سرکش ثر و تمند

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
ان آیات کاگزشتہ آیات سے تعلق شاید اس وجہ سے ہوسکتاہے کہ گزشتہ آ یات میں سے آخری آیت میں تھا کہ خدا موٴ منین کی دعا قبول فر ماتاہے ، جس سے یہ سوال پیداہوتاہے کہ اگریہی صورت حال ہے تو پھر ان موٴ منین میں لوگ غریب کیوں ہیں اور وہ ، جودعاکرتے ہیں قبول کیوں نہیں ہوتی ؟
اس قسم کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے خداوند عالم فرماتاہے : اگرخدا نے بندوں کی روزی وسیع کردے تو وہ زمین میں طغیان ،سرکشی اورظلم کرنے لگتے ہیں (وَ لَوْ بَسَطَ اللَّہُ الرِّزْقَ لِعِبادِہِ لَبَغَوْا فِی الْاٴَرْضِ).
لہذا جتنی مقدار میں وہ چاہتاہے اورمصلحت سمجھتاہے ، روزی نازل کر تاہے ( وَ لکِنْ یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ ما یَشاء ُ ).
گو یااس طرح سے روزی کی تقسیم کامسئلہ باقاعدہ حساب وکتاب کے تحت ہے ، جوخدا نے اپنے بندوں کے بار ے میں مقرر کردیا ہوا ہے ” کیونکہ وہ اپنے بندوں کواچھی طرح جانتاہے اوران سے خوب واقف ہے “ (إِنَّہُ بِعِبادِہِ خَبیرٌ بَصیرٌ ).
وہ ہر شخص کے ظرف کواچھی طرح جانتاہے اوراسی کی مصلحت کے پیش نظر اسے روزی عطاکرتاہے ، نہ اس قدر زیادہ دیتاہے کہ سرکش ہوجائے اور نہ اس قدر کم دیتاہے کہ فقر و فاقہ سے داد و فر یاد کرنے لگے ۔
اسی طرح کی دو اور آیتیں سور ہ ٴ علق میں بھی آ ئی ہیں :
إِنَّ الْإِنْسانَ لَیَطْغی اٴَنْ رَآہُ اسْتَغْنی
انسان اس وقت سرکشی کرتاہے جب وہ خود کوبے نیاز اورغنی سمجھنے لگتاہے۔
حقیقت بھی یہی ہے اورانسان کے بارے میں مطالعہ بھی اس حقیقت کاسچا گواہ ہے کہ جب دنیا کسی کی طرف رُخ کرتی ہے،وہ خوشحال ہوجاتاہے اورحالات اُس کی مرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خدا کا بندہ نہیں رہتا ، بہت جلد خدا سے دور ہوجاتاہے،دریائے شہوات میں غرق ہوجاتاہے اور ایسی ایسی حرکتوں کاارتکاب کرتاہے جن کے ذ کر سے شرم آتی ہے اورہر ظلم وفساد رواسمجھنے لگتا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس نے کہا ہے : ” بغی “ سے مراد یہاں پر ظلم وستم اور سرکشی نہیں بلکہ اس سے مراد طلب ہے یعنی اگر خدا اپنے بندوں کو وسیع روزی بھی دے دے پھر بھی وہ اس پرقانع نہیں ہو تے بلکہ اور مانگتے ہیں اورکبھی سیرہونے میں نہیں آتے ۔
لیکن پہلی تفسیر جسے بہت سے مفسرین نے انتخاب کیاہے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید کی کئی آیات میں ” یبغون فی الارض “ کامفہوم زمین میں فساد اورظلم لیاگیا ہے ، جیسے سور ہٴ یونس ، آیت ۲۳میں ہے :-
فَلَمَّا اٴَنْجاہُمْ إِذا ہُمْ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ
نیز سورہ ٴ شور ٰی کی ۴۲ ویں آیت میں ہے :
إِنَّمَا السَّبیلُ عَلَی الَّذینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ
یہ ٹھیک ہے کہ ” بغی “ بمعنی ” طلب “ بھی آیا ہے لیکن جب اس کا اطلاق ” فی الارض “ کے ساتھ ہو تو زمین میں فساد اورظلم کے معنی میں ہوتاہے۔
دوسوال :یہاں پر دوسوال پیدا ہوتے ہیں :
پہلا سوال : اگر روزی کی تقسیم کا مسئلہ ایساہی ہے تو پھرہم کچھ لوگوں کودیکھتے ہیں کہ ان کے پاس بے انتہا دولت ہوتی ہے اور وہ طغیان اور فساد برپا کرکے دنیا کوتباہ کررہے ہیں اور خدا انہیں کچھ نہیں کہتا اور یہی حالت طاقتور استعماری حکومتوں کی ہے . آخر ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے اس نکتے کی طرف توجہ ضر وری ہے کہ کبھی رزق فر اوانی امتحان اور آز مائش کاذر یعہ بھی ہوتی ہے کیونکہ اس دنیامیں ہرشخص کا امتحان ہوتاہے اور امتحا ن کبھی دولت اور ثروت کے ذریعے بھی عمل میں آتاہے۔
نیز کبھی اس لیے کہ دولت حاصل کرکے انسان خود بھی اور دوسر ے لوگ بھی یہ جان لیں کہ دولت مندی خوش قسمتی کاموجب نہیں ہواکرتی اوراس طرح سے ہوسکتاہے کہ انسان اپنے خالق کی طرف متوجہ ہوجائے . اس وقت جوصورت حال ہے وہ یہ کہ ہم بہت سے ایسے معاشر وں کو دیکھ رہے ہیں جوہر طرح کی نعمت،ثروت اورخوشحالی کی زندگی میںغرق ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ مختلف مصائب اور مشکلات سے بھی دوچار ہیں،بے چینی ،قتل و غارت،انتہا ئی اخلاقی بے راہر وی ، اضطراب اور دوسر ی کئی مادی اور روحانی پریشانیوں نے انہیں گھیر رکھاہے۔
علاوہ ازیں کبھی بے اندازہ مال ودولت خدا کاایک طرح کاعذاب بھی ہوتاہے جس میں خدا وند عالم بعض لوگوں کو مبتلا کردیتاہے . دور سے تو ایسے لوگوں کی زندگی بڑی بھلی اور دل فریب ہوتی ہے لیکن اگرانہیں نزدیک سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے آپ ہی سے بیزار ہوتے ہیں.اس بار ے میں کئی بادشاہوں کے قصے کہانیاں ہیںجنہیں بیان کرنے سے بات لمبی ہو جائے گی ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آیااس بات سے یہ معلوم نہیں ہوتاکہ جب انسان محروم ،غریب اور فقیر ہی ہے توپھر اسے وسعت رزق کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے کی کوئی ضر ورت نہیں،کیونکہ ہوسکتاہے کہ خدا کی مصلحت بھی اس کی غربت اورافلاس ہی میں ہو ۔
اس سوال کاجواب حاصل کرنے کے لیے بھی اس نکتے کی جانب تو جہ کرنی چاہیے کہ بعض اوقات رزق کی تنگی انسان کی اپنی عغلت،سستی اورکاہلی کی وجہ سے ہوتی ہے،اس قسم کی محرومی اور رزق کی کمی خدا کے حتمی منشاء کے مطابق نہیں ہوتی . بلکہ انسان کے اپنے اعمال ہی کانتیجہ ہوتی ہے جسے وہ دیکھ ہاہو تاہے اوراسلام نے سعی و کوشش کے اصولوں کے پیش نظرجو قرآن کی متعدد آیات، سنت رسو ل (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) اورسیرِ ت آئمہ ھدٰی علیہم الصلوٰة والسلام میں بیان ہوئے ہیں سب لوگوں کو تلاش اور جد و جہد کی دعوت دی ہے۔
لیکن جب انسان بے حد جد و جہدا ورسعی و کوشش میں بھی ناکام ہو جاتاہے اوراس پر رزق ک سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں توپھر اسے سمجھ لیناچاہیئے کہ اس امر میں ضرور کوئی مصلحت ہے . لہٰذا اسے کسی قسم کی بے چینی کااظہار نہیں کر نا چاہیئے اورمایوس ہو کرکفر کے کلمے اپنی زبان پرجار ی نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنی کوشش کوجاری رکھتے ہوء رضائے الہٰی پر راضی رہناچاہیئے ۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ” عبادہ “ ( اس کے بندے ) کی تعبیر ،رزق کی فراوانی کی صورت میں ان کے طغیان اور سرکشی کے منافی نہیں ہے . کیونکہ اس قسم کی تعبیرہر قسم کے نیک ، بد اور متوسط قسم کے لیے استعمال ہوتی ہے . جیسے قرآن میں ہے :
قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ اٴَسْرَفُوا عَلی اٴَنْفُسِہِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ
کہہ دے اے میرے وہ بندوں کہ جنہوں نے اپنے بار ے میں اسراف کیاہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ( زمر . ۵۳) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ خدا تعالیٰ روزی کوحساب کے ساتھ نازل کرتاہے تاکہ اس کے بندے سرکشی نہ کریں لیکن ایسابھی نہیں ہے کہ انہیں محروم کردے او ر روزی ان سے بالکل روک دے . لہٰذا بعد کی آیت میں فر مایاگیاہے :
اوروہ تووہ ہے جو مفید بارش ، لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد نازل کرتاہے اوراپنی رحمت کادامن پھیلا دیتاہے (وَ ہُوَ الَّذی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ ما قَنَطُوا وَ یَنْشُرُ رَحْمَتَہُ ).
ایسا ہونا بھی چاہیئے ” کیونکہ وہ ایک ولی و سر پرست اور تعریف کے لائق ہے (وَ ہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمید).
یہ آیت باوجود یکہ پر وردگارعالم کی نعمتوں اورمہر بانیوں کو بیان کررہی ہے لیکن تو حید کی نشانیوں کو بھی ظاہر کررہی ہے ، کیونکہ باران کانزول ایک دقیق اورمنظم نظام کے تحت عمل میں آتاہے.سورج سمندروں پرضیا پاشی کرتاہے ، پانی کے لطیف ذرات کو نمکیات سے جداکرتاہے اورانہیں بادلوں کے ٹکڑوں کی صورت میں آسمان کی طرف بھیجتاہے ، جب فضا کا سر دبالا ئی حصّہ انہیں آپس میں جوڑ کر ملادیتاہے توپھر ہوا ئیں انہیں اپنے دوش پر سوار کر لیتی ہیں اور تشنہ اورخشک زمینوں کی فضا میں پہنچاتی ہیں جہاں پر وہ ہوا کے مخصوص دباؤ اور ٹھنڈ ک کی وجہ سے بارش کے چھوٹے چھوٹے قطروں میں تبدیل ہو کرآہستہ آہستہ زمین پر اترنے لگتے ہیں اورنقصان پہنچائے بغیر زمین کے اندر جذب ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم اس نظام کابغور مطالعہ کریں تو اس میں ہمیں خدا کے علم وقدرت کی نشانیاں واضح طور پر نظر آئیں گی . وہ ایسا ولی اورحمید ہے جواپنے بندوں کی ضرور یات کو پورا کرتاہے اورانہیں اپنی رحمت میں شامل کردیتاہے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ” غیث “ کامعنٰی” مفید بارش “ ہے ... جیسا کہ بہت سے مفسرین اوربعض اہل لغت نے اس کی وضاحت کی ہے ... اور”مطر“ ہرمفید اورغیر مفید بارش کو کہاجاتا ہے۔
اسی لیے اس کے فو راً بعد ” و ینشررحمتہ “ ( اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے ) کاجملہ آیاہے۔
کس قدر زیبا اورجامع تعبیر ہے ؟ مردہ زمینوں کوزندہ کرنے میں ، نباتا ت کے اگانے میں،فضا کودھونے اورصاف کرنے میں انسانوں اور دوسرے زندہ موجودات کے لیے پینے کاپانی مہیا کرنے میں غرض تمام صورتوں میں اپنی رحمت کو پھیلاتاہے اور اسے ہر چیز تک پہنچاتاہے۔
اگر کوئی شخص اس قرآنی جملے کاصحیح معنوں میں مفہوم سمجھنا چاہتاہے تواسے چاہیئے کہ بارش ہوجانے کے بعد جب مطلع صاف ہوجاتاہے پہاڑ جنگل یابیابان کی سیر کرے اورخدا کی رحمت کے نظار ے کر ے کہ کیونکہ اس کی رحمت لطافت ،زیبائی اورطراوت کی صورت میں کر شمہ سازی کی ہے ؟
” غیث“ کے لفظ سے یہ معنی شایدا س لیے مراد لیاگیا ہے کیونکہ وہ ”غوث“ بمعنی فریا درسی ، کے ساتھ مشترک ہے ، اسی لیے بعض مفسرین نے مندرجہ بالا تعبیر کوہرقسم کی نو مید یو ں کے بعد خدا کی فر یا درسی اوراس کا دامن رحمت پھیلنے کی طرف اشارہ سمجھاہے ( 1) ۔
اور اسی مناسبت سے ایک بار پھر بعد کی آیت میں خدا وند عالم کے علم وقدرت کی اہم ترین نشانیو ں میں سے ایک نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمان اور زمین کی تخلیق اوران کے اندر چلنے والی مخلوق بھی کہ جسے اس نے پھیلایا ہے (وَ مِنْ آیاتِہِ خَلْقُ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ وَ ما بَثَّ فیہِما مِنْ دابَّةٍ ).
یہ سب آسمان اس قدر عظمت کے ساتھ،اس قدر نظام ہائے شمسی اور کہکشانوں کے ساتھ ، کروڑوں عظیم اور روشن ستاروں کے ساتھ اورایسے نظام کے ساتھ کہ جس کے مطا لعے سے انسان ورطہٴحیرت میں پڑ جاتاہے اور زمین اپنے مختلف حیا تیاتی منابع کے ساتھ،رنگ رنگ اورمختلف النوع نبا تا ت کے ساتھ،پھولوں اورپھلوں کے ساتھ ، مختلف نعمتوں اور برکتوں کے ساتھ اورمختلف زیبا ئیوں کے ساتھ سب کے سب خدائے واحد کی آیات اور نشا نیاں ہیں۔
یہ تو تھا ایک طرف،ادھر دوسر طرف زمین اور آسمان میں چلنے والی مخلوق،مختلف قسم کے پرندے ، لاکھوں قسم کے حشرات اورکیڑ ے مکوڑ ے،وحشی اورپا لتو جانو روں کی مختلف قسمیں رینگنے اور کاٹنے والے جانور ، چھوٹی سے چھوٹی،خو بصورت اوراسی طرح بڑ ی سے بڑی اورغول پیکر مچھلیاں اورپانی میں رہنے والی دوسر ی مخلوق اور پھر مذکورہ مخلوقات کے ڈھانچے اور طر ز تخلیق محیر العقول او ر حیرتنا ک ہے اوران سب سے زیادہ اہم اوراصل چیززندگی کی حقیقت اور اس پرحکم فر ما یا وہ اسراراور رموز میں ہیں کہ لاکھوں سائنس دان ہزار ہاسال کی تحقیق اورریسر چ کے بعدبھی اس کی گہرائیوںتک نہیں پہنچ سکے،یہ سب کچھ خدا کی نشانیاں ہیں۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ” دابة“ کے لفظ کااطلاق اس زندہ چیز پر بھی ہوتاہے جوخود بین کے علاوہ دکھائی نہیں دیتی اوراس کی حرکت انہتائی ظریف اورمخفی ہوتی ہے اوران غول پیکر حیوانات پر بھی ہوتاہے جن کی لمبائی بیسیو ں میٹر اور وزن بیسیوں ٹن ہوتاہے . ہرایک چیزکسی نہ کسی صورت میں تسبیح حق بیان کرتی ہے اوراس کی ثنا خوانی میں مصروف ہے اورزبان حال کے ساتھ اس کے بے پایاں علم کی عظمت اورقدرت بیان کررہی ہے۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایاگیاہے : اور وہ ان کو جب چاہے ، جمع کرنے پرقادر ہے (وَ ہُوَ عَلی جَمْعِہِمْ إِذا یَشاء ُ قَدیرٌ) (2) ۔
اس آیت میں تمام چلنے والی چیزوں کوجمع کرنے سے کیا مراد ہے ؟ بہت سے مفسرین نے انہیں بروز قیامت حساب کتاب او ر اعمال کی جزا کے لیے جمع ہونے کے معنی میں لیاہے اورجن میں قیامت کو” یوم الجمع “ کے نام سے یا د کیاگیاہے ، انہیں اس معنی پر شاہد کی صورت میں لایا جاسکتاہے . ( جیسے اسی سور ہ ٴ شو رٰی کی ساتویں اور سور ہٴ تغابن کی نویں آ یت ہے ) ۔
لیکن اس صورت میں یہ سوال اورپیش آتاہے کہ آیاقیامت میں تمام چلنے والی چیز یں محشور ہوں گی حتٰی کہ غیرانسانی مخلوق بھی ؟بلکہ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ” دابّہ “( چلنے والی چیز ) کااطلاق ہی عام طور پر غیرانسانی مخلوق پرہوتاہے . تو ایسی صورت میں یہ مشکل پیش آجاتی ہے کہ چلنے والی غیر مخلوق کا حشر و نشر اورحساب وکتاب کیساجب کہ نہ ان کاعقل وشعور ہے اورنہ ہی ان کے ذمہ کسی فرض کی ادائیگی ہے ؟
ہم اس سوال کاجواب سورہٴ انعام کی ۸ ۳ ویں آیت کی تفسیر میں دے چکے ہیں آیت یوں ہے :
وَ ما مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَ لا طائِرٍ یَطیرُ بِجَناحَیْہِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثالُکُمْ ما فَرَّطْنا فِی الْکِتابِ مِنْ شَیْء ٍ ثُمَّ إِلی رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ
ہم بتاچکے ہیں کہ بہت سے حیوانات کی زندگی کانظام جاذب نظر اورمحیرالعقول ہے اور کیامانع ہے کہ یہ اعمال ان کے ا ندر موجود عقل وشعور کی کسی قسم کوبیان کررہے ہوں ؟یہ کیا ضر وری ہے کہ ہم ان سب اعمال کوجبلت کے زیراثر قرار دیں توایسی صورت میں ان کے لیے ایک طرح کے حشر ونشر اورحساب و کتاب کاتصوّر کیاجاسکتاہے۔ ( اس موضوع کی مزید تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ کی جلد پنجم میں سور ہ ٴ انعام کی ۳۸ ویں آیت کی تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں ).
زیرتفسیر آیت میں یہ امکان بھی ہے کہ یہاں پر”جمع “ کالفظ ” بث “ کانقطہ مقابل ہو . یعنی ”بث“ کالفظ تمام زندہ اور چلنے والی مخلوق کی پیدا ئش اور توسیع کی طرف اشارہ ہو.پھرفرمایاگیا ہے کہ جب بھی خدا چاہے گا انہیں ” جمع“ کرکے نیست و نابود کردے گا۔
جیساکہ تاریخی طورپر اب تک روئے زمین پر کئی قسم کی چلنے پھرنے والی چیزیں عجیب طرقے پر بڑھیں اور سار ی زمین میں پھیل گئیں اوراس کے کچھ عرصے بعد جمع اورمنقرضر ہوگئیں . ان کی افزائش اور وسعت بھی خدا کے ہاتھ میں ہے اوران کاجمع کرنا اور خاتمہ کرنابھی اسی کے ہاتھ میں ہے . یہ آیت درحقیقت ان آیات کے مشابہ ہے جن میں کہاگیا ہے کہ زندگی دینے والا بھی خدا ہے اور مارنے والا بھی وہی ہے۔
ایسی صورت میں اس آیت میں جانور وں کے لیے حساب و کتاب اورسزا اورجز ا کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ۔
ستاروں میں مخلوق رہتی ہے
اس آیت سے جو قابلِ غور نکتہ پیدا ہوتاہے وہ یہ ہے کہ یہ آ یت اس ابات پر دلا لت کررہی ہے کہ آسمانوں میں بھی کئی قسم کی زندہ مخلوق رہتی ہے . اگرچہ اس بار ے میں سائنس دانوں نے کو ئی قطعی اورحتمی فیصلہ نہیں کیابلکہ وہ صرف اسی حد تک و بے لفظو ں میں کہتے ہیں کہ:آسمانی ستا روں میں قوی انداز ے کے مطابق بہت سے ستارے ایسے ہیں جن میں زندہ مخلوق رہتی ہے . لیکن ” و ما بث فیھمامن دآ بة “ ( کو کہ آسمانوں اور زمین میں چلنے والی مخلوق پھیلادی ہے ) کاجملہ واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ آسمانی وسعتوں میں بھی چلنے والی مخلوق کی فر اوانی ہے۔
بعض مفسرین نے جو یہ احتمال ذکر کیاہے کہ ” فیھما “ صرف کرّ ہٴزمین ہی میں منحصر ہے ،بہت بعید معلوم ہو تاہے، کیونکہ ضمیر تثنیہ کی ہے اور زمین وآسمان دونوں کی طرف لوٹ رہی ہے اسی طرح ” دابّة “ کے لفظ کافرشتوں پر اطلاق بہت بعید معلوم ہوتاہے.کیونکہ اس لفظ کا اطلاق عام طورپر چلنے پھر نے والی مادی مخلوق پرہوتاہے اورقرآن مجید کی کئی اور آیات سے بھی یہی معنی معلوم ہوتا ہے۔
حضر ت امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے منقول ہے :
ھٰذ ا لنجوم التی فی السمآ ء مد ائن مثل المدائن التی فی الارض مربو طة کل مد ینة الی عمود من نور
( ہرستارے جو آسمان میں ہیں ان میں بھی زمین کے شہروں کے مانند شہر ہیں ہر شہر دو وسرے شہر سے ( ہر ستارہ دوسر ے ستارے سے ) نور کے ستون کے ذر یعے ملا ہوا ہے ( 3)

اس بار ے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ( مزید تفصیلات کے لیے کتاب ” الھیئة والاسلام “ کا مطالعہ فرمائیں )
گزشتہ آ یات میں رحمت خدا کی بات ہو رہی تھی اوراس سے فطر ی طورپر سوال پیدا ہوتاہے کہ جن مصائب میں ہم گھر ے ہوئے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں ؟
تو بعد کی آیت اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے : جومصائب اور نا خوشگوار واقعات تمہیں پیش آتے ہیںوہ ا ن اعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں جن کو تم نے خود انجام دیاہے (وَ ما اٴَصابَکُمْ مِنْ مُصیبَةٍ فَبِما کَسَبَتْ اٴَیْدیکُمْ ).
نیز یہ بات بھی یاد رکھو کہ یہ تمہار ے غلط اعمال کی مکمل سزا نہیں ہے کیونکہ ” وہ تمہارے بہت سے کاموں کابخش دیتا ہے “ (وَ یَعْفُوا عَنْ کَثیر ).

مصائب کیوں نازل ہوتے ہیں ؟

۱۔ یہ آیت واضح طور پر بتارہی ہے کہ جومصائب انسان پر نازل ہوتے ہیں وہ خدا وند عالم کی ایک قسم کی سزا ہے جو انسان کو خبر دار کرنے کے لیے ہوتی ہے ( مگر بعض استثنائی مقامات ہیں کہ کہ جن کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا ) اس طرح درد ناک حوادث اور زندگی کی مشکلات کاایک فلسفہ توواضح ہوجاتاہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امیر الموٴ منین علی علیہ السلام پیغمبر اسلا م( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے روایت کرتے ہیں :
خیر اٰ یة فی کتاب اللہ ھذ ہ الاٰ یة ! یاعلی ! مامن خدش عود ، و لانکبة قد م الا بذ نب ، وما عفی اللہ عنہ فی الدنیا فھو اکرم من ان یعودفیہ و ما عاقب علیہ فی الدنیا فھوا عدل من ان یثنی علی عبدہ
یہ آیت ( وَ ما اٴَصابَکُمْ مِنْ مُصیبَةٍ فَبِما کَسَبَتْ اٴَیْدیکُم ... ) قرآن کی بہترین آیات میں سے ہے . یاعلی انسان کے جسم پر اگر لکڑی کی بھی خراش ہوتی ہے یاقدم سے کوئی لغزش سرزد ہو تی ہے تو یہ ان گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کاانسان ارتکاب کرتاہے . اور جوگناہ خدا دنیا میں معاف کردیتاہے ( قیامت کے دن ) ان پر پھر نظر کرنااس کی شان کے خلاف ہے ، اور دنیا میں جن گناہوں کی سزا دے دیتاہے آخرت میں ان کی سزا دینا اس کے عدل کے منافی ہے ( 4).
گو یااس قسم کے مصائب ایک تو انسان کے گناہوں کابوجھ ہلکا کرتے ہیں اور دوسر ے اسے مستقبل کے لیے کنڑ ول بھی کرلیتے ہیں۔
۲۔ اگر چہ آ یت ظاہری طورپر عمومیت کی حامل ہے اوراس میں تمام مصائب آجاتے ہیں لیکن معمول کے مطابق ، عموم میں اسثناء ہوتاہے ، جیسے وہ مصائب اور مشکلات جوائمہ یاانبیاء علیہم السلام کوپیش آتے رہے ہیں . وہ یاتو ان کے مقا مات کی بلندی کے لئے تھے یا پھر ان کی آزمائش کے لیے . اسی طرح بعض مصائب جوغیر معصوم پرنازل ہو تے ہیں ان میں بھی آزمائش کا پہلو ہوتاہے۔
یاپھر کچھ مصائب ایسے ہوتے ہیں جوانسان کی اپنی غور نہ کرنے ، بے سمجھی اور کسی سے مشورہ کئے بغیر کام کرنے یاسہل انگاری سے کام لینے کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں درحقیقت ایسے مصائب انسان کے اپنے اعمال کاتکوینی نتیجہ ہوتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں قرآن کی مختلف آیات اوراسلامی روایات کوجب ایک جگہ اکٹھا کیاجائے توا س سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ اس آیت کاعمومی حکم کچھ صورتوں میںتخصیص پیدا کرلے گا اور یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے . لہٰذا بعض مفسرین نے جواس پر اعتراض کیا اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سخت مصائب اور مشکلات کے کئی فلسفے ہیں جن کی طرف توحید اور عدل کے مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے ، مثلاًمصیبتوں کے سائے میں استعداد اورلیاقتوں کااجاگر ہونامستقبل کے بار ے میں تنبیہ ، خدا کی آزمائش ، غر ور اور غفلت سے بید اری اور گناہوں کاکفار ہ وغیرہ ۔
البتہ چونکہ ان میں سے اکثر کاتعلق سزااور کفارے سے ہوتاہے . لہذا مندرجہ بالاآ یات نے اسے عمومی صورت میں پیش کیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ روایت میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یزید ملعون کے دربار میں پہنچے تو اس نے امام کی طرف منہ کرکے کہا :
یاعلی ! مااصابکم من مصیبة فبما کسبت ایدیکم
اس کااشار ہ اس بات کی طرف تھا کہ حادثات کر بلا خود تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں۔
تو امام زین العابدین علیہ السلام نے فوراً اس کا ان لفظو ں مین جواب دیا :
کلّا ماھذہ فینا نزلت ، انما انزل فینا ” مااصاب من مصیبة فی الارض ولافی انفسکم الّا فی کتاب من قبل ان نبراٴھا ذالک علی اللہ یسیر ،لکیلا تاٴ سوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بما اٰ تا کم “ فنحن الذین لاناٴ سی علی ما فاتنا من امر الدنیا ، ولا تفرح بما اوتینا ( ۵) ۔
ایسی بات نہیں ہے ، یہ آیت ہمارے بار ے میں نازل نہیں ہوئی ، بلکہ ہمارے بار ے میں ایک اور آیت اتری ہے جس میں کہاگیاہے ” جومصیبت بھی زمین یاتمہار ے جسم و جان پرنازل ہوتی ہ ، تمہار ی تخلیق سے پہلے کتاب ( لوں محفوظ ) میںدرج تھی اورا س کا علم خدا کے لیے آسان ہے اور یہ صرف اس لیے ہے کہ جو چیزتمہارے ہاتھوں سے چلی جائے اس پر غمگین نہ ہو اورجو کچھ تمہارے پاس موجود ہے اس پر زیادہ خوشی نہ مناؤ ( ان مصیبتوں کامقصد یہ ہے کہ چند روزہ دنیاوی زندگی کے ساتھ دل نہ لگا اور یہ ایک طرح سے تمہاری تربیت اور آز مائش ہے ).
پھر امام علیہ السلام نے فر مایا :
ہم جو کچھ دے چکے ہیں اس پرہرگز غمگین نہیں ہیں اور جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے اس پر خوش نہیں ہیں . ( ہم سب چیزوں کوعارضی اور چند روزہ سمجھتے ہیں اورصرف خداکے لطف وعنایت کے منتظر ہیں ) ۔
ہم اپنی اس گفتگو کوحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی اس حدیث پر ختم کرتے ہیں کہ جس کے مطابق جب امام علیہ السلام سے مذکورہ بالاآیت کی تفسی پوچھی گئی تو آ پ علیہ السلام نے فرمایا :
” تم جانتے ہوکہ علی اوران کے اہلبیت مصیبتوں میںگرفتار ہوئے آیاان کے ا عمال کی وجہ سے تھا ؟حالانکہ وہ سب اہلبیت طہار ت ہیں اور ہرقسم کے گناہوں سے پاک ہیں ! پھر فرایا :
ان رسول اللہ کان یتوب الی اللہ ویستغفر فی کل یوم ولیلة ماٴ ة مرة من غیر ذنب ان اللہ یخص اولیا ئہ بالمصائب لیاٴ جرھم علیھا من غیر ذنب
رسول اللہ ہمیشہ توبہ کیا کر تے تھے اورہر دن رات میں سو مرتبہ استغفار کیاکرتے تھے،حالانکہ کسی قسم کاگناہ ان سے سرزد نہیں ہوتاتھا .خدانے اپنے دوستوں کے لیے کچھ مصائب مقرر کئے ہیں تاکہ ان پرصبر کرکے وہ اس کاثواب پائیں ، حالانکہ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا ( 6).
۳۔ کچھ لوگوں کو اس بات میں تر دد ہے کہ مذ کورہ آیت میں مصائب سے مراد دنیاوی مصیبتیں ہیں کیونکہ دنیا عمل کاگھر ہے نہ کہ سزا یاجزا کاگھر ۔
لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے بہت سی آ یات اور روایات شاہد ہیں کہ بعض اوقات انسان دنیامیں اپنے کئے کانتیجہ سزا یاجزا کی صورت میں دیکھ لیتاہے . اگریہ کہاجاتاہے کہ دنیا سزا یا جزا کاگھر نہیں ہے تو اس کامقصد یہ ہوتاہے کہ اسے اپنے تمام اعمال کی سزایاجز ایہاں نہیں ملتی.نہ یہ کہ اسے ہرگز سز ایا جز انہیں ملتی اورآیات وروایات سے باخبر لوگوں کی نگاہ میں اس حقیقت کاانکار ایسے ہی ہے جیسے کسی ظاہر چیز کاانکار ہوتاہے۔
۴۔ کبھی مصائب،مجموعی حیثیت کے ہوتے ہیں جو کئی لوگوں کے مجموعی گناہوں کی وجہ سے طاہر ہوتے ہیں .جیساکہ سورہ ٴ روم کی ۴۱ ویں آیت ہے:
ظَہَرَ الْفَسادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذیقَہُمْ بَعْضَ الَّذی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ
لوگوں کے اعمال کی وجہ سے خشکی اور سمندر وں میں خرابی پیدا ہوگئی تاکہ خدا انہیں ان کے کچھ ایسے اعمال کے انجام کامز چکھائے جوانھوں نے انجام دیئے ہیں تاکہ وہ ان سے باز آجائیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ بات انسانی معاشروں سے متعلق ہے کہ جن کے افراد مل کرگنا ہوں کا ارتکاب کرکے مشکلا ت اورمصائب میں پھنس جاتے ہیں۔
سورہٴ رعد کی ۱۱ ویں آیت میں ہے :
إِنَّ اللَّہَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا ما بِاٴَنْفُسِہِمْ
اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدلتی ۔
اس قسم کی آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ انسانی اعمال اور کا ئنات کے تکو ینی نظام زندگی کاایک گہرا اورنزدیکی رابط ہے کہ اگروہ فطری اصولوں اور تخلیق قوانین کے مطابق چلیں گے تو خدا کی برکتیں ان کے شامل حا ل ہوں گی او ر اگر بے راہروی اختیار کریں گے توان کی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا ۔
کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ مذکورہ صورت میں انسانوں میں سے ہر ایک فرد پر صادق آجاتی ہے اورجوبھی شخص کسی گناہ کامر تکب ہوتاہے ، اس کے نتیجے میں اس کا اپناجسم و جان یامال و متعلقا ت کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں . جیساکہ زیرتفسیر آیت میں مذ کور ہے ( 7).
بہرحال ہو سکتاہے کہ کچھ لوگ اس بات کاتصوّر کریں کہ وہ خدا کے اس حتمی قانون اورناقابل اجتناب طریقہ کار سے راہ فرار اختیار کرسکتے ہیں لہٰذا اس سلسلے کی آخر ی آیت میں فر مایا گیا ہے تم زمین میں خدا کی قدرت سے ہرگز فرار نہیں کرسکتے (وَ ما اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزینَ فِی الْاٴَرْضِ ) (8) ۔
تم کس طرح اس کی قدرت اورحکومت کے دائرہ اختیار سے فرار کرسکتے ہو، جبکہ تمام کائنات ار ض وسماوی پر بلا شرکت غیرے اس کی حکومت ہے۔
اگر تم یہ با ورکرتے ہو کہ اس بار ے میں کوئی امداد کو آپہنے گا تو یاد رکھو ” خدا کے علاوہ نہ توکوئی تمہارا ولی ہے اور نہ ہی مد دگار (وَ ما لَکُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ مِنْ وَلِیٍّ وَ لا نَصیر).
ممکن ہے ” ولی “ اور’ ’ نصیر “ کے درمیان فرق اس لحاظ سے ہوکہ ” ولی “ وہ سر پرست ہوتاہے جو فائدہ چاہتاہے اور”نصیر “ وہ مددگار ہوتاہے جونقصان دور کرتاہے یایہ فرق اس لحاظ سے ہو کہ ” ولی “ اس شخص کوکہتے ہیں جومستقل صورت میں کسی دفاع کرے اور”نصیر وہ ہوتاہے جوخود شانہ بشانہ رہ کرمدد کرتاہے۔
درحقیقت آخر ی آیت انسان کی کمز وری اور ناتوانی کو مجسم کرتی ہے جب کہ اس سے پہلی آیت خداکی عدالت اور رحمت کو ( 9) ۔
1۔ راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ ”غوث“ مدد کرنے کے مو قع پر بولاجاتاہے اور” غیث “ بارش کے لیے : الغوث یقال فی النصرة والغیث فی المطر ۔
2۔ صاحب کشاف کے بقول ”اذا “ کا کلمہ جس طرح فعل ماضی پر داخل ہوتاہے اسی طرح فعل مضارع پر بھی داخل ہوتاہے ” واللیل اذا یغشٰی “ لیکن ” اذا “ کے بعد فعل زیادہ تر ماضی کی صورت میں ہوتاہے اورمضارع کی صورت میں بہت کم ہوتاہے۔
3۔ سفینتہ البحار مادہ نجم جلد ۲ ،ص ۵۷۴ ( منقول از تفسیر علی بن ابراہیم )
4۔ تفسیرمجمع البیان جلد ۹ ،ص ۳۱ . (اسی آیت کے ذیل میں ) اس سے ملتی جلتی حدیث درمنثور اور روح المعانی میں بھی آیات زیر بحث کے ذ یل میں کچھ فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے . اس بار ے میں احادیث بھی بہت ملتی ہیں۔
5۔ تفسیر علی بن ابرہیم ، مطابق نورا لثقلین جلد ۴ ،ص ۵۸۰۔
6۔اصول کافی ، منقول تفسیر نو رالثقلین جلد ۴ ،ص ۵۸۱۔
7۔تفسیر المیز ان جلد ۱۸ ،ص ۶۱۔
8۔ ” معجزین “ کا کلمہ ” اعجاز “ کے مادہ سے لیاگیاہے جس کامعنی ہے کسی کو عاجز کردینا .لیکن یہی کلمہ قرآن کی بہت سی آیات میںقدرت الہٰی اوراس کے عذاب سے فر ار کرنے کے معنی میں بھی آ یاہے جواصل معنی کالازمہ ہے۔
9۔ تفسیر فی ظلال القرآن ، ج ۷ ،ص ۲۹۰۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma