمہارے گناہوں کومعاف کردے اور تمہیں جہنم کے عذاب سے محفو ظ رکھے ۔
اس آیت میں ایک بار پھر”عرش “ کافکر ملتا ہے اور حاملین ِ عرش اوران فرشتوں کی دعا ؤ ں کی بات ہو رہی ہے جوعرش کے ارد گرد رہتے ہیں . اگر چہ مختلف سورتوں کی تفسیر کے سلسلے میں ہم اس موضوع پر کافی روشنی ڈال چکے ہیں ( ۱) پھر بھی چند اہم نکات کی بحث میں ہم اس کی کچھ اور تشریح کریں گے ۔
مومنین کے بار ے میں حاملین ِ عرش کی دعا ؤں کاسلسلہ بعد والی آیت میں بھی ملتاہے . چنانچہ قرآن کہتاہے : خدا وند ا ! جس بہشت برین کاتونے ان سے وعدہ کیاہے اس میں انہیں داخل فرما ( رَبَّنا وَ اٴَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتی وَعَدْتَہُمْ )۔
اور اسی طرح ان کے نیک آبا ؤ اجداد ، ازواج اور اولاد کو بھی (وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ آبائِہِمْ وَ اٴَزْواجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ) (۲)۔
کیونکہ تو ہرچیز پر غالب ہے اور ہرچیز سے باخبر ہے (إِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزیزُ الْحَکیم)۔
یہ آیت جو ” ربّنا “ سے شروع ہوئی ہے حاملانِ عرش اورمقامِ الہٰی کی عاجزانہ اور ملتمسا نہ درخواست ہے جو وہ اپنے پروردگار کے لطف و کرم کے حصول ِ کے لیے ایک مرتبہ پھر اس کے مقامِ ربوبیت کاسہارا لے کرمومنین کے لیے نہ صرف دوزخ سے نجات کی درخواست کرتے ہیں بلکہ ان کے بہشت کے باغ ِ بریں میں داخل ہونے کی التجاء بھی کرتے ہیں . نہ صرف ان کی اپنی ذات کے لیے بلکہ ان کے آباوا جداد اوراولاد کے لیے بھی جو ان کے ہم مسلک اور ہم گام ہیں اوراس کی عزت و قدرت جیسی صفات کے واسطے سے یہ دعا مانگ رہے ہیں ۔
ان آیات میں جس وعدہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد وہی وعدہ ہے جوخدانے اپنے نبیوں کے ذ ریعے لوگوں سے کیاہے ۔
موٴ منین کی دو حصوں تقسیم سے اس حقیقت کاپتہ چلتاہے کہ کچھ مومنین کاشمار توصفِ اول میں ہوتاہے اور وہ یہ لوگ ہوتے ہیں جو فرامین کے بجالانے میں پوری کوشش کرتے ہیں اور کچھ کا شمار اس صف میں نہیں ہوتا اور یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے گروہ کی طرف نسبت رکھتے ہیں اوراس کی کسی حد تک پیروی کی وجہ سے فرشتوں کی دعاؤں میں شامل ہیں۔
ان آیا ت میں جس وعدہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد وہی وعدہ ہے جو خدانے اپنے نبیوں کے ذریعے لوگوں سے کیاہے ۔
مومنین کی دوحصوں میں تقسیم سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ کچھ مومنین کاشمار توصفِ اول میں ہوتاہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ہیں جو فر امین الہٰی کے بجا لانے میں پوری کوشش کرتے ہیں اور کچھ شمارا س صف میں نہیں ہوتا اور یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے گروہ کی طرف نسبت رکھتے ہیں اوراس کی کسی حد تک پیروی کی وجہ سے فرشتوں کی دعا ؤں میں شامل ہیں ۔
پھر یہ فرشتے مومنین کے بار ے میں اپنی چوتھی دعامیں کہتے ہیں: تو انہیں برائیوں سے محفوظ رکھ کیونکہ جنہیں تو اس دن کی برائیوں سے محفوظ رکھے گا وہی تیری رحمت میں شامل ہوں گے (وَ قِہِمُ السَّیِّئاتِ وَ مَنْ تَقِ السَّیِّئاتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہُ )۔
آخری کار وہ اپنی دعااس جملہ پر ختم کرتے ہیں :اور یہ ہے عظیم کامیابی (وَ ذلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ )۔
اس سے بڑھ کر او ر کیا کا میابی ہو سکتی ہے کہ انسان کے گناہ بخش دیئے جائیں ، عذاب اور برائیاں اس سے دور کردی جائیں ، وہ رحمت الہٰی میں شامل ہوجائے ،بہشت برین میں داخل ہوجائے اوراس کے تعلق سدار اور قریبی رشتہ دار بھی اس سے جاملیں۔
۱۔ تفصیل تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد ، سور ہ اعراف کی آیت ۵۴ کے ذیل میں ، نویں جلد ،سورہ ہود کی آیت ۷ کے ذیل میں اور دوسری جلد سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۵ کے ذیل میں تفصیل بیان ہوچکی ہے ۔
۲۔ ” و من صلح“ کاجملہ ” واد خلھم “کے جملے کی ضمیرپرمعطوف ہے ۔
سوره مؤمن/ آیه 7- 9۱۔ حاملین عرش کی چار دعائیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma