منا فقین کی دیگر نشانیاں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 24
ان آ یات میں منافقین کے اعمال اوران کی گو ناگوں نشانیوں کابیان اسی طرح سے جاری ہے . فرماتاہے :
جب ان سے یہ کہا جاتاہے کہ آ ئو تاکہ رسُول ِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)تمہارے لیے استغفار کریں تووہ اپنے سروں کو آستہزا ء اور کبرو نخوت کے ساتھ ہلاتے ہیں .اور تودیکھے گاکہ وہ تیری باتوں سے اعراض کرتے ہُوئے تکبّر کررہے ہیں (وَ ِذا قیلَ لَہُمْ تَعالَو آ یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللَّہِ لَوَّو آ رُؤُسَہُمْ وَ رَأَیْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَ ہُمْ مُسْتَکْبِرُون) ۔
ہاں !ان لغزشوں کے مقابلہ میں جو آن سے سرزّدہوتی ہیں اوران کے پاس تو بہ اور تلافی کی فرصت بھی ہوتی ہے ، ان کا کبرو غرور انہیں تلافی کرنے کی اجازت نہیں دیتا .اس کاو آضح نمونہ عبداللہ بن ابی تھاکہ جس کاعجیب وغریب ماجراشانِ نزول میں بیان ہُوآ ہے ۔
جس وقت اُس نے وہ قبیح اور نارو آیات پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور مومن مہاجرین کے بارے میں کہی : جب ہم مدینہ کی طرف پلٹ کر جائیں گے توعزّت وآلے ذلیلوں کوباہر نکال دیں گے ، اس پر قرآنی آیات نازل ہُو ئیں اوراس کی شدیدمذمّت ہُوئی .لوگوں نے اُس سے کہاکہ وہ رسُول ِخُدا کے پاس آئے تاکہ حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس کے لیے بارگاہِ خدا وندی سے بخشش طلب کریں ،مگر اُس نے ایک اور نارو آبات کی کہ جس کاماحصل یہ تھا : تم نے کہا ایمان لے آ ،میں ایمان لے آ یاتم نے کہا زکوٰ ة دے ، میں نے زکوٰ ة دی . اب بجُز اس کے کوئی چیزباقی نہیں رہی کہ کہو محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لیے سجدہ کر!
یہ بات وآضح ہے کہ روِ اسلام حق کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے اور کبروغرور ہمیشہ اس تسلیم میں رکاوٹ ہے . اسی بناء پر منافقین کی ایک نشانی ، بلکہ اسی غرور ،خود خو آہی اور خود کوبرتر سمجھنے ہی کونفاق کا ایک سبب شمار کیا جاسکتاہے ۔
لووآ لی کے مدّہ سے اصل میں رسّی کوبَل دینے کے معنی میں ہے .اوراسی مناسبت سے منہ پھیر نے ، یاسر کوحرکت دینے اور ہلانے کے معنی میں بھی آ یا ہے ۔
یصدون جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں دومعانی میں استعمال ہوتاہے . منع کرنااور اعراض کرنازیر بحث آیت میں دوسرامعنی اور گزشتہ آ یت میں پہلا معنی مُناسب ہے ۔
بعدو آلی آ یت میں ہر قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لیے اس سلسلہ میں مزیدکہتاہے : بالفرض اگروہ تیرے پاس آ ئیں اورتو آن کے لیے استغفار بھی کرلے تون میں بخشش کے اسباب موجود ہی نہیں ہیں .اس بناء پراس سے کو ئی فرق نہیں پڑ تاکہ تو آن کے لیے استغفارکرے یانہ کرے ، خدا انہیں ہرگز نہیں بخشے گا (سَو آء عَلَیْہِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ لَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُمْ ) ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا فاسق کوہدایت نہیں کرتا(انَّ اللَّہَ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفاسِقینَ) ۔
دُوسرے لفظوں میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی استغفار بخشش کے لیے علّتِ تامہ ، بلکہ مقتضیٰہے . یہ صرف اسی صُورت میں اثر کرتی ہے جبکہ مو آفق اسباب اور ضر وری قابلیّت فراہم ہو .اگروہ و آقعاًتوبہ کرلیں، اپنی راہ کوبدلیں، کبر وغرُورکی سو آری سے اُترآ ئیں اور حق کے سامنے سرتسلیم خم کردیں توپیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی استغفار یقینامُوثرہے .اس صُورت کے علاوہ کچھ بھی اثر نہ ہوگا ۔
اسی معنی کے مشابہ سورۂ توبہ کی آ یت ٨٠میں بھی آ یاہے جو منافقین کے ایک اور گروہ کے بارے میں میں کہتی ہے : ہُمُ الَّذینَ یَقُولُونَ لا تُنْفِقُو آ عَلی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ حَتَّی یَنْفَضُّو آ وَ لِلَّہِ خَزائِنُ السَّماو آتِ وَ الْأَرْضِ وَ لکِنَّ الْمُنافِقینَ لا یَفْقَہُونَ ۔
چاہے تم ان کے لیے استغفارکردیا نہ کرو آس کاکوئی اثر نہیں ہوگا .اگرتم شتّرمرتبہ بھی ان کے لیے استغفارکروگے توبھی خدا ان کو نہیں بخشے گا. کیونکہ وہ خدا اوراُس کے رسُول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مُنکرہوگئے ہیں اور خد فاسق قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
یہ بات و آضح ہے کہ ستّرتکثیرکاعدد ہے .یعنی چاہے جتنی مرتبہ بھی ا ن کے لیے استغفارکرو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
یہ نکتہ بھی معلوم ہے کہ فاسق سے مُراد ہر قسم کاگنہگار نہیں ہے . کیونکہ پیغمبر گناہگار وں کی نجات کے لیے ہی آ ئے ہیں، بلکہ اس سے مُراد وہ گنہ گار ہیں جوگناہوں پراصرار کرتے ہیں، ہٹ دھرم ہیں اور حق کے مقابلے میں سرکش ہیں ۔
اس کے بعد ان کی ایک بُہت ہی بُری بات کی طرف ، جو آن کے نفاق کی و آضح ترین نشانی شمار ہوتی ہے ، اشارہ کرتے ہُوئے کہتاہے : یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ان افراد پر جورسُولِ خداکے پاس ہیں کچھ خرچ نہ کرو اوراپنے مال اورامکانات کو ان کے اختیار میں ہ دو تاکہ وہ پر اگندہ ہو جائیں (ہُمُ الَّذینَ یَقُولُونَ لا تُنْفِقُو آ عَلی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ حَتَّی یَنْفَضُّو آ ) ۔
وہ اس بات سے غافل ہیں کہ آسمانوں اور زمین کے تمام خزانے خدا ہی کے لیے ہیں،لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں (وَ لِلَّہِ خَزائِنُ السَّماو آتِ وَ الْأَرْضِ وَ لکِنَّ الْمُنافِقینَ لا یَفْقَہُونَ) ۔
یہ بدبخت نہیں جانتے کہ ہرشخص کے پاس جوکچھ ہے وہ خداہی کا دیاہُو آ ہے اور تمام بندے اسی کے خو آ ن سے روزی کھاتے ہیں .اگر انصارمہاجر ین کوپناہ دے سکتے ہیں اورانہیں اپنے مال میںحصّہ داراور شریک بناسکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو آنہیں نصیب ہے لہٰذا انہیں نہ صرف یہ کہ احسان نہیں جتانا ہے چاہیے ، بلکہ خداکا اس عظیم توفیق پرشکرادا کرناچاہیے ،لیکن جیساکہ شانِ نزول میں بیان ہو آ ہے منافقین کی منطق کچھ اور ہی تھی ۔
اِس کے بعدان کی ایک اورنفرت انگیز بات کی طرف اِشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : یَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنا ِلَی الْمَدینَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ ۔
یہ وہی گفتگو ہے جوعبداللہ بن ابی کے آلودہ دہن سے نکلی اوراس کی مراد یہ تھی کہ ہم مدینہ کے رہنے و آلے رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اورمومن مہاجرین کومدینہ سے باہر نکال دیں گے .مدینہ کی طرف لوٹنے سے مُراد غزوۂ بنی المصطلقسے لوٹناتھا، اوراس کی طرف شانِ نزول میں تفصیل کے ساتھ اشارہ ہوچُکاہے ۔
اگرچہ یہ بات صرف ایک ہی شخص نے کہ تھی لیکن چُونکہ سب منافقین کاطرز عمل اور طریقۂ کار یہی تھا ، لہٰذقرآن جمع کی صُورت میں تعبیرکرتے ہُوئے فرماتاہے : یقولون ... (وہ کہتے ہیں ) ۔
اِس کے بعد قرآن انہیں داندں شکن جو آب دیتے ہُوئے کہتاہے :عزّت توخدا ،رسُول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور مومنین کے لیے مخصوص ہے لیکن منافقین نہیں جانتے(وَ لِلَّہِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِہِ وَ لِلْمُؤْمِنینَ وَ لکِنَّ الْمُنافِقینَ لا یَعْلَمُون) ۔
یہ صرف مدینہ کے مُنافقین ہی نہیں تھے کہ جنہوں نے مومن مہاجر ین کے مقابلہ میں یہ بات کہی ،بلکہ اس سے پہلے سر دارانِ قریش بھی مکہ میں یہی بات کہا کرتے تھے :اگرہم مُسلمانوں کے اس چھوٹے سے فقیر گروہ کا اقتصاد ی محاصرہ کرلیں یا انہیں مکہ سے باہرنکال دیں تومُعاملہ ختم ہوجائے گا ۔
موجود ہ زمانہ میں بھی استعماری اور سامراجی حکو متیں اس خیال سے کہ آسمان وزمین کے خزانے ان کے پاس ہیں،یہ کہتی ہیں کہ وہ قومیں جوہمارے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتیں ان کا اقتصادی محاصرہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی عقل ٹھکانے آجائے اوروہ سرتسلیم خم کردیں ۔
ان تاریخ کے اند ھوں کو ،جن کاشیوہ کل بھی یہی تھا اورآج بھی یہی ہے ، اس بات کی خبرنہیں کہ خُداکے ایک ہی اشارہ پران کی تمام ثروت اورامکانات تباہ ہوجائیں گے اوران کی عارضی اور ظا ہری عزّت قانون فنا کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگی ۔
بہرحال یہ طرزِفکر( کہ اپنے آپ کوعزّت اور سمجھنا اور دوسروں کوذلیل ، اپنے آپ کوولی نعمت شمار کرنا اور دوسروں کومحتاج)ایک منافقانہ طرزِ فکر ہے .یہ ایک طرف توغرور و تکبّرسے اوردوسری طرف خداکے مقابلے میں استقلال کے گمان سے پیدا ہوتی ہے.اگروہ عبُودیّت کی حقیقت سے آشنا ہوتے اور خُدا کی مالکیّت کوہر چیزپرمسلم سمجھتے توہرگز ان خطر ناک غلطیوں کاشکار نہ ہوتے ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ گزشتہ آ یت میں منافقین کے بارے میں لا یفقھون (نہیں سمجھتے ) کی تعبیر آ ئی ہے اور یہاں لا یعلمون(نہیں جانتے ) کی تعبیر آ ئی ہے تعبیر کایہ فرق ممکن ہے تکرار سے پرہیزکے لیے ہو جوفصاحت کے خلاف ہے . یہ بھی ممکن ہے کہ اس بناء پر ہو کہ خداکا تمام آسمانوں اور زمین کے خزائن کا مالک ہونابہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے جوبہت زیادہ وقت اور فہم و فراست کا محتاج ہے ، جبکہ عزّت کا ،خداپیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور مومنین کے ساتھ مخصوص ہونا کسِی پر مخفی نہیں ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma