تفسیر :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں مغرور کفاراورظالم مجرموں کی دنیا وی سزا کے متعلق گفتگو ہورہی تھی . لیکن ان آیات میں ان کی آخر کی سزاکے بار ے میں بات ہو رہی ہے . قیامت کے مختلف مراحل میں دشمنان خداکے مصائب کوکسی لرزادینے والی آیات میں شمار کیاجارہا ہے۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے : اورا دن کاسوچئے جب خداکے دشمنوں کواکٹھا کرکے جہنم کی طرف جایاجائے گا (وَ یَوْمَ یُحْشَرُ اٴَعْداء ُ اللَّہِ إِلَی النَّارِ )۔ 
اوران کی صفوں کو باہم پیوستہ رکھنے کے لیے ” اگلی صفوں کورد کے رکھیں گے تاکہ بعد والی صفیں ان سے آملیں “ اور سب اکھٹے جہنم میںبھیجے جائیں (فَہُمْ یُوزَعُونَ) (۱)۔ 
” جب وہ اس تک پہنچ جائیں گے توان کے کان ، آنکھیں، اوربدن کی جلد ان کے اعمال کی گواہی دے گی (حَتَّی إِذا ما جاؤُہا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَ اٴَبْصارُہُمْ وَ جُلُودُہُمْ بِما کانُوا یَعْمَلُون) (۲)۔
کیسے عجیب گواہ ہوں گے یہ کہ جوخود انسان کے بدن کے اپنے اعضاء ہوں گے اوران کی گواہی بھی کسی صورت میں مستر د نہیں کی جائے گی . کیونکہ وہ ہر جگہ پرحاضر و ناظرر ہے ہیں اورحکم خداکے مطابق گفتگو کریں گے۔
اب یہاں پر سوال پیداہوتاہے کہ آیا ان کی گواہی اس طریقے سے ہوگی کہ خدا وند عالم ان میں شعور اورقوت گویا ئی ایجاد فرمائے گا جس طرح درخت کو قوت گویائی عطاکر کے موسٰی علیہ السلام سے باتیں کی تھیں یاانسان کے عمر بھر کے گناہوں کے آثار جوسینہ گیتی پرنقش ہوچکے ہیں اس ” یوم البروز “ اور اسرار کے آشکار ہونے کے دن ظاہر ہوجائیں گے . ہمارے روز مرہ کی گفتگو میں بھی کبھی اس قسم کے آثار کو گفتگو یاخبرسے تعبیر کرتے ہیں . جیسے کہتے ہیں
رنگ ِ رُخسار ترے دل کاپتہ دیتاہے .
ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ سب تفسیر یں قابل قبول ہیں اور کم وبیش مفسرین کی گفتگو میں یہ باتیں مل جاتی ہیں۔
البتہ اس میں بھی کوئی مانع نہیں کہ خداوند عالم ان میں ادراک اور شعور پیدا کردے اوروہ علم آگاہی کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے حضور گواہی دیں . بادی النظر میں بھی شاید آیت کاظاہر اسی طرح ہواور اللہ کی بار گاہ میں کائنات کے ذر ے کی تسبیح ،حمد اور سجدے کے بار ے میں بھی بہت سے مفسرین کایہی نظر یہ ہے۔
لیکن آخری معنی بھی کچھ بعید معلوم نہیںہوتا . کیونکہ معلو ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز فنانہیں ہوتی اور ہمارے اعمال وگفتار کے آثار بھی ہمارے اعضاء وجوارح میں باقی رہ جاتی ہیں اتفاق سے یہ ” شہادت تکوینی “ سب سے معتبر اور ناقابل تردید شہادت ہے . جس طر ح چہرے کے رنگ کازرد ہونا یاچہرے کارنگ اڑ جاناخوف وہراس کامعتبر گواہ ہوتاہے اور چہرے کاسرخ ہوجانا غصّے یاشرم کاگواہ ہوتاہے اوراس معنی میں نطق کا اطلاق مکمل طور پر قابلِ قبول ہے۔
لیکن یہ دوسرااحتمال کہ خدا وندعالم بغیر ادراک وشعور کے ان میں قوت گویائی پیداکرے گاجیسے حضرت موسٰی علیہ السلام کے لیے درخت سے بات کروائی یاان میں کسی قسم کاتکوینی اثر ہو،یہ بعید معلوم ہوتاہے کہ کیونکہ اس صورت میں نہ تکوینی گواہی کامصداق ہوگا اور نہ ہی تشریعی گواہی کا . نہ توان میں عقل و شعور ہوگا او ر نہ ہی کسی قسم کاآثار عمل الہذااللہ تعالیٰ کے حضوراس گواہی ک کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ” حتٰی اذماجاء وھا “ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعضاء کی شہادت دوزخ کی عدالت میں ہوگی،تو کیااس بات کامقصد یہ ہے کہ گواہی دوزخ میں لی جائے گی جب کہ دوزخ تو برے کا موں کاانجام ہوگی یایہ کہ ان کی عدالت دوزخ کے کنارے پر لگائی جائے گی اور یہ اعضاء و ہیں پر گواہی دیں گے ؟دوسراحتمال زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔
لفظ ” جلود “ (جلدیں) سے کیامراد ہے ؟ جوجمع کے صیغہ کے ساتھ استعمال ہواہے . بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ اس سے مرادبد ن کے مختلف حصوں کی جلد ہے . یعنی ہاتھ ، پاؤں ، چہرے وغیرہ کی جلد اور اگربعض روایات میں اس سے ” فروج “ (شرم گا ہیں ) مراد لیاگیاہے تو یہ درحقیقت اس کے مصداق میں سے ہے کہ ” جلود“ ” فروج “ میںمنحصر ہے۔
یہاں پر تیسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ انسان کے اور بھی تواعضاء ہیں آخر آنکھوں ، کانوں اور جلد ہی کوگواہ کے طور پر کیوں ذکر کیاگیاہے ؟کیا گواہی صرف انہی اعضاء کے ساتھ خاص ہوگی یا دوسرے اعضاء بھی گواہی دیں گے ؟
جہاں تک قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتاہے وہ یہ ہے کہ ان مذ کورہ اعضاء کے علاوہ انسان کے کئی اور اعضاء بھی گواہی دیں گے . چنانچہ سور ہ یٰسین آیت ۶۵ میں ہے :
وَ تُکَلِّمُنا اٴَیْدیہِمْ وَ تَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ
ان کے ہاتھ ہمارے ساتھ باتیں کریں گے اوران کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
سورہ ٴ نور کی آیت ۲۴ میں ” زبان ‘ ‘اور” ہاتھ پاؤں “ کی باتوں کاتذ کرہ ملتاہے :
یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَ اٴَیْدیہِمْ وَ اٴَرْجُلُہُمْ
جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں ، ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔
اسی وجہ سے معلوم ہوتاہے کہ دوسرے اعضاء بھی اپنی اپنی باری کے موقع پر گواہی دیں گے ، لیکن چونکہ انسان کے بیشتر اعمال انسان کی آنکھ اورکان کے ذریعے انجام پاتے ہیں اور بدن کی جلد وغیرہ ایسے اعضاء ہیں کہ جن کااعما ل کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتاہے اور وہ درجہ اوّل کے گواہ ہیں۔
بہرحال وہ بڑی رسوائی کادن ہوگا ، جس دن انسان کاتمام وجود بولنے لگے گا اوراس کے تمام راز فاش کرکے رکھ دے گا . اس سے تمام گناہگا ر عجیب وغیریب وحشت کاشکار وجائیں گے اس وقت اپنے بدن کی کھال کی طرف منہ کرکے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ہے (وَ قالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنا )۔ 
ہم نے سالہا سال تک تمہاری بھال کی تمہیں سردی اور گرمی بچاتے رہے ، تمہیں نہلاتے دھوتے تھے ہم نے تمہاری خاطر تواضع میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی ، تم نے یہ کیاکیا ؟
تووہ جواب دے گی ؛ جس خدا نے تمام موجودات کوبولنے کی طاقت عطاکی ہے اس نے ہم بھی بلوایاہے۔(قالُوا اٴَنْطَقَنَا اللَّہُ الَّذی اٴَنْطَقَ کُلَّ شَیْء)۔ 
خداوند عالم نے اس دن اوراس عظیم عدالت میں رازفاش کرنے کافریضہ ہمارے ذمہ لگایاہے اوراس کے فرمان کی اطاعت کے سواہمارے پاس اورکوئی چارہ کار بھی نہیں، جی ہاں ! جس خدا نے دوسری ناطق مخلوقات کوقوت گوہائی عطاکی ہے ہمارے اندر بھی یہ طاقت پیداکردی ہے ( ۳)۔ 
یہ با بھی دلچسپ ہے کہ وہ اپنی جلد سے یہ سوال کریں گے آنکھ اورکان جیسے دوسرے اعضاء سے نہیں ممکن ہے یہ اس لیے ہو کہ جلد کی گواہی دوسرے اعضاء سے زیادہ باعث تعجب،زیادہ وسیع عمومی ہوگی وہی جلد جو دوسر ے تمام اعضاء سے پہلے عذاب الہٰی کامزہ چکھے گی وہی دینے پر اتر آئے گی اور یقینا یہ بات حیران کن اور تعجب انگیز ہے۔
وہ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہیں گے : وہ خدا تووہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور تم سب کی باز گشت بھی اسی کی طرف ہے (وَ ہُوَ خَلَقَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَ إِلَیْہِ تُرْجَعُون)۔ 
اور پھر کہیں گے : اگرتم چھپ کر گناہ کرتے تھے تواس لیے نہیں کہ تمہیں اپنے کا نوں،آنکھوں اور جلد کی اپنے خلاف گواہی کاخطرہ تھا ، تمہیں تواس بات کابالکل خیال بھی نہیں تھا کہ یہ کسی دن بولنے پرآجائیں گے اور تمہارے خلاف گواہی دیں گے (وَ ما کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ اٴَنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَ لا اٴَبْصارُکُمْ وَ لا جُلُودُ)۔  
بلکہ تمہارے مخفی کام اس لیے تھے کہ تم گمان کرتھے کہ تمہارے بہت سے کاموں کوجو تم انجام دیتے ہو خدا نہیں جانتا(وَ لکِنْ ظَنَنْتُمْ اٴَنَّ اللَّہَ لا یَعْلَمُ کَثیراً مِمَّا تَعْمَلُونَ)۔ 
تم اس بات سے غافل تھے کہ خداہر جگہ پر تمہارے اعمال کاشاہد و ناظر ہے اور تمہارے اند رونی اور بیرونی رازوں کواچھی طرح جانتا ہے ساتھ ہی اس کے محکمہ نگرانی کے کار ندے بھی ہر جگہ تمہارے ساتھ ہیں،آیاتم سرے سے اپنی آنکھوں ، کانوں بلکہ جلد بدن کے بغیر کوئی کام انجام دے سکتے ہو ؟
جی ہاں ! تم اس قدر ا س کے قبضہ قدرت میں جکڑے ہوئے ہواوراس حد تک اس کے نگرانوں کی نگرانی میں ہوکہ تمہارے مخفی اور آشکار گناہوں کے آلات واور زارتک تمہارے مخالف گواہی ہوں گے۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول کے با ر ے میں لکھاہے کہ :
” کفار قریش اور بنی ثقیف کے تین آدمی جنکی کھوپڑیاں چھوٹی اور پیٹ بڑے تھے خانہ کعبہ کے پاس اکٹھے ہوئے اوران میں سے ایک نے کہا : کیاتم باور کرسکتے ہو کہ خدا ہماری باتوں کوسُن رہاہے ؟
دوسرے نے کہا : ذرا آہستہ ! کیونکہ آواز سے بولیں توسُن لیتاہے اور اگر آہستہ بولیں تو نہیں سنتا ۔
تیسرے نے کہا : میرے خیال میں اگر بلند آواز کوسُن سکتاہے تو آہستہ کوبھی یقینا سن لیتاہے “ ۔
اسی موقع پر مندرجہ بالاآیات نازل ہوئیں ( ۴)۔ 
بہر صورت بعد کی آیت میں فرما یاگیاہے :
تمہارا یہ غلط گمان تھاجوتم نے اپنے پروردگار کے بار ے میں کیاتھا اور یہی چیز تمہاری تباہی کاسبب بنی اورانجام کار تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگئے (وَ ذلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذی ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اٴَرْداکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخاسِرینَ ) (۵) (۶)۔ 
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آیااعضاء وجوارح کی یہ گفتگو خداکا کلام ہے یاانسانی بدن کی جلد کی گفتگو کاسلسلہ ہے ؟تو جواب میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ دوسرا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے اور آیت کے الفاظ بھی اسی معنی سے ہم آہنگ ہیں . ہرچند کہ اعضاء بدن بھی یہ گفتگو خدا وند عالم کے فرمان اوراس کی تعلیم کے تحت ہی کریں گے اور دونوں کانتیجہ تقریباً ایک ہی ہے۔
۱۔ ’ ’ یوزعون “ ” وزع “ ( بروزن ”وضع “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ” روکنا “ جب اس تعبیر کوفوجوں یادوسر ی صفوں کے لیے استعمال کیاجائے تواس کامفہوم یہ ہوگاکہ ان کے اگلے حصّے کوروک لیاجائے تاکہ آخری افراد بھی ان سے آملیں۔
۲۔ ” إِذا ما جاؤُہا“ کے جملے میں ” زائد ہ ہے اور تاکید کے لیے استعمال ہواہے۔
۳۔ یہ تفسیر اس صورت میں ہوگی جب ہم آیت کا یہ معنی کریں ” اٴَنْطَقَنَا اللَّہُ الَّذی اٴَنْطَقَ کُلَّ شَیْء ناطق“ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ” انطق کاشیء “ مطلق معنی میں جس خدا نے تمام موجودات کوبغیر کسی استثناء کے قوت گوہائی عطا فرمائی ہے اور وہ آج تمام راز فاش کررہی ہیں اس نے ہمیں بھی بولنے کی طاقت بخشی ہے . تم ہمارے بولنے پرتعجب نہ کرو بلکہ آج توموجودات عالم کی ہر چیزبول رہی ہے۔
۴۔ اس حدیث کوکچھ فرق کے ساتھ بہت سے مفسرین نے نقل کیاہے مثلاً تفسیر قرطبی ، تفسیر مجمع البیان تفسیر کبیر فخر رازی ، تفسیر روح البیان اور تفسیر مراغی کے مفسرین نے . اسی طرح صحیح بخاری ، مسلم اور تر مذ ی میں بھی یہ حدیث آئی ہے . ہم نے جوحدیث متن میں نقل کی ہے وہ تفسیر قرطبی کی عبارت کاترجمہ ہے ( دیکھئے تفسیر مذ کور جلد ۸ ، ص ۹۵ ۵۷ )۔
۵۔ ”ذالکم “ مبتداء ہے اور” وظنکم “ اس کی خبر ہے . بعض مفسرین کاخیال ہے کہ ” ظنکم “ ” بدل “ ہے اور” ذالکم “ کی خبر ہے۔
۶۔ ” اردٰی “ ” ردی “ (بروزن راٴ ی ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہلاکت اور تباہی ہے۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma