دنیا اور آخرت کی کھیتی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں خداوند عالم کے سخت عذا ب کی بات ہو رہی تھی اورساتھ ہی منکر ین قیامت کا یہ تقاضابھی زیربحث آیاتھا کہ قیامت جلدی کیوں نہیں آتی ؟اب زیر نظر آیات میں سے سب سے پہلی آیت میں اس کے ” قہر “ کاتذ کرہ اس کے ”لطف “ کے ساتھ ساتھ کیاگیاہے اورمنکرین معاد کے قیامت کے بار ے میں بے معنی جلد بازی پرمبنی سوال کاجواب دیتے ہوئے فر مایا گیا ہے : خدا اپنے بندوں کے بار ے میں لطیف ہے اورصاحب لطف وکرم ہے ( اللَّہُ لَطیفٌ بِعِبادِہِ).
اگروہ کہیں پر عذاب شدید کی دھمکی دیتاہے تو دوسری طرف اپنے لطف وکرم کاوعدہ بھی کرتاہے اورلطف بھی ایسا جو غیر محدو د اورنہایت وسیع ہوتاہے . چنانچہ اگر مغر ورجاہلوں کوعذاب دینے میں جلدی نہیں کرتاتویہ بھی اس کا لطف وکرم ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے لطف عمیم کے ظاہر میں سے ایک کو بیان فرماتااور وہ ہے اس کی طرف سے عطا ہونے والارزق . ارشاد ہوتا ہے : وہ جسے چاہے رزق عطافرماتاہے ( یرزق من یشاء ).
اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ اس کی روزی سے محروم ہیں بلکہ اس سے مراد زق کی وسعت ہے کہ جسے چاہے وسیع روزی عطافر مادیتاہے . جیساکہ سور ہٴ رعد کی ۲۶ ویں آیت میں فرمایا گیا ہے :
اللہ یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر
خداجسے چاہے وسیع روزی دے دیتاہے اور جس پرچاہے روزی تنگ کردیتاہے۔
ہرچند کہ اسی سورت کی بعد والی آیت ہے :
و لوبسط اللہ الرزق لعبادة لبغوافیالارض
اگر خدا سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردے تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگیں۔( شوریٰ ) ۔
ظاہر ہے کہ یہاں پر ” روزی “ کے مفہوم میں معنوی اورمادی دونوں طرح کی روزی شامل ہے اور جسمانی اور روحانی روزی بھی زمرے می آتی ہے.جب لطف وکرم مبداٴ اور روزی رسان وہی ذات ہے توپھر تم بتوں کے پیچھے کیوں جاتے ہو جونہ تو راز ق ہیں اور نہ لطیف،نہ تو کسی کونقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ نفع ۔
آیت کے آخر میں فر مایا گیاہے:وہ طا قتور اور ناقابل تسخیر ہے (و ھو القوی العزیز ).
اگروہ اپنے بندوں کے ساتھ روزی اورلطف کاوعدہ کرتاہے تو اس کا نجام دہی پرقادر بھی ہے . اسی لیے اس کے وعدہ کے بار ے میں خلاف ورزی کاتصّور بھی نہیں کیاجاسکتا۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ”لطیف “ کے دومعنی ہیں ایک تووہی جوسطو ر بالا میں ذکر ہوچکاہے یعنی صاحب لطف و کرم اور دوسرا معنی ہے باریک ترین اور مخفی ترین امور سے آگاہی رکھنے والا اور چونکہ بندوں کے بار ے میں اس کی رز اقیت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام بندوں کی ضر وریات سے اچھی طرح آگاہ ہوچاہے وہ زمین میں ہیں یا آسمان میں.لہٰذا آیت کے آغاز میں اپنے لطیف ہونے کی طرف اشارہ کرتاہے پھر اپنی رزا قیت کے مقام کوبیان فر ماتاہے . یہی وجہ ہے کہ سور ہٴ ہود کی چھٹی آیت میں فرماتاہے:” روئے زمین پر تمام چلنے والوں کی روزی خداکے ذمہ ہے اس کے بعد پھر فر ماتاہے:
و یعلم مستقر ھا و مستودعھا
وہ ان کے ٹھکانوں اور آمد ورفت کے مقا مات کو بھی جانتاہے۔
البتہ ان دونوں معانی میں نہ صرف تناقض نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی تکمیل بھی کرتے ہیں . لطیف وہ ہوتاہے جوعلم اورآگاہی کے لحاظ سے بھی کامل ہواور بندوں کے حق میں لطف وکرم کی روسے بھی مکمل ہو . چونکہ خدا وندعالم اپنے بندوں کی ضر وریات سے بخوبی آگاہ بھی ہے اور بہترین طریقے سے ان کی ضر وریا ت کو پورا بھی فرماتاہے لہٰذا سب سے بڑھ کریہ نام اسی کے شایان شان ہے۔
بہرحال مندرجہ بالاآیت میں خدا کے اوصاف میں سے چار کی طرف اشارہ ہواہے ، لطف ، رازقیت ، قوت اورعزت اور یہی چیزاس کی ” ربوبیت “ کی بہترین دلیل ہے کیونکہ ” رب “ (مالک ومدبر) کوان صفات کاحامل ہوناچاہیے ۔
بعد کی آیت میں ایک لطیف تشبیہ کے ذریعے دنیا والوں کوخدا کی روزی سے استفادہ کرنے کے لحا ظ سے ایسے کسانوں سے تشبیہ دی گئی ہے جن میں سے کچھ تو آخرت کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کچھ دنیا کے لیے اور پھر ان ددونوں ز راعتوں کانتیجہ واضح طو ر پر بیان فر مایاگیاہے : جوشخص آخرت کی زراعت کاطلب گار ہے ہم اسے برکت دیں گے اوراس کے محصو لات میں اضافہ کریں گے ( مَنْ کانَ یُریدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَہُ فی حَرْثِہِ ).
اور جولوگ صرف دنیا کے لیے کاشت کرتے ہیں اوران کے پیش نظر بھی صرف یہی فانی دنیا اوراس کامال ومتاع ہے توا س میں سے کچھ حصہ ہم انہیں دیں گے لیکن آخرت میں انہیں کچھ بھی نصیب نہیں ہوگا (وَ مَنْ کانَ یُریدُ حَرْثَ الدُّنْیا نُؤْتِہِ مِنْہا وَ ما لَہُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصیب) (۱) ۔
یہ ایک عمدہ تشبیہ اورخوبصورت کنایہ ہے.تمام انسان کسان ہیں اور یہ دنیا ایک کھیتی ہے .ہمارے اعمال اس کا بیج ہیں. خدائی ذرائع بارش کے مانند ہے جو اس پربرستی ہے . لیکن یہ بیج توایسے ہوتے ہیں جن کا محصول غیر محدود اورجا ودانی ہوتاہے اس کے پودے ہمیشہ سر سبز وشاداب اور ثمر ات سے معمور ہوتے ہیں . جب کہ کچھ بیج ایسے ہوتے ہیں جن کامحصول بہت کم،زندگی مختصر اورپیدا ور کڑ وی اورناخشگوار ہوتی ہے۔
” یرید “ ( چاہتا ہے،ارادہ کرتاہے ) کی تعبیردرحقیقت لوگوں کی نیتوں کی مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہ آیت گزشتہ آیت میں مجموعی طور پر پر وردگار عالم کی عطا کردہ روزی اور نعمتوں کے بار ے میں اس کی شرح ہے کہ کچھ لوگ تو ان نعمتوں سے بیج کی صورت میں آخرت کے لیے استفادہ کریں گے اور کچھ لوگ صرف دنیا وی فائدہ اٹھائیں گے ۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ آخرت کے زراعت کاروں کے لیے ہے ” نزدلہ فی حرثہ “ (ہم اس کی زراعت میں اضافہ کردیں گے ) لیکن یہ نہیں کہا کہ وہ دنیا وی متاع سے محروم جا ئیں گے .لیکن دنیاوی کسانوں کے بار ے میں ہے :” جووہ چاہیں گے اس میں سے کچھ انہیں دیں گے “ پھر فرمایاگیا ہے :آخرت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہوگا ۔
اس طرح سے نہ تو دنیا پرست اپنی آ رزو کو پہنچ پائیں گے اور نہ ہی آخرت کے طلب گا ردنیا سے محروم رہ جائیں گے لیکن فرق یہ ہوگا کہ دنیا کے طلب گار خالی ہاتھ آخرت کوسدھاریں گے اور آخرت کے خواہاں بھرے دامن کے ساتھ وہاں پہنچیں گے ۔
اسی سے ملتی جلتی سورہ ٴ بنی اسرائیل ک ی۱۸ ویں اور ۱۹ ویں آیت دوسری صورت میں بیان ہوئی ہیں : ارشاد ہوتاہے :
مَنْ کانَ یُریدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَہُ فیہا ما نَشاء ُ لِمَنْ نُریدُ ثُمَّ جَعَلْنا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاہا مَذْمُوماً مَدْحُوراً ، وَ مَنْ اٴَرادَ الْآخِرَةَ وَ سَعی لَہا سَعْیَہا وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُولئِکَ کانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُوراً
یعنی جوشخص اس جلد گزرجانے والی زندگی کو پسند کرتاہے ہم جتنی مقدار جس شخص کے لیے چاہیں اسے دے دیتے ہیں .پھراس کے لیے جہنم قرار دیتے ہیں . وہ اس میں ایسی صورت میں داخل ہوگا جب کہ قابل مذمت اور ر اندہ درگاہ ہوگا اور جوشخص سرائے آخرت کاطبلگار ہے اور اپنی کوشش بھی اسی کے لیے صرف کرتاہے اورایما ن بھی رکھتا ہے، اس کی کوششوں کوسرا ہاجائے گااوراسے بدلہ دیاجائے گا ۔
” نزدلہ فی حرثہ “ کی تعبیر قرآن مجید کی دیگر آیات سے ہم آہنگ ہے جواس بار ے میں بیان ہوئی ہیں۔
ان میں سے سورہ ٴ انعام کی آیت ۱۶۰ میں ہے :
مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ اٴَمْثالِہا
جو نیک کام انجام دے اس کادس گناثواب ہے۔
سور ہ فاطر کی آیت ۳۰ میں ہے :
لِیُوَفِّیَہُمْ اٴُجُورَہُمْ وَ یَزیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہ
خداانہیں مکمل جزادے گا اور اپنے فضل و کرم کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ کردے گا ۔
بہرحال زیربحث آیت دنیاوی زندگی کے بار ے میں اسلامی نکتہ نظر کی جیتی جاگتی تصو یر ہے جو دنیا مطلوب بالذات ہے وہ ناپسند یدہ ہے اور جو دنیا دوسرے جہان کے لیے مقدمہ اورمطلوب بالغیر ہے ، اسلام اس دنیا کو ایک ایسی کھیتی کی حیثیت سے دیکھتاہے جس کاثمر قیامت میں ملے گا ۔
روایات اور قرآن مجید کی بعض دیگر آیات میں جوتعبیرات بیان ہوئی ہیں وہ اسی معنی کی تائید اورتاکید کرتی ہیں. مثلاًسور ہٴ بقرہ کی ۲۶۱ ویں آیت میں راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کے خرچ ک اس بیچ سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اورہر بالی میں سوسودانے ہوں اوراس سے بھی بیشتر ،اور یہ آخرت میں اجرِ جزیل کی علامت ہے۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ایک حدیث میں ہے :
وھل تکب الناس علی مناخرھم فی النار الاحصا ئد السنتھم
آ یالوگوں کوجہنم میںمنہ کے بل ڈالنے والی چیزیں سوائے زبان کے بوئے کاکاٹنے کے کچھ اور ہوسکتا ہے ؟( ۲).
امیرالمو منین علی علیہ السلام سے منقول ہے :
ان المال والبنین حرث الدنیا ،والعمل الصالح حرث الاٰ خرة وقد یجمعھما اللہ لاقوام
مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہیں اور عمل صالح آخرت کی اور کبھی بعض قوموں کے لیے اللہ ان دونوں کو جمع کردیتاہے ( ۳).
آیت مذکورہ بالاسے یہ نکتہ بی سمجھ میں آتاہے کہ دنیا اورآخرت دونوں کے لیے سعی اورکوشش کی ضرورت ہے . اور کوئی بھی مشقت اور تکلیف اٹھائے بغیر حاصل نہیں ہوتی . جس طرح کوئی بیج تکلیف اٹھائے بغیر محصول نہیں دیتا .لہٰذا کیاہی بہتر ہے کہ انسان رنج ومشقت کے ذر یعہ ایسے درخت کوپر وان چڑ ھائے جس کاثمر میٹھا،مستقل ،دائم اور بر قرار ہو نہ کہ ایسادرخت جوخزاں میں خشک ہو کر تباء ہوجائے۔
ہماس گفتگو کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اس فرمان کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں :
من کانت نیتہ الدنیا فرق اللہ علیہ امرہ،و جعل الفقر بین عینیہ،ولم یاٴ یہ من الدنیا الاّ ماکتب لہ،ومن کانت نیتہ الاٰ خرة جمع اللہ شملہ،و جعل غناہ فی قلبہ،واتتہ الدنیا وھی راغمة
جس شخص کی نیت دنیا ہو خداس کے امور کود گرگون کر دیتاہے ،فقرو تنگدستی کو اس کی آنکھوں کے سامنے مجسم کردیتاہے اوراس کے پاس،دنیاوی حصے میں سے وہی کچھ آکررہتاہے جو اس کے لیے مقرر کیاگیاہے اورجس کی نیت آخر ت کاجہان ہو خدا کے منتشر امو ر کوبھی یکجا کردیتاہے . اس کے دل کوتونگر ی اور بے نیازی سے معمور کردیتاہے اور دنیا سرجھکائے اس کے پاس آجاتی ہے ( ۴).
یہ جو علما ء کے درمیان مشہور ہے کہ ” الدنیا مزر عة الا خرة “ ( دنیا آخرت کی کھیتی ہے ) درحقیقت مندرجہ بالا فرمان ہی سے حاصل شدہ ہے۔
1 ۔ راغب نے مفردات میں لفظ ” حرث “ کے بار ے میں لکھا ہے کہ ” حرث “ دراصل زمین میں بیچ ڈالنے اور زمین کوکھیتی باڑی کے لئے تیار کرنے کے معنی میں آتاہے .اورقرآن مجید میں بھی کئی مرتبہ یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے . لیکن معلوم نہیں کہ بعض مفسرین نے اس سے ” عمل اور کام “ کیونکر مراد لیا ہے۔
۲۔ محجتہ البیضا ء جلد ۵ ،ص ۱۹۳ ( کتاب آفات اللسان ).
۳۔ کافی (نو رالثقلین جلد ۴ ،ص ۵۶۹ کے مطابق ).
۴۔ تفسیرمجمع البیان انہی آیات کے ذیل میں۔ 
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma