اندھے اور آنکھوں والے برابر نہیں ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 56- 59سوره مؤمن/ آیه 60- 63

گزشتہ آیات میں خد ا وند عالم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومخالفین کی ناہنجارباتوں اوران کے ناپاک منصوبوں کے مقابلے میں صبر و شکیبائی کی دعوت دے رہاتھا . زیر نظر آیات میں کفار و مشرکین کے حق کے مقابلے میںجھگڑے کے اسباب پر روشنی ڈال رہاہے ۔
سب سے پہلے آیت میں کہتاہے : جولوگ خداکی آیات کے بار ے میں ایسی دلیل ومنطق کے بغیر جھگڑا کرتے ہیں جوان کے پاس خداکی طرف سے آئی ہو ، ان کے سینوں میں تکبر کے سوا کچھ نہیں ہے (إِنَّ الَّذینَ یُجادِلُونَ فی آیاتِ اللَّہِ بِغَیْرِ سُلْطانٍ اٴَتاہُمْ إِنْ فی صُدُورِہِمْ إِلاَّ کِبْر)۔
” مجادلہ “ جیساکہ ہم پہلے بھی بتاچکے ہیں ... کامعنی گفتگو اور بات چیت میں لڑائی جھگڑا اور بغیر دلیل ومنطق کے بحث و مباحثہ ہے ، ہرچند یہ کبھی وسیع معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے اورحق اور باطل دونوں قسم کی گفتگو پر اس کااطلاق ہوتاہے اور ” بِغَیْرِ سُلْطانٍ اٴَتاہُمْ “ کی تعبیر مجادلہ کے اس معنی کی تاکید ہے جو عموماً استعمال ہوتاہے . کیونکہ ” سلطان “ ایسی دلیل اور برہان کوکہتے ہیں جو کسی کے فریق مخالف پرتسلط حاصل کرنے کاسبب بنتی ہے ۔
اور ” اتاھم “ کی تعبیران دلائل کی طرف اشارہ ہے جوخدا وندعالم کی طرف سے وحی کے ذریعے نازل ہوتی ہیں اور چونکہ حقائق ثابت کرنے کے لیے وحی ہی سب سے زیادہ قابل اطمینان ذریعہ ہوتی ہے اسی لیے اس کاذکر کیاگیاہے ۔
جن ” اٰیات اللہ “ کے بار ے میں وہ مجادلہ کرتے ہیں ان سے مراد قرآن مجید کی آیات اورمعجزے نیز مبداٴ ومعاد سے متعلق گفتگو ہے جسے کبھی تووہ سحر کہتے تھے اور کبھی جنون اور دیوانگی سے تعبیر کیاکرتے تھے اور کبھی ” اساطیر الاوّلین “ یاقصّہ پار ینہ کا نام دیاکرتے تھے ۔
اس طرح سے یہ آیت اس حقیقت پرزندہ گواہ ہے کہ مجادلہ کااصل منبع اور مرکز تکبر ، غر ور اور خود پسند ی ہے . کیونکہ متکبر اورخود پسند لوگ اپنے آپ ہی کوسب کچھ سمجھتے ہیں اور دوسروں کولائق اعتناء نہیں سمجھتے لہٰذا اپنے افکار کوخواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں حق اور دوسروں کے نظر یات کو خواہ وہ برحق ہی کیوں نہ ہوں باطل سمجھتے ہیں لہذا اپنے باطل نظر یات پرڈٹے رہتے ہیں ۔
” اِن “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مواقع پر اس انحصار کااصل سبب وہی تکبر ، تغوّق اورخود پسند ی ہے ، وگر نہ کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر اپنی غلط باتوں پراس قدراڑا رہے ۔
”صدور “ سے اس مقام پر دلوں کی طرف اشارہ ہے اور دل سے مراد روح ، جان اور عقل وفکر ہے جس کاذکر کئی بات قرآنی آیات میں آیاہے ۔
بعض مفسرین نے مندرجہ بالاآیت میں مذکور ” کبر“ کا معنی ” حسد “ کیاہے اور وہ جناب پیغمبرصلی اللہ علیہ ولہ وسلم کے ساتھ ان کے مجادلے کااصل سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری اور روحانی مدارج و کمال اور مقام و مرتبہ سے حسد کوسمجھتے ہیں . جبکہ ” کبر “ کالغوی معنی ” حسد “ نہیں ہے البتہ ممکن ہے اس کالازمی حصّہ ہ کیونکہ اوعر مغرور لوگ عموماً حاسد بھی ہوتے ہیں اور دنیابھر کی نعمتیں صرف اپنی ذات کے لیے چاہتے ہیں اور دوسروں کے پاس ہر گز گوارہ نہیں کرتے ۔
پھر فرمایاگیاہے : وہ کبھی اپنے مقصود کونہیں پاسکیں گے ( ماھم ببالغیہ )۔
ان کامقصد یہ ہوتاہے کہ وہ خود کو ہی سب کچھ سمجھ ، دوسروں پر بڑائی جتائیں اورشیخی بگھاریں اورلوگوں پرحکومت کریں لیکن ذلت ورسوائی اورمحکم ہونے کے علاوہ انہیں اورکچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا . نہ تووہ تکبر اورغرور کے مقصد کوپہنچ پائیں گے اور نہ ہی ان کے باطل اور بے بنیاد مجادلہ لے کا مقصد پورا ہوسکے گا کہ حق کو مٹا کر باطل کو اس کے جاگز یں کرلیں ( ۱)۔

آیت کے آخرمیں خدااپنے رسول صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کوحکم دے رہاہے مغرور ، خود خواہ اور بے منطق لوگوں کے شرسے خدا کی پناہ طلب کریں .فرمایاگیاہے :اب جبکہ صور ت حال یہ ہے توخدا کی پناء مانگ کیونکہ وہ سننے اور دیکھنے والاہے (فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمیعُ الْبَصیرُ)۔
وہ ان کی بے بنیاد باتوں کو بھی سنتا ہے اوران کی سازشوں ، چالوں اور برے اعمال کوبھی دیکھتاہے ۔
نہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ راہ حق کے تمام راہی افراد کولڑاکااور جھگڑالوگوں کے کھڑے کئے ہوئے طوفان حوادث میں خدا کی پناہ مانگنا چاہیئے اورخود کوا س کے سپرد کردینا چاہیئے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب خدا کے باعظمت نبی جناب یوسف علیہ السلام کے کھڑے کئے ہوئے طوفان مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو کہتے ہیں :
معاذاللہ انہ ربی احسن مثوای
” میں خداکی پناء مانگتا ہوں . عزیز مصر نے نعمتیں دی ہیں اور میرامرتبہ بلندکیاہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس سے خیانت کروں “ ۔ ( یوسف . ۲۳)
اس سورت کی گز شتہ آیات میں جناب موسٰی علیہ السلام کی زبانی پڑھ چکے ہیں:
انی عذت بربی وربکم من کل متکبر لایئو من بیومالحساب
” میں اپنے پروردگار اور تمہارے پر ور دگار کی پناہ چاہتاہوں ہراس متکبر سے جوروز حساب پر ایمان نہیں لاتا “ ( مومن . ۲۷)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کفار کامجادلہ معاد اور انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو نے کے بار ے میں بھی تھا لہذا بعد کی آیت میں نہایت ہی واضح طور پر معاد کے اس مسئلے کوبیان کیاجارہاہے کہ ” آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانون کی خلقت سے زیادہ اہم اور بالاتر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے “ (لَخَلْقُ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ اٴَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یَعْلَمُونَ)۔
جوذات ان عظیم کروں اور سیع کہکشانوں کو اس عظمت کے ساتھ پیداکرنے اورپھر انہیں صحیح نظام کے تحت چلانے کی قدرت رکھتی ہے وہ مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے سے کیونکر عاجز اور ناتواں ہوسکتی ہے ؟ یہ تو ان لوگوں کی جہالت کی باتیں ہیں جنہیں ان حقائق کے ادراک کی توفیق ہی حاصل نہیں ہوتی ۔
اکثر مفسرین نے تو اس آیت کومعاد کے بار ے میں کفار کے مجادلہ کاجواب سمجھا ہے ( ۲) لیکن بعض مفسرین کاخیال ہے کہ یہ ان مغرور متکبر ین کے تکبر کاجواب ہے جو خود کو اور اپنے ناقص افکار کوبڑا سمجھتے تھے حالانکہ کائنات کی عظمت کے مقابلے میں وہ ایک ناچیز اور بے مقدار ذرے سے زیادہ کچھ نہیںتھے . آیات کے مفہوم کوپیشِ نظررکھتے ہوئے یہ معنی بھی چند اں بعید نہیں ہے . لیکن بعد کی آیات کو پیشِ نظررکھتے ہوئے پہلامعنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
بہرحال اس آیت میں ” باطل مجادلہ “ کاایک اور عامل پیش کیاگیا ہے . جو ” جہالت “ ہے جبکہ اس سے پہلی آیات میں تکبر کی بات ہو رہی تھی ، چونکہ ان دونوں کاآپس میں قریبی رابط ہے لہذا انہیں یکے بعددیگر ے بیان کیاگیاہے کیونکہ کبرو غرور کاسرچشمہ جہالت اورخود سے اوراپنی علم سے عدم آگاہی ہے ۔
بعد کی آیت میں ایک واضح تقابل کے ذریعے ان جاہل متکبر ین کی کیفیت اورصاحبان علم مومنین کی کیفیت کوجدا کرکے بیان کیاگیاہے .فرمایا گیاہے : اندھااورآنکھوں والاہر گز برابر نہیں ہوتے ( وَ ما یَسْتَوِی الْاٴَعْمی وَ الْبَصیرُ )۔
” اسی طرح جولوگ ایمان لے آئے اورانہوں نے عمل صالح انجام دیئے وہ بد کار وں کے برابر نہیں ہیں (وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ لاَ الْمُسیء ُ) (۳)۔
لیکن تم اپنی خود خواہی ، تکبر اورجہالت کی بناء پر بہت کم توجہ کرتے ہو ( قَلیلاً ما تَتَذَکَّرُون) (۴)۔
اندھوں سے مراد وہ بے خبر اور ناآگاہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں پر کبرو غرور کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور وہ انہیں فہم حقائق کی اجازت نہیں دیتے اور آنکھ والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جونور علم اور منطقی استد لال کے پرتوہیں ، حق کامشاہدہ کرتے ہیں . تو کیایہ دونوں فریق آپس میں برابر ہیں ؟
یہ تھا ایمان اورعقیدے کے لحاظ سے ، رہا عمل کی روسے ، توصلح العمل مومن افراد ، بد کار مجرم اور گناہ سے آلودہ لوگوں کے کس طرح برابر ہوسکتے ہیں ؟در حقیقت پہلا تقابل علم و آگا ہی کے لحاظ سے ہے اور دوسرااعمال کی روسے ۔
جی ہاں ! ” آنکھوں والے “ ایک تو اپنے چھوٹے ہونے کو دیکھتے ہیں اورادھر دوسری طرف اپنے اطراف میں موجود عظیم کا ئنات کو، اسی لیے وہ اپنی حیثیت اور قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں . لیکن ” اندھے “ نہ تو زمان و مکان میں اپنی حیثیت اور قدر وقیمت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اطراف کی عظیم کائنات کودیکھتے ہیں . اسی لی ہمیشہ اپنی ذات کی قیمت لگانے میں غلطی کاارتکاب کرتے ہیں اور کبرو غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورکبر و غرور انہیں برائیوں پرآمادہ کرتاہے ۔
مندرجہ بالاآیت کے دو جملوں کوآپس میں ملا کریہ نکتہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے کہ ایمان اور عمل صالح چشم دل کو بینائی عطا کرتے ہیں جبکہ کفر او ر بد عملی انسان کے دل کواندھا کرکے حق اور باطل کی پہچان کی قوت اس سے سلب کرلیتے ہیں ۔
اسی سلسلے کی آخری آیت میں دوٹوک انداز میںبڑی صراحت اوروضاحت کے ساتھ قیام قیامت کی خبردیتے ہوئے فرمایاگیا ہے : ساعت
( قیامت ) یقینا آکررہے گی اس میں توشک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں ، لیکن اکثرلوگ ایمان نہیں لاتے (إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ لا رَیْبَ فیہا وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یُؤْمِنُون)۔
” لاتیة “ میں ’ ’ ان “ او ر ” لام “ نیز ” لا ریب فیھا “ سب تاکیدی معنی کے تکرار پردلالت کررہے ہیں اور یقین کے ساتھ باور کر وار ہے ہیں کہ قیامت ضرور بر پاہو گی . قرآنی آیات میں اس کے بہت سے دلائل بیان کئے گئے ہیں اوربعض مقامات پربغیر کسی قسم کی دلیل ذکر کئے ایک قطعی اوریقینی امر کے طور پر اس کاتذکرہ ہے لہذا یہ بھی انہی مقامات میں سے ایک ہے ۔
” راغب “ اپنی کتاب ” مفردات “ میں کہتے ہیں کہ ” ساعة “ کااصل معنی ” زمانے کے اجزاء میں سے ایک جزء “ ہے اور چونکہ قیامت کاجلد و قوع اوراس دن بنی آدم کے اعمال کا حساب وکتاب جلد نمٹا دیاجائے گا لہذا اسے ” ساعة “ کانام دیا گیا ہے ۔
یہی تعبیر قرآن مجید میں بیسیوں مرتبہ ذکرہوئی ہے البتہ کہیں پر توخود قیامت کے بار ے میں ہے اور کہیں پر اس دنیا کے اختیار اور قیام کے مقد مات کے بار ے میں ، تو چونکہ دونوں کاایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کارابط ہے اور دونوں ہی ناگہانی طور پر وقوع پذ یرہوں گے لہذا دونوں کو ” ساعة “ کہاگیا ہے ( ۵)۔
اور یہ جوفر مایاگیاہے کہ ” اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “ اس وجہ سے نہیں کہ قیامت کامسئلہ کوئی مخفی اور مبہم چیز ہے بلکہ انکار قیامت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں ما درپدر آزادی کے ساتھ غیر مشروط طور پر ہرقسم کی ہو اوہو س اورخواہشات نفسانی کے مزے لوٹے اسی لیے بھی اوراس وجہ سے بھی کہ لمی چوڑی آر زو ئیں اس بات سے مانع ہو جاتی ہیں کہ انسان قیامت کے بار ے میں کچھ سوچ سکے اوراس پر ایمان لے آئے ۔
مغرور یہودی
بعض مفسرین نے مندرجہ بالاآیات میں سے پہلی آیت کی شان نزول یہ بتائی ہے کہ
” یہود ی لوگ کہاکرتے تھے کہ عنقریب ” مسیح وجال “ ظہور کرے گا اورہم اس کی امداد کریں گے تاکہ وہ محمد اوراس کے ساتھیوں کی سر کوبی کرے اورہمیں ان کے ہاتھوں سے نجات مل جائے گی اور ہم چین کی زندگی بسر کریں گے ( ۶)۔
اس عبار ت کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اس طرح سے حضرت ” عیسٰی علیہ السلام “ کے ظہور اوران کے ” دجال “ پرغالب آجانے کو بیان کرنا چاہتے تھے کہ جس کا انہیں انتظار تھا اوروہ مسیح علیہ السلام کو اپنے سے جتا ناچاہتے تھے اور د جال کاا نطباق نعوذ باللہ وہ پیامبراسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کرنا چاہتے تھے ۔
دوسرا معنی یہ کہ وہ صحیح معنوں میں ” وجال “ کے انتظار میں تھے اوراسے اپنے میں سے سمجھتے تھے ۔
کیونکہ جیساکہ راغب نے ” مفردات “ میں اورابن منظور نے ” لسان العرب “ میں ” مسیح “ کے کلمہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ یہ کلمہ حضرت ” عیسٰی “ علیہ السلام پر بھی بولاجاتاہے ار ” دجال “ پر بھی جناب عیسٰی علیہ السلام پر یاتو اس لیے کیونکہ وہ زمین میں سیر و سیاحت کیاکرتے تھے ، یاپھر اس لیے کیونکہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیر کرانہیں خدا شفا عطا فرما یاکرتے تھے اور ” دجال “ پر اس لیے کہ اس کی صرف ایک آنکھ ہے اور دوسری آنکھ کی جگہ ” ممسوح “ یعنی ”صاف “ ہے ۔
احتمال یہی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بعد یہود یوں کوجوپے درپے شکستیں ہوئیں وہ اس سخت پریشان تھے اور جھلا گئے تھے لہذا وہ جھوٹے اور فریبی شخص یعنی ” کاانتظار کرنے لگے تاکہ وہ آئے اور لوگ اس کے ہمنواہو کرپیغمبر اوران کے ساتھیوں سے اپنی جان چھڑائیں اور سکھ کاسانس لیں ۔
یاپھر وہ حضرت عیسٰی مسیح علیہ السلام کاانتظار کرنے لگے . جیسا کہ ” قاموس مقدس “ سے پتہ چلتاہے کہ صرف عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے انتظار میں نہیں ہیں یہودی بھی ان کاانتظار کررہے ہیں . ان کانظر یہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ،دجال کے ساتھ جنگ کریں گے اور اسے مار مار کر فناکردیں گے اور وہ اپنا یہ عقیدہ ظہور اسلام پر منطبق کرنا چاہتے تھے ۔
بہرحال بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیات کی اس شان ِ نزول کو اس امر پر دلیل سمجھا ہے کہ یہ آیت اوراس کے بعد کی آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہیں . برخلاف سور ت کی دوسری آیات کے جو سب کی سب مکی ہیں ۔
لیکن چونکہ اصل شان ِ نزول ثابت نہیں نیز اس کامفہوم بھی کچھ مبہم سا ہے لہذا یہ نتیجہ نکالنا قابل قبول نہیں ہے ۔
۱۔ ” بالغیہ “ میں ضمیر کامرجع کیاچیز ہے ؟ مفسرین نے اس بار ے میں دواحتمال ذکر کئے ہیں پہلاذکر کئے ہیں پہلا یہ کہ شایدیہ ضمیر ” کبر “ کی طرف لوٹ رہی ہوکیونکہ ” ماھم ببا لغیہ “ کاجملہ ” کبر “ کی صفت ہے . اور پور ے جملے یوں ہوگا ” ماھم ببا لغی مقتضی کبرھم “ دوسراحتما ل یہ ہے کہ یہ ضمیر شاید” جدال “ کی طرف لوٹ رہی ہے جو ” یجادلون “ کے جملہ میں موجود ہے . یعنی وہ اپنے جدال کے مقصد کو نہیں پاسکیں گے کہ جوحق کامٹانا ہے لیکن اس صورت میں یہ جملہ ” کبر “ کی صفت نہیں ہوسکتا . لہذا حرف عطف کوحذف کرکے اسے پہلے جملوں پر عطف کرنا چاہیئے ۔
۲۔ ملاحظہ ہوں تفسیر مجمع البیان ،تفسیر کبیر فخررازی ، تفسیر کشاف زمخشری ،تفسیر روح المعانی ، تفسیر صافی اور روح البیان ۔
۳۔ آیات کی جملہ بندی کے لحاظ سے بادی النظر میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ” ولا المسی ء “ میں ” لا “ کاذکر نہیں ہوناچاہیئے تھا . لیکن ایک طرف سے نفی کی تاکید اور دوسری طرف سے اس جملے کامقصود اصلی ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ حر ف کو مکر ر لایاجائے . خاص کرجب کوئی جملہ طولانی ہو جائے اوراس کی ابتدا میں نفی آئی ہو تو بعد میں بھی نفی لائی جاتی ہے تاکہ پہلی نفی نظر انداز نہ ہو جائے ۔
۴۔ ” قلیلاً “ ” ماتتذ کرون “ کے جملہ میں ” ما“ زائدہ ہے اور تاکید کے لیے ہے ۔
۵۔ قیامت کو ” ساعة “ سے موسوم کرنے کے بار ے میں ہم مفصل بحث تفسیر نمونہ کی جلد ۱۶ (سورہ ٴ روم کی آیت ۱۲ کی تفسیر ) میں کرچکے ہیں )۔
۶۔ تفسیر مجمع البیان جلد۸ ،ص ۵۲۸ انہی آیات کے ذیل میں ۔
سوره مؤمن/ آیه 56- 59سوره مؤمن/ آیه 60- 63
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma