٣۔نماز عبادی سیاسی جمعہ کافلسفہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 24
نمازِجمعہ ہرچیزسے پہلے ایک عظیم اجتماعی عبادت ہے اورعبادت کی عمومی تاثیر کہ جورُوح وجان کو لطیف بنایا ، دل کوگناہ کی آ لودگیوں سے پاک کرنا اور دل سے معصیّت کے رنگ کواتارنا ہے وہ ،اس میں موجود ہے .خاک طورپر یہ بات کہ اس میں دوخطبے ہوتے ہیں ،جوانواع واقسام کے مواعظ، پند ونصائح اور تقوٰی وپرہیز گاری کاحکم دینے پر مشتمِل ہوتے ہیں ۔
لیکن اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے یہ ایک عظیم ہفتہ وار کانفرنس ہے ، جوحج کی سالانہ کانفرنس کے بعد بزرگ ترین اسلامی کانفرنس ہے ،اسی وجہ سے اس روایت میں جوپہلے ہم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے پہلے نقل کرچکے ہیں ،یوں آ یاہے کہ جُمعہ ان لوگوں کاحج ہے جومراسم ِحج میں شرکت کی قدرت نہیں رکھتے ۔
حقیقت میں اِسلام تین عظیم اجتماعوں کواہمیّت دیتا ہے :
١:روزانہ کے اجتماعات جونماز جماعت میں حاصلِ ہوتے ہیں ۔
٢:ہفتہ واراجتماع جونمازجمعہ کے اعمال سے حاصلِ ہوتاہے ۔
٣:حج کااجتماع جوخانۂ خدا کے پاس ہرسال ایک مرتبہ انجام پاتاہے ۔
ان سب میں سے نماز جُمعہ کااثر بہُت ہی اہم ہے ، خاص طورپر یہ بات کہ نماز جمعہ کے خطبہ میں خطیب کا ایک موضوع اہم سیاسی اجتماعی اوراقتصادی مسائل کے بارے میں ہوتاہے .اس طرح سے اس عظیم اور پُر شکوہ اِجتماعی سے ذیل کے برکات حاصِل ہوسکتے ہیں :
١:لوگوں کومعارفِ اِسلامی اوراہم اجتماعی وسیاسی حالات وواقعات سے آگاہ کرنا ۔
ب:مُسلمانوں کی صفوں میں ایسی ہم آہنگی اور زیادہ سے زیادہ نظم اتّحاد پیدا کرناجو دشمنوں کووحشت میں ڈال دے اورانہیں لرزہ براندام کردے ۔
ج:مسلم عوام میں دینی رُوح اور نشا ط معنوی کی تجدید۔
د:عام مشکلات کے حل کے لیے باہمی تعا وُن حاصل کرنا ۔
اسی وجہ سے دشمنانِ اسلام ہمیشہ ایک ایسی جامع الشرائط نمازِ جُمعہ سے خود فزدہ رہتے تھے ، جس میں خصوصیّت کے ساتھ احکام اِسلامی کی رعایت کی جاتی ہو۔
اسی بناء پر نمازجمعہ حکومتوں کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک طاقتور ہتھیار رہی ہے .البتّہ عاد لانہ حکومتیںجیسے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی حکومت ، اِس سے اسلام کے نفع کے لیے بہترین استفادہ کیاکرتے تھے اورحکومتہائے جور ، جیسے بنی اُمیّہ کی حکومت ،اِس سے اپنی طاقت اور قُدرت کی بُنیادوں کومضبوط ومحکم کرنے کے لیے سوئِ استفادہ کیاکرتی تھیں ۔
ہم طول تاریخ میں مُشاہدہ کرتے ہیں کہ جوشخص یہ چاہتا کہ وہ کسِی حکومت کے خلاف قیام کرے توسب سے پہلے وہ اس کی نمازِ جمعہ میں شرکت سے رُک جایا کرتاتھاجیساکہ کہ واقعہ کربلا میں بیان ہُوا ہے کہ شیعوں کاایک گروہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہُوا اورانہوں نے کُوفہ سے امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ جس کامضمون یہ تھا :
کوفہ میں بنی اُمیّہ کا گور نر نعمان بن بشیر گوشہ نشین ہوگیاہے اورہم اس کی نمازِ جمعہ میں شرکت نہیں کرتے اگرہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ ہمارے طرف آرہے ہیں توہم اُسے کوفہ سے نکال دیں گے (۱) ۔
صحیفۂ سّجاد یہ میں امام علی بن الحسین علیہماالسلام سے واردہُوا ہے :
اللھم ان ھذا المقام لخلفا ئک واصفیائک و مواضع امنا ئک فی الدرجة الرفیعة التی اختصصتھم بھاقدابتزوھا۔
خدا وندا !یہ مقام (نمازِ جمعہ اور عید قربان ) تیرے خلفاء برگز یدہ ہستیوںاوربُلند پایہ امینوںکے لیے مخصُوص ہے اور تونے اس کے لیے انہیں کومخصُوص کیاتھا. لیکن (بنی اُمیّہ کے خلفاء جور)نے زبردستی اسے اولیاء حق سے لے لیا اور غصب کر لیا (۲) ۔
بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ دُشمنانِ السلام ہفتہ بھررات دن زہریلے پیروپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں لیکن وہ سب کے سب نمازِ جمعہ کے ایک ہی خطبہ اوراُس کے پُر شکوہ اورحیات بخش اعمال سے بے اثرہو کر رہ جاتے ہیں ، جبکہ مُسلمانوں کے جسموں میں ایک نئی رُوح پھونک دی جاتی ہے اوران کی رگوں میں ایک تازہ خون دوڑ نے لگتاہے ۔
اس نکتہ کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے کہ شیعہ فقہ کے مُطابق ہرطرف سے ایک فرسخ کے علاقہ میں ایک سے زیادہ نمازِ جمعہ جائزنہیں ہے تاکہ وہ لوگ جونمازِ جمعہ کے انعقاد کے جگہ سے دوفرسخ (تقریباً گیارہ کیلومیڑ ) کے اندر رہتے ہیں ،وہ اس نمازمیں شرکت کریں،اِس حُکم سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ عملی طورپر چھوٹے اور بڑے شہراوراس کے اطراف میںایک سے زیادہ نمازِ جمعہ منعقد نہیں ہوگی ،اِس بناء پر یہی نماز جمعہ اِس علاقے کا ایک عظیم ترین اجتماع ہوگا ۔
لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ یہ عبادی سیاسی مراسم جواسلامی معاشروں میں ایک عظیم تحّر ک کاباعث بن سکتے تھے ،ان میں فاسد حکومتوں کے نفوذ کی وجہ سے بعض اسلامی ممالک میں یہ ایسے بے رُوح اور بے جان ہوگئے ہیں کہ عملی طورپر ان سے کوئی مثبت اثر حاصِل نہیں ہوتا اوران اجتماعات نے ایک رسمی سے عمل کی شکل اختیار کرلی ہے ،مگر واقعتا یہ ان عظیم سرمایوں میںسے ہے کہ جن کے ضائع ہونے پر رونا چایئے ۔
سال بھر کی اہم ترین نمازِ جمعہ وہ ہے جوعرفان کی طرف جانے سے پہلے مکّہ میں انجام پاتی ہے ،اِس میں ساری دنیاسے آئے ہُوئے خانۂ خُدا کے تمام حجّاج شرکت کرتے ہیں کوکرّۂ ارض کے مسلمانوں کے تمام طبقات کے واقعی نمائندے ہوتے ہیں ،ایسی اہم اورحساس نماز کاخطبہ تیّار کرنے کے لیے مناسب ہے کہ بہُت سے علماء کئی کئی ہفتوں اورمہینوں تک مطالعہ اور تیّاری کریں ،پھر اس کاماحصل اس حساس دن کے تاریخی خطبے میں تمام مُسلمانوں کے سامنے پیش کریں .یوں وہ یقینی طورپر اس کی برکت سے اِسلامی معاشرے کوزیادہ سے زیادہ آگاہی دیتے ہُوئے اس کی بڑی بڑی مشکلات کوحل کرسکتے ہیں ۔
لیکن ان دونوں یہ ایک انتہائی کی افسوس کی بات دکھائی دیتی ہے کہ حرمِ پاک میں اس جمعہ پر بہُت ہی معمولی اور عالم مسائل ومطالب پیش کیے جاتے ہیں جن سے تقریباً سبھی لوگ واقف ہوتے ہیں .لیکن وہاں اصُولی مسائل کی بالکل کوئی خبر ہی نہیں ہوتی . کیااس قسم کی عظیم فرصت اورعظیم سرمایوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے لیے گریہ نہیں کرنا چاہیے ؟ اوراس کوبدلنے کے لیے قیام نہیں کرناچاہیئے ؟
۱۔بحارالانورا ، جلد٤٤،صفحہ٣٣٣۔
۲۔صحیفۂ سجادیہ دعا ٤٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma