دوزخ میں ضعفاء اور مستکبرین کاباہمی احتجاج

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 47- 50سوره مؤمن/ آیه 51- 55
چونکہ مومن آل فرعون نے ، فرعون والوں کی توجہ قیامت اور دوزخ کے عذاب کی طرف مبذول کروائی تھی لہذا زیر نظر آیات اس سلسلے میں رشتہ سخن کوآگے بڑھاتی ہیں اور دوزخ کی آگ کے درمیان میں جہنمیوں کی غصّے بھری باتوں کاذکر کرتی ہیں ۔
سب سے پہلے فرمایاگیا ہے : اس وقت کاسوچیں جب لوگ آتش جہنم میں ایک دوسرے کے خلاف احتجاج اور گفتگو کریں گے ، ضعفاء مستکبرین سے کہیں گے ہم تمہارے پیرو کارتھے تو کیا(آج ) تم ہماری آگ کا کچھ حصّہ اپنے لیے قبول کرو گے (وَ إِذْ یَتَحاجُّونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضُّعَفاء ُ لِلَّذینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعاً فَہَلْ اٴَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصیباً مِنَ النَّارِ) (۱) ۔
’ ’ ضعفاء “ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی کافی حد تک علم تھا اور نہ وہ حریت فکر کے مالک تھے بلکہ اندھاد ھند کفر کے سرغنوں کی پیروی کیاکرتے تھے جنہیںقرآن نے مستکبرین “ کے عنوان سے یاد کیاہے ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پیروی کرنے والے یہ لوگ وہاں پرجانتے ہوں گے کہ یہ رہبر توخود ہی عذاب میں گرفتار ہیں اوران کاذرہ بھر بھی دفاع نہیں کرسکتے توپھروہ ان کی پناہ کیوں طلب کریں گے اوران سے عذاب کاحصّہ بٹانے کی کیوں درخواست کریں گے ؟
بعض مفسرین نے کہا ہے یہ اس لیے ہے کہ اِس جہان میں ان کی عادت ہوچکی تھی کہ جب بھی کسی سخت مصیبت میں پھنس جاتے تھے تو ان کے دامن میں پناہ لاکرتے تھے تو اس جہان میں بھی لاشعور ی طور پر یہی کام کریں گے ۔
لیکن بہتریہ ہے کہ یہ جواب دیاجائے کہ یہ بات ان کے لیے ایک طرح کامذاق ، لعنت و ملامت اور سر زنش کی حیثیت رکھتی ہے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان کے تمام دعوے کھو کھلے اورحقیقت سے بہت دور تھے ( ۲)۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے بار ے میں بیان کیاگیا ہے آپ علیہ السلام نے ” غدیر “ کے ایام میں سے ایک دن خطبہ ارشا د فر مایااور خطبہ میں لوگوں کوتوحید الہٰی کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اطاعت کی طرف بھی متوجہ کیاجن کی اطاعت کااللہ نے حکم دیاہے . آپ علیہ السلام نے مندرجہ الاآیت تلاوت فرمانے کے بعدکہا :
افتد رون الا ستکبار ماھو ؟ھو ترک الطّاعة لمن امرو ا بطا عتہ ،والتر فع علی من ندبو الیٰ متابعتہ ، والقراٰن ینطق من ھٰذاکثیراً ، ان تد برہ متدبر زجرہ ،ووعظہ
” تم جانتے ہو کہ استکبار کیاہے ؟ ان لوگوں کی اطاعت کو ترک کردینا جن کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے .اور خود کوان سے بالاتر سمجھنا ، اس قسم کا کلام قرآن مجید میں اکثر مقام پر ملتا ہے . اس طرح کہ اگر انسان اس کے بار ے میں غور و فکر سے کام لے تو اسے نصیحت دیتا اورخلاف ورزی سے روکتاہے ‘ ‘۔
امام علیہ السلام ان زندہ اورواضح تعبیرات سے ان لوگوں کوخبردار کرناچاہتے تھے جنہوں نے غدیر کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیتوں کوپس پشت ڈال کردوسرے لوگوں کی پیروی کرلی تھی ( ۳)۔
بہرحال اس سوال کے جواب میں مستکبرین چپ نہیں سادہ لیں گے مگر مد لل جواب بھی نہیں دیں گے بلکہ ایساجواب دیں گے جوان کوعاجزی اور زبوں حالی کا آ یئنہ دار ہوگا . جیسا کہ بعد کی آیت میں قرآن مجیدا س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتا ہے : مستکبرین کہیں گے ہم اور تم غرض سب اسی آگ میں (جل رہے ہیں اورایک جیسے نتائج بھگت رہے ) ہیں .خدانے اپنے بندوں کے درمیان ( عدل وانصاف کے ساتھ ) فیصلہ کیاہے (قالَ الَّذینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُلٌّ فیہا إِنَّ اللَّہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِباد)۔
اگر ہم تمہاری کسی مشکل کوحل کرسکتے تو سب سے پہلے اپنی مشکل کوحل کرتے . یہاں پر تو ہم سے کچھ نہیں بن پڑتا . نہ تم سے عذاب ہٹاسکتے ہیں نہ خودسے حتٰی کہ تمہارے عذاب کاکچھ حصہ بھی اپنے ذمہ لینے سے قاصر ہیں ۔
یہ با ت بھی قابل توجہ ہے کہ سورہ ابراہیم کی آیت ۲۱ میں یہی چیز ہے کہ مستکبر ین ان ضعفاء کے جواب میں کہیں گے :
لَوْ ہَدانَا اللَّہُ لَہَدَیْناکُمْ سَواء ٌ عَلَیْنا اٴَ جَزِعْنا اٴَمْ صَبَرْنا ما لَنا مِنْ مَحیص
” اگر خدانے ہمیں (عذاب سے نجات کے راستے کی ) ہدایت کی ہوئی توہم بھی تمہیں اس کی ہدایت کرتے . ( لیکن یہ بات نہیں ہے ) چاہے بیتا بی کااظہار کریں چاہے صبر اختیار کریں برابر ہے “۔
ظاہر ہے کہ ان دونوں جوابو ں کاآپس میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں ۔
جب ان کی تمام امیدیں ہرجگہ سے منقطع ہوجائیں گی تووہ خاز نین جہنم کی طرف اپنا دامن پھیلائیں گے اور قرآن کے الفاظ میںوہ خازنین جہنم سے کہیں گے کہ تم اپنے خدا سے دعا کرو کہ ایک دن کے لیے ہم سے عذاب اٹھالے (وَ قالَ الَّذینَ فِی النَّارِ لِخَزَنَةِ جَہَنَّمَ ادْعُوا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْماً مِنَ الْعَذابِ) (۴)۔
وہ جانتے ہوں گے کہ عذاب الہٰی برطرف ہونے والی چیز نہیں ان کی یہی درخواست ہوگی کہ صرف ایک دن کے لیے ان سے عذاب اٹھا لیاجائے . ان کے لیے ایک ہی دن کی رعایت ہوجائے تو کافی ہے کہ اس دن اطمینان کاسانس لے لیں اور تھوڑی دیر کے لیے تازہ دم ہوجائیں ۔
لیکن جہنم کے دارو غے ” کہیں گے آیا تمہارے پیغمبر تمہارے پاس روشن دلیل لے کر نہیں آئے تھے “ آیاتمہارے لیے کافی اتمام حجت نہیں ہوا (قالُوا اٴَ وَ لَمْ تَکُ تَاٴْتیکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنات)۔
تو وہ جواب میں ” کہیں گے : جی ہاں آئے تھے “ ( قالُوا بَلی )۔
توپھر جہنم کے داروغے کہیں گے : ” اب جو چوہودعامانگتے رہولیکن لیکن یاد رکھو کہ کافرعوں کی دعاکسی مقصد تک نہیں پہنچ پائے گی بلکہ رستے میں ضائع اور نابود ہوجائے گی “ (قالُوا فَادْعُوا وَ ما دُعاء ُ الْکافِرینَ إِلاَّ فی ضَلال)۔
تم خود اس بات کااعتراض کررہے ہوکہ اللہ کے رسول تمہارے پاس روشن دلائل لے کر آئے تھے لیکن تم نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی کی اور کافر ہوگئے لہذااب جوبھی دعا کرو گے بے سود ہوگی ، اور کیونکہ خدا کافروں کی دعا قبول نہیں فرماتا ۔
بعض مفسرین نے ا س آخری جملے کی تفسیر کے بار ے میں کہاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم خود دعا کر و کیونکہ ہم خدا کی اجازت کے بغیر کوئی دعانہیں کرسکتے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ہمیں اس قسم کی اجازت نہیں ہے تو تمہیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ نجات کے دروازے تم پر بند ہوچکے ہیں . ٹھیک ہے کہ قیامت میں کافر ، مومن بن جائیں گے لیکن یہ ایمان ان کے آثار کفرمیں کسی قسم کی کمی نہیں کرے گا . لہذا حسب سابق کافر کے کافر ہی رہیں گے ۔
۱۔ بعض لوگ یہ تصّور کرتے ہیں ” یتحا جّون “ میں ضمیر کامرجع ” آل فرعون “ ہے لیکن ّآیات میں موجود قرائن بتاتے ہیں کہ آیت کا مفہوم وسیع ہے جس میں سب کفار شامل ہیں ۔
۲۔ ” تبعا“ تابع کی جمع ہے اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ مصدر ہو اور مصدر کا اطلاق ایسے افراد پر جوکسی صفت سے متصف ہوں ایک معمولی ہے یعنی دراصل وہ جہنمی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم تمہارے تابع ہی نہیں تھے بلکہ عین تبعیت تھے ۔
۳۔ ” مصبحا شیخ “ ( منقول از تفسیر نورالثقلین جلد ۴ ،ص ۵۲۶)۔
۴۔ ” خز نہ “ خازن کی جمع ہے جس کامعنی محافظ اور نگہبان ہے
سوره مؤمن/ آیه 47- 50سوره مؤمن/ آیه 51- 55
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma