ملاقات کا دن

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 16- 17سوره مؤمن/ آیه 18- 20
یہ اور بعد میں آنے والی چند دوسری آیات ” یَوْمَ التَّلاق“ کی تشریح اور تفسیر میں ، جو قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے اورگزشتہ چند آیات میں اس کی طرف اشارہ ہوچکاہے ۔
ان دو آیات میں قیامت کی چند خصوصیات کو بیان کیاگیاہے جو ایک دوسرے سے بڑھ کردل دہلادینے والی ہیں ۔
سب سے پہلے فرمایا گیا ہے : ملاقات کادن ایسا دن ہے جس میں سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے (یَوْمَ ہُمْ بارِزُونَ )۔
ایسا دن ہے جس میں سب حجاب اور پردے ہٹ جائیں گے ۔
ایک توبہاڑوں جیسی مادی رکاوٹیں ہٹادی جائیں گی اور قرآن کے الفاظ میں زمین ” قاعاً صفصفاً ‘ ‘ ( کسی اونچ نیچ کے بغیر بالکل ہموار ) ہوجائے گی . ( طٰہٰ . ۱۰۶)
دوسرے تمام انسان قبروں سے نکالے جائیں گے ۔
تیسرے سب لوگوں کے باطنی اسرار ظاہرہوجائیں گے ” یَوْمَ تُبْلَی السَّرائِرُ “ ۔ ( طارق . ۹)
اور زمین اپنے تمام اندرونی دغینے باہر نکال دے گی ” وَ اٴَخْرَجَتِ الْاٴَرْضُ اٴَثْقالَہا“ ( زلزال .۲)
چوتھے تمام نامہٴ اعمال کھولے جائیں گے اوران کاسب کچھ آشکار ہوجائے گا ” وَ إِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ “ ۔ ( تکویر . ۱۰)
پانچویں جن اعمال کوانسان پہلے سے بھیج چکاہے وہ وہاں پرمجسم ہوکراس کے سامنے آجائیں گے ”یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْء ُ ما قَدَّمَتْ یَداہُ “ ( نباء . ۴۰)۔
چھٹے جن مسائل کاانسان چھپ کربا ر بار مرتکب ہوتا تھاوہ ظاہر ہوجائیں گے ”بَلْ بَدا لَہُمْ ما کانُوا یُخْفُونَ مِنْ قَبْل “ ( انعام . ۲۸)
ساتویں انسان کے اپنے اعضاء حتٰی کہ وہ زمین بھی جس پرو ہ گناہوں کاارتکاب کیا کرتاتھا اس کے خلاف گواہی دے گی اور حقائق بیان کرے گی ’ ’ و برز واللہ ِ جمیعاً“۔ ( زلزال . ۴ )
المختصر اس دن تمام انسان اپنے تمام وجود ، تمام ہستی اور کیفیت و حال کے ساتھ اس عظیم میدان میں آموجود ہوں گے اورکوئی بھی چیز چھپی نہیں رہ جائے گی ” وبرز واللہِ جمیعاً “ ( ابراہیم . ۲۱)
کیاہی عجیب اوروحشت ناک منظر ہوگا ؟
وہاں پرکیسا شور وغو غا اور چیخ وپکار بلند ہوگی ؟اس قدر کہناکافی ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے یہ فکر کرلیں کہ اس دنیا میںیہی منظر معرض وجود میںآجائے اور تمام انسانوں کے ظاہر و باطن اورخلوت ایک ہوکرمنصہ شہود پر آجائیں تولوگوں کی اس وقت کیاکیفیت ہوگی ؟ اورلوگوں کے باہمی تعلقات کیونکر منقطع ہوجائیں گے ؟
جی ہاں اس جہان کی کیفیت بھی یہی ہے اورانسان کواس دنیا میں اس طرح رہنا چاہیے کہ اگر اس کے باطن کے حالات ظاہر ہوجائیں تو ان سے خوف نہ کھائے . اس کے اعمال وکردار کوایسا ہوناچاہیئے کہ اگر آج بھی وہ منظر عام پرآجائیں تو اسے پریشان نہ ہونا پڑے ۔
اس دن کی دوسری صفت بیان کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : لوگوں کی کوئی چیز بھی خدا پر مخفی نہیں ہوگی ( لا یَخْفی عَلَی اللَّہِ مِنْہُمْ شَیْء ٌ)۔
اس دنیا میں بھی اور آج کوئی چیز اس قادر مطلق پرمخفی نہیں ہے اوراصولی طورپر جس کا وجودلامتناہی ہو اور کسی قسم کی محدودیت جس کی پاک ذات کے لیے نہ ہو اس کے نزدیک ظاہرو باطن اورغیب وشہود یکساں ہیں ۔
توپھر قرآن مندرجہ بالاجملے کو ” یوم ھم بارزون “ کی تشریح اور تفسیر کے طور پر کیوں بیان کررہاہے ؟
اس کی وجہ صاف ظاہر ہے . کیونکہ یہ بات اس دن تمام چیزیں کے مکمل طور پر اچھی طرح ظاہر ہونے پر دلالت کرتی ہے جس دن عام لوگوں سے کوئی چیز مخفی نہیںرہے گی خدا کے بار ے میں توا س کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔
اس دن کی تیسری خصوصیت ، پر وردگار عالم کی حاکمیت مطلقہ ہے ، جس طرح اسی آیت کے آخر میں فر مایاگیاہے : اس دن کہاجائے گا کہ اس دن کی حکومت او ر ملکیت کس کے پاس ہے ( لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ )۔
تواس کے جواب میں کہیں گے :صرف خداوند قہار کی ملکیت ہے (لِلَّہِ الْواحِدِ الْقَہَّارِ)۔
یہ سوال کون کرے گا اوراس کاجواب کون دے گا ؟ آیت نے اس کی وضاحت نہیں کی . البتہ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سوال خدا وند عالم کی طرف سے کیاجائے گااوراس کا جواب تمام مومنین اور کفار مل کردیں گے (۱)۔
لیکن بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ سوال اورجواب دونوں کی جانب سے ہوں گے (۲) جب کہ بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سوال خدا کا منادی زرو زور سے کرے گا اور خود ہی اس کاجواب د ے گا ۔
لیکن بظاہر یوں معلوم ہوتاہے کہ یہ سوال اورجواب کسی خاص فرد کی طرف سے نہیں ہوں گے . بلکہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بغیر کسی استثناء کے خالق ومخلوق ،فرشتہ وانان ، موٴمن وہ کافر ،وجود کے تمام ذرات اورکائنات کے در ودیوار کی طرف سے کیاجائے گ. اور ہرایک زبان ِ حال سے اس کاجواب د ے گا . یعنی جہاں جہاں دیکھو گے وہاں وہاں پر اس کی حاکمیت وحکومت کے آثار نمایاں اوراس کی قہار یت کی نشانیاں ظاہر ہوں گی . جس ذرہ کی آواز سنوگے وہی ” لمن الملک “ کہہ رہا ہوگا اوراس کا جواب بھی خود دے رہاہوگا ” للہ الواحد القہار “ ۔
اس کاایک نہایت چھوٹا سانمونہ ہم اسی دنیامیں دیکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم گھریا ایک شہر یاایک ملک میں داخل ہوتے وقت کسی ایک فردِ معین کی قدرت کی علامات کو ہرجگہ محسوس کرتے ہیں گویاہر ایک یہی ایک کہہ رہا ہوتاہے کہ اس جگہ کامالک اورحاکم فلاں آدمی ہے اوروہاں کے درو دیوار بھی پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہوتے ہیں ۔
البتہ آج بھی خداوندعالم کی مالکیت سراسر کائنات پرحکم فرماہے لیکن بروز قیامت نیاظہور اختیار کرے گی اس دن نہ تو ظالم اورجابرلوگوں کی حکومت کاکوئی پتہ ہوگا اور نہ ہی طاغو توں کے مسحور کن نعرے سنائی دیں گے . نہ اہر یمنی طاقتوں کاکوئی نام ونشان ہوگا اور نہ ہی شیطان اوراس کے لشکر یوں کاکوئی اتہ پتہ ہوگا ۔
اس دن کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سزااورجزاکادن ہوگ. جیساکہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوتاہے ” آج کے دن ہرشخص اپنے کئے کی سزا یا جزاپائے گا “ (الْیَوْمَ تُجْزی کُلُّ نَفْسٍ بِما کَسَبَتْ )۔
جی ہاں ! خداوندعالم کاعلمی احاطہ ، حاکمیت ،مالکیت اوقہاریت اس عظیم اورخوف و رجاء پر مبنی حقیقت پرواضح دلیل ہیں ۔
پانچویں خصوصیت وہی ہے جو بعد کے جملے میں ذکر کی گئی ہے :آ ج کے دن کسی پربھی ذرہ برابر ظلم نہیں کیاجائے گا (لا ظُلْمَ الْیَوْمَ )۔
ظلم کیونکر ممکن ہو جب کہ ظلم یاتوجہالت کی وجہ سے سرزد ہوتاہے اورخدا وندعالم کاعلم ہر چیزپرمحیط ہے یاپھر عاجزی کی بناء پر ہوتاہے اورخداوندعالم ہرچیز پرقاہر ، حاکم اورمالک ہے توپھر خداکی بار گاہ میںاس دن ظلم کیونکر ممکن ہے ؟ بالخصوص وہ دن خدا کے فیصلے کادن ہوگا نہ کہ لوگوں کی آز مائش کے لیے آزادی کادن ۔
چھٹی اورآخری خصوصیت بندوں کے اعمال کاجلد محاسبہ ہے . جیسا کہ آیت کے اختتام پر فرمایاگیا ہے : خدا وند سریع الحساب ہے (إِنَّ اللَّہَ سَریعُ الْحِساب)۔
وہاں پرحساب و کتاب رفتار اس حد تک تیز ہوگی جیسا کہ ایک حدیث میں آیاہے :
ان اللہ تعالیٰ یحاسب الخلائق کلھم فی مقدار لمح البصر
خداوندعالم اپنی تمام مخلوقات کاحساب ایک پلک جھپکنے کی دیر میں کرلے گا ( ۳)۔
اصولی طورپر ” اعمال کے مجسم ہوجانے “ اور” خیروشر کے آثار باقی رہ جانے “ کے نظر یہ کوقبول کرلینے کے بعد قیامت کے دن حساب وکتاب کامسئلہ توحل شدہی ہے . آیا جو مشینیں اس دنیامیں کام کے ساتھ نمبر بتاتی جاتی ہیں انہیں حساب کرنے کے لیے کسی زمانے کی ضرورت ہوتی ہے ؟
” سریع الحساب “ کالفظ قرآن مجید کی مختلف آیات میںبار بار ملتاہے اس کامقصد شاید یہ ہے کہ شیطان صفت لوگ سادہ لوح افراد کے دلوں میںیہ وسوسے نہ ڈال دیں کہ ہزاروں سالوں کے دوران میں بجالائے ہوئے اعمال کاحساب وکتاب ا س قدر جلد آسانی کے ساتھ کیونکر ممکن ہے ؟
ان تمام باتوں سے ہٹ کر یہ تعبیرتمام انسانوں کے لیے تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس دن مجر مین کوکوئی بھی مہلت نہیں دی جائے گی ، جس طرح کہ اس دنیا میں کسی مجر م یاقاتل پرمقدمہ چلانے اورکیس پرغور کرنے کے لیے کئی سالوں یاکم از کم کئی مہینوں کی مدّت در کار ہوتی ہے ۔
۱۔ تفسیر مجمع البیان ، انہی آیا ت کے ذیل میں ۔
۲۔ تفسیر ” میزان “ انہی آیات کے ذیل میں ۔
۳۔ تفسیرمجمع البیان سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۲۰۲ کے ذیل ہیں ۔
سوره مؤمن/ آیه 16- 17سوره مؤمن/ آیه 18- 20
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma