جلدی نہ کرو قیامت آ کر رہے گی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں آنحضرت کوحکم ملاتھا کہ تمام آسمانی کتابوں کااحترام کرن کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف بھی رائج فرمائیں . اوران سے کسی قسم کا جھگڑ ا نہ کریں زیرنظر آیات میں ان باتوں کی تکمیل ہورہی ہے اوریہ بتایا جارہاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے . ارشاد ہوتاہے :اس کی دعوت لوگوں کی طرف سے ہوجانے کے بعد خدائے واحد کے بارے میں جھگڑاتے ہیں ان کی دلیل ان کے پرور دگار کے نزدیک باطل اور بے بنیاد ہے ( وَ الَّذینَ یُحَاجُّونَ فِی اللَّہِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجیبَ لَہُ حُجَّتُہُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ ).
” اور ان پرخدا کاغضب ہے “ کیونکہ وہ جان بوجھ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں (وَ عَلَیْہِمْ غَضَبٌ ).
اورقیامت کے دن بھی ان کے لیے خداکاسخت عذاب ہوگا (وَ لَہُمْ عَذابٌ شَدید).
کیونکہ ہٹ دھرمی اورجھگڑ ے کاانجام یہی ہوتاہے۔
یہاں پر”مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجیبَ لَہ“ ( اس کی دعوت قبول کرلیے جانے کے بعد ) سے کیامراد ہے ؟مفسرین نے اس بار ے میں کئی تفاسیر بیان کی ہیں۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد پاکدل اور بے لوٹ لوگوں کی طرف سے دعوت کی قبولیت ہے جوفطر ت الہٰی کی راہنمائی ، وحی پرو ر دگار کے مضامین اور پیغمبر (اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مختلف معجزات دیکھنے کی وجہ سے مسلمان ہوگئے ۔
کچ لوگ کہتے ہیں اس سے مراد پیغمبر (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دعا کی قبولیت ہے جو آپ نے جنگ بدر کے دن اسلام دشمن طاقتوں کے برخلاف کی تھی،جس کے نتیجے میں ان کاایک عظیم لشکر نیست ونابود ہوگیا اوران کی شان وشوکت جاتی رہی اورانہیں رسواکن شکست نصیب ہوئی ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد خودا ن اہل کتاب کی اپنی دعاکی قبولیت ہے ، جووہ اسلام سے پہلے کیاکرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ظہور کی انتظار میں تھے اوراپنی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نشانیاں لوگوں کو پڑھ پڑھ کرسنا یا کرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات سے اپنے ایمان اور تعلق کااظہار کیاکرتے تھے . لیکن جب اسلام کاظہور ہوگیا اوران کے ناجائز مفادات کوخطرات لاحق ہونے لگے توا نہوں نے انکارکردیا ۔
سب سے زیادہ مناسب تفسیر وہی پہلی ہے کیونکہ دوسری تفسیرکی روسے ان آیات کوغز دہ بدر کے بعد نازل ہونا چاہیئے تھاجب کہ ہمارے پاس اس بار ے میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اورمعلوم ہوتاہے کہ یہ سب آیا ت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہیں۔
تیسری تفسیر آیت کے لب ولہجہ سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق یوں کہنا چاہیئے تھا ” من بعد استجابوالہ “ یعنی اس کے بعد وہ اس (رسول ) کی دعوت کو قبول کرچکے ۔
اورپھر یہ کہ ” یحاجّو ن فی اللہ “ کاجملہ بظاہر مشرکین کی خدا کے بار ے میں گفتگو کی طرف اشارہ ہے نہ کہ اہل کتاب کی آنحضر ت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بار ے میں . اب یہ باطل اورغلط جھگڑا کن مسائل کی طرف اشارہ ہے ، اس میں بھی مختلف آراء ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ یہود کے اس دعویٰ کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں تھے کہ ہمارادین ،اسلام سے پہلے کاہے قبول ہے۔
لیکن جیساکہ ہم پے بتاچکے ہیں کہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ ان آیات میں روئے سخن یہود اور اہل کتاب کی طرف ہو ، کیونکہ ” خداکے بار ے میں جھگڑا “ زیادہ تر مشر کین کی طرف سے ہی متو قع معلوم ہوتاہے . بنابریں مندرجہ بالا جملہ ان بے بنیاد اور بودے دلائل کی طرف اشارہ ہے جومشرک لوگ شرک کی قبولیت کے لیے گھڑاکرتے تھے . ان میں سے ایک دلیل تو ہے کہ یہ بُت ان کی شفاعت کریں گے اوردوسری یہ کہ وہ اپنے بزر گوں کے دین کی پیروی کررہے ہیں۔
بہرحال جوضدی مزاج لوگ حق آشکار ہوجانے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی اورضد پر باقی رہ جاتے ہیں وہ مخلوق خداکی نگاہوں میں بھی رسوا ہیں اوراس دنیا اور آخر دونوں جہانوں میںغضب الہٰی کے بھی مستحق ہیں۔
پھرخداوند عالم کی توحید اوراس کی قدر کے دلائل میں سے ایک دلیل کوبیان فرمایاگیاہے جس میں بے منطق جھگڑاکرنے والوں کے لیے نبوت کاثبوت موجد ہے . ارشاد ہوتاہے : خدا تو وہ ہے جس نے آسمانی کتاب کوبرحق نازل فر مایا ہے اوراسی طرح میزان کوبھی (اللَّہُ الَّذی اٴَنْزَلَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ وَ الْمیزانَ).
” حق “ ایک جامع کلمہ ہے جومعارف اور عقائدحقہ،صحیح خبروں ،فطری اوراجتماعی ضر ورتوں اوراس قسم کی دوسری تمام چیزوں پر محیط ہے . کیونکہ حق وہ چیزہوتی ہے جوعینیت خارجی سے موافق ہواور ذہنی اورخیالی پہلو نہ رکھتی ہو ۔
اسی طرح ایسے مواقع پر ” میزان “ کا بھی ایک جامع معنی ہے،ہرچند کہ لغوی طو رپر اس کااطلاق ” ترازو “ اوروزن کرنے والے آلات پرہوتاہے لیکن کنائے کے طورپر اس کااطلا ق پرکھنے کے ہرقسم کے معیار،خدا کے صحیح قوانین اورحتٰی کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ذات پربھی ہوتاہے.کیونکہ ان کاوجود بھی حق اورباطل کے درمیان امتیاز کامعیار ہے.اور قیامت کے دن کامیزان بھی اسی معنی کاایک نمونہ ہے۔
اسی طرح سے خدا وندعالم نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جوحق بھی ہے اور اقدار کو پر کھنے کا معیار اور میزان بھی ہے . وہ اس طرح کہ اس کتاب کے مضامین میںغور کرنے سے بہت سے امور ظاہر ہوتے ہیں . معارف و عقائد سے لے کر اس کے منطقی طرزاستدلال تک،اجتماعی قوانین سے لے کر ان پر و گراموں تک جو تہذیب نفوس اورارتقائے انسانیت کے لیے بنائے گئے ہیں،سب اس کی حقانیت کی دلیل ہیں . ذرا غو ر توکیجئے کہ اس قدر اعلیٰ اور معیاری مطالب اوروہ بھی اس گہرائی اور عظمت کے ساتھ اورپھر ایک اُمّی شخص کی طرف سے جس نے دنیا کے کسی فرد سے تعلیم حاصل نہیں کی اورایک پسماندہ ترین ماحول سے کھڑاہوا . یہ سب کچھ بذات خود پروردگار عالم کی عظمت اورعالم ماورائے طبیعت پرروشن بُر ہان اور اس کتاب کے لانے والے کی حقانیت وصداق پرکھلی دلیل ہے۔
توگو یامندرجہ جملہ مشرکین کے لیے بھی ایک جواب ہے اوراہل کتاب کے لیے بھی ۔
چونکہ ان تمام مسائل کاخصوصی نتیجہ حق وعدالت اورقیامت کے دن میزان اعمال کاظہور ہے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے:تجھے کیامعلوم ،شاید قیامت کی گھڑی قریب ہو ( وَ ما یُدْریکَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَریب).
وہی قیامت جوجب بر پا ہوگی تو سب اس کی عدالت میں حاضر ہوں گے اوروہاں پر ان کے اعمال کومیزان پرتولا جائے گااوررائی کے دانے کے برابر بلکہ اس سے بھی کمترکوٹھیک ٹھیک سے پرکھا اور تولا جائے گا ۔
پھرقرآن قیامت کے بار ے میں کفار اور موٴ منین کے رد عمل کو بیان کرتے ہوئے کہتاہے :جولوگ قیامت پرایمان نہیں رکھتے وہ اس کے بار ے میں جلدی کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ قیامت کب آئے گی (یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِہا).
وہ اس قسم کی باتیں اس لیے ہر گز نہیں کرتے کہ انہیں قیامت سے کوئی محبت ہے یامحبوب سے ملاقات کاشو ق ہے ،نہیں بلکہ وہ تو قیامت کامذاق اڑانے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں،لیکن اگروہ جان لیں کہ قیامت ان کے لیے کیالے کرآئے گی تووہ ایسی باتیں ہرگز نہ کریں۔
البتہ جولوگ ایما ن لاچکے ہیں وہ ہمیشہ خوف و ہراس کے ساتھ اس کے منتظر ہیں اور ہو اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ حق ہے اور یقینا آکر رہے گی ( وَ الَّذینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہا وَ یَعْلَمُونَ اٴَنَّہَا الْحَقُّ ) (۱).
البتہ قیام قیامت کالمحہ ہرشخص سے پوشیدہ ہے حتٰی کہ ابنیائے مرسل اورملا ئکہ مقرب بھی اسے نہیں جانتے . تاکہ ایک طرف سے تو موٴ منین کے لیے ہمیشہ کی تر بیت کا ذریعہ بن جائے اوردوسری طرف منکر ین کے لیے آزمائش اور اتمام حجت ہو. لیکن اس کے واقع ہونے میں انہیں کوئی شک نہیں ہے۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ قیامت اورخدا کی عظیم عدالت پر ایمان ،خاص کراس امر کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قیامت کسی وقت بھی واقع ہوسکتی ہے ، مو منین کی تربیت کے لےے کس قدر موٴ ثر ہے۔
آیت کے آخر میں ایک عمومی اعلان کے طورپر ارشادفرمایا گیا ہے : آ گاہ رہو ! جولوگ قیامت کے بار ے میں شک کرتے ہیں اورا س کے بار ے میں کٹ جحتی کرتے ہیں وہ سخت گمراہی میں ہیں (اٴَلا إِنَّ الَّذینَ یُمارُونَ فِی السَّاعَةِ لَفی ضَلالٍ بَعیدٍ ).
کیونکہ اس دنیا کانظام بذات خوداس بات پردلیل ہے کہ یہ کسی اورجہان کامقدمہ ہے کہ جس کے بغیر اس دنیا کی آفرینش لغو اوربے معنی ہوگی جونہ تو حکمت الہٰی سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی اس کی عدالت سے ۔
”ضلال بعید “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی رانسان راہ کوگم کربیٹھتا ہے لیکن اس سے زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا ممکن ہے تھوڑ ی سی تلاش اور جستجو سے اسے پالے ، لیکن کبھی فاصلہ اس قدر زیادہ ہوتاہے کہ راستے کی تلاش مشکل یاناممکن ہوجاتی ہے۔
یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بار ے میں روایت ہے کہ ” ایک شخص نے ایک سفر کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے بلند آواز سے پوچھا : یامحمد ! توآنحضرت نے بھی بلند آوازمیں فرمایا : ” کیاکہتے ہو ؟ “
اس نے کہا ” متی الساعة “( قیامت کب برپا ہوگی ؟)
ّآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ” انھاکائنة فما اعددت لھا “ ( قیامت توآکررہے گی،لیکن تم نے اس کے لیے تیاری کی ہے ؟)
اس نے عرض کیا : ” حب اللہ ورسولہ “ (خدا اوررسول ِ خدا سے محبت ہی میرا سارا سرمایہ ہے ).
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : انت مع احببت “ ( تم ان لوگوں کے ساتھ ہوگئے جن سے محبت کرتے ہو ) ( ۲).
۱۔ ” مشفقون “ ” اشفاق “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ایسی محبت جس میں خوف پایا جاتاہو . جب یہ لفظ ” من “ کے ساتھ متعدی ہوتوخوف کا پہلو غالب ہوتاہے اور جب ” علیٰ “ کے ساتھ متعدی ہو توتوجہ اورمحبت وانتظار کااس میں غلبہ ہوتاہے .لہذا انسان اپنے دوست سے کہتا ہے ” انامشفق علیک “ ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی اورمفردات راغب ۔
۲۔ تفسیر مراغی جلد ۲۵ ،ص ۳۲۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma