تغابن کادن اور غبنوں کا اٰشکار ہونا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 24
ان مباحث کے بعد جوگزشتہ آ یات میں خلقت کے بامقصد ہونے کے بارے میں آ ئے تھے ان آ یات میں معاد اورقیامت کے مسئلہ کوپیش کرتاہے جو آنسان کے مقصدِ خلقت کی بحث کی ایک تکمیل ہے ۔
پہلے منکر ین ِ قیامت کے دعو آنے بے دلِیل سے شروع کرتے ہُوئے فرماتاہے ۔ کافروں نے یہ خیال کر کرلیاہے کہ وہ ہرگز مبعُوث نہیں ہوں گے (زَعَمَ الَّذینَ کَفَرُو  أَنْ لَنْ یُبْعَثُو آ) ۔
زعم زعم کے مادہ سے ( بروزن طعم )اس بات کے معنی میں ہے کہ جس کے جھُوٹ ہونے کا احتمال یایقین ہو .کبھی باطل خیال کے معنی میں بھی اس کا اطلاق ہوتاہے اور زیربحث آیت میں وہی پہلا معنی مُراد ہے ۔
اہل لغت کے بعض کلمات سے اس بات کابھی پتہ چلتاہے کہ یہ مادہ بطور مُطلق خبر دینے کے معنی میں ( ١)بھی آ یاہے ۔
اگرچہ اس لفظ کے مو آردِاستعمال اور مفسّرین کے کلمات سے معلُوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ جھُوٹ کے مفہُوم کی آ میزش رکھتاہے .اسی لیے انہوں نے یہ کہاہے کہ ہرچیز کی ایک کنیت ہوتی ہے اور دروغ کی کنیت زعم ہے ۔
بہرحال قرآن اس گفتگو کے بعد پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاہے : کہہ دیجئے ،ہاں ! مجھے میرے پروردگارکی قسم ہے ،تم سب کے سب (زندہ کرکے ) اُٹھا ئے جائو گے . اِس کے بعد جوکچھ تم نے عمل کیاہے تمہیں اس کی خبر دیں گے اور یہ خدا کے لیے آ سان ہے ( قُلْ بَلی وَ رَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلْتُمْ وَ ذلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسیر) ۔
حقیقت میں پہلے قاطع لب ولہجہ میں مُنکر ین قیامت کے دعو آئے بلادلیل کی نفی کرتاہے ، ایک ایسے تاکید ی لب ولہجہ اورقسم کی آمیزش کے ساتھ جوکہنے و آلے یعنی پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اعتقاد راسخ کی حکایت کرتاہے .اس کے بعد وذالک علی اللہ یسر کے جُملے کے ساتھ اس پر استدلال کرتاہے .کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ منکرین معاد کا اہم ترین شبہ اوراعتراض یہ تھا کہ بوسیدہ اورخاک شدہ ہڈ یاں کیسے زندہ ہوں گی ؟اوپر و آلی آ یت کہتی ہے کہ جب کام خدا وندِقادرِ متعال کے ہاتھ میں ہے توپھر کوئی مشکل نہیں ہے .چُونکہ ابتداء میں تووہ انہیں عدم سے وجود میں لایا ہے اور مُردوں کوزندہ کرنا اس کی نسبت زیادہ آسان ہے . بلکہ بعض کے نظر یہ کے مُطابق تو وربی کی قسم ہی معاد کی دلیل کی طرف خُود ایک لطیف اشارہ ہے .کیونکہ خداکی ربوبیّت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی اس حرکت تکاملی کودنیا کی بے قدرو قیمت زندگی کی حدود میں ہی بانجھ نہ کردے .دوسرے لفظوں میں جب تک ہم معاد کے مسئلہ کو قبول نہ کریں توخدا تعالیٰ کی ربوبیّت کا انسان اوراس کی تربیّت وتکامل کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں ہوگا ۔
بعض مفسّرین وذالک علی اللہ یسیر کے جملہ کوخصوصیّت سے قیامت میں خدا کے انسانوں کو آن کے اعمال کی خبردینے سے مربُوط سمجھتے ہیں جس کاذکر قبول کے جملہ میں آ یا ہے .لیکن ظا ہر ہے کہ یہ آ یت کے پورے مضمون کی طرف لوٹتاہے (اصل قیامت اوراس کی فرع جو آعمال کی خبردینے کامسئلہ ہے ، ایسی خبر جو حساب وجزا کے لیے ایک مُقدّمہ ہے ) ۔
بعد و آلی آ یت میں اِس سے یہ نتیجہ نکا لتاہے : اب جبکہ قیامت یقینی طورپر برپا ہوگی توتم سب کے سب خُدا اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اوراس نور پر ایمان لے آ ئو جسے ہم نے نازل کیا ہے (فَآمِنُو آ بِاللَّہِ وَ رَسُولِہِ وَ النُّورِ الَّذی أَنْزَلْنا) ۔
اور جان لوکہ خُدا تمہارے ان اعمال سے آگاہ ہے جنہیں تم انجام دیتے ہو (وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ خَبیر) ۔
اِس طرح سے یہ حکم دیتاہے کہ وہ اپنے آپ کوقیامت کے لیے ایمان اورعملِ صالح کے طریق سے آمادہ کریں .تین اصولوں پرایمان خدا ، رسول اور قرآن جس میں دُوسر ے اصول بھی درج ہیں ۔
قرآن کی نور کے عنو آن سے تعبیر ، متعدّد آ یات میں آ ئی ہے ، اور لفظ انزلنا (ہم نے نازل کیا) کی تعبیر،اس پر ایک اورشاہد ہے .اگرچہ متعدّد رو آیات میں جو آہل بیت کے ذ ریعہ ہم تک پہنچی ہیں، زیر بحث آ یت میں لفظ نور و جُود امام سے تفسیر ہُو آ ہے .ممکن ہے یہ تفسیر اس لحاظ سے ہو کہ وجودِ امام علیہ السلام کو کتاب اللہ کاعملی تجسّم شمار ہوتاہے .اسی لیے بعض اوقات پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امام علیہ السلام کوقرآن ِ ناطق سے یاد کیاگیاہے . ان رو آیات میں سے ایک میں امام باقر علیہ السلام سے آ یا ہے کہ آ پ علیہ السلام نے آئمہ علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:
وھم الذین ینورون قلوب المؤ منین ۔
اور (آئمہ ) وہی ہیں جومومنین کے دلوں کو نور اور روشنی بخشتے ہیں ( ٢) ۔
بعد و آلی آ یت قیامت کے دن کی توصیف کرتے ہُوئے کہتی ہے : یہ بعث ونشوراورحساب وجزا اس دن ہوگا جب وہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کرے گا (یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ )(٣) ۔
ہاں ! قیامت کے ناموں میں سے ایک نام یوم الجمع بھی ہے ، جس کی طرف آ یات قرآنی میں مختلف تعبیروں کے ساتھ بارہا اشارہ ہُو آ ہے منجملہ ان کے سُورہ ٔ و آقعہ کی آ یت ٤٩ ، ٥٠ میں آ یا ہے :قُلْ ِنَّ الْأَوَّلینَ وَ الْآخِرینَ ،لَمَجْمُوعُونَ ِلی میقاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ (50): کہہ دیجئے . تمام اوّلین و آخرین ایک معیّن دن کی میقات میں جمع ہوں گے اوراس سے اچھی طرح معلوم ہو جاتاہے کہ تمام انسانوں کی قیامت ایک ہی دن ہے .اِس کے بعد مزیدکہتا ہے : وہ دن تغابن کادن ہے (ذلِکَ یَوْمُ التَّغابُن) ۔
وہ ایسا دن ہے کہ جس میں غابن (سبقت کرنے و آلا) اور مغبون ( ہار جانے و آلا ) پہچانا جائے گا .وہ دن جس میں یہ و آضح ہوجائے گاکہ کون لوگ اپنی تجارت میں عالمِ دنیامیں غبن ، زیان اور خسارے میں گرفتار ہُوئے ہیں ۔
وہ ایسادن ہے کہ جس میں اہل جہنّم جنّت میں اپنی خالی جگہ کودیکھیں گے اورافسوس کریں گے اور جنّتی دوزخ میں اپنی خالی جگہ کودیکھیں گے اورخوش ہوں گے . کیونکہ حدیث میں آ یاہے کہ ہرانسان کیلئے ایک جگہ جنّت میں اور ایک جگہ جہنّم میں ہے . اگر وہ جنّت میں چلا گیاتو اس کی جہنم و آلی جگہ دوزخیوں کے سپرد کردی جائیگی . اور اگر وہ جہنم میں چلاگیا تو اس کی جنّت و آلی جگہ بہشتیو ں کو دے دی جائے گی ( ٤)اوراحتمال یہ ہے کہ کہ اس مورد میں ، آ یات ِ قرآنی میں ارث کی تعبیر اسی مطلب کے لیے آ ئی ہے ۔

اِس طرح سے قیامت کا ایک نام یوم التغابن غبنوں کے ظُہور کادن ہے ( ٥) اس کے بعد اُس دن میں مومنین کی حالت کو بیان کرتے ہُوئے مزید کہتاہے :
جوشخص خداپر ایمان لائے گا اور اعمال صالح انجام دے گا ، خُدا اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتے ہُوئے انہیں ختم کردے گا .وہ انہیں جنّت کے ایسے باغوں میں و آرد کرے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ، وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور یہ ایک عظیم کامیابی ہے ( وَ مَنْ یُؤْمِنْ بِاللَّہِ وَ یَعْمَلْ صالِحاً یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئاتِہِ وَ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ خالِدینَ فیہا أَبَداً ذلِکَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ) ۔
اس طرح سے جب دو اصل شرطیں یعنی ایمان اورعمل صالح حاصلِ ہوجائیں گی تو یہ عظیم نعمتیں اسے حاصل ہوں گی :
گناہوں کی بخشش ،جوفکر انسانی کو ہر چیز سے زیادہ اپنی طرف مشغول رکھتی ہے :
گناہ سے پاک ہونے کے بعد دائمی بہشت میں داخل ہونا اور فوز عظیم حاصل کرنا ۔
اس بناء پر تمام چیزیں ایمان اور عمل کے محور پر ہی گردش کرتی ہیں اور یہی اصلی سرمائے ہیں . یہی وہ لوگ ہوں گے جو آس دن یعنی یوم تغابن نہ صرف مغبُون نہیں ہوں گے بلکہ عظیم کامیابی پر فائز ہوں گے ۔
اس کے بعد مزیدکہتا ہے : لیکن وہ لوگ جو کافر ہوگئے اورہماری آیات کی تکذیب کی بیشک وہ اصحاب ِ نار یعنی دوزخ و آلے ہیں .وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اوران کا انجام بہُت ہی بُرا ہے (وَ الَّذینَ کَفَرُو آ وَ کَذَّبُو آ بِآیاتِنا أُولئِکَ أَصْحابُ النَّارِ خالِدینَ فیہا وَ بِئْسَ الْمَصیر) ۔
یہاں بھی دوچیزیں بدبختی کی عامل شمار ہوئی ہیں : کفر اور آ یاتِ الہٰی کی تکذیب جو ایمان اور عمل ِ صالح کی ضد ہیں .اس کے نتیجے میں وہاں بہشت ِ جا ودانی کے بارے میں اور یہاں ہمیشہ کے دوزخ کے بارے میں گفتگو ہے.وہاں فوز عظیم اور یہاں بیس المصیراور مرگبار انجام ہے ۔
ان دونوں آیات میں جنّتیوں اور دوزخیوں کے درمیان جوفرق نظر آتاہے ، ایک و یہ ہے کہ جنیّتوں کے بارے میں ہرچیز سے پہلے گناہوں کی مغفرت کاذکر ہُو آ ہے کہ جودوزخیوں کے بارے میں نہیں آ یا . دوسرا یہ کہ وہاں جنّت میں خلود یعنی ہمیشہ رہنا ، لفظ ابداً کے ساتھ ذکر ہُو آ ہے لیکن لیکن دوزخیوں کے بارے میں صرف خُلوص اورہمیشہ رہنے کے مسئلہ پراکتفا کی گئی ہے ۔
تعبیر کایہ فرق ممکن ہے اس بناء پر ہو کہ دوزخیوں کے درمیان ایسے کافر بھی ہوں گے جنہوں نے ایمان و کُفر کے مسئلہ کو آپس میں ملا دیاہے ، پھر وہ اپنے ایمان کی بناء پر انجام کار عذاب سے رہائی پاجائیں ،یایہ اس کی رحمت کے اس کے غضب پر غلبہ کی طرف اشارہ ہے ۔
لیکن بعض مفسّرین کاخیال ہے کہ دُوسر ے جملے میں ابداً محذُوف ہے کیونکہ یہ پہلے جملے میں آچُکا ہے ۔
١۔ مجمع البحرین مادہ "" زعم ""۔
٢۔ نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٣٤١۔
۳."یوم یجمعکم" ممکِن ہے کہ" لتبعثن" یاجُملہ "لتنبؤن" یا"خبیر" سے متعلّق ہو۔ یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ"اذکر" جیسے محذوف جملہ سے متعلق ہولیکن یہ آخری احتمال بعیدنظر آتاہےبلکہ گذشتہ احتمالوں میں سے کوئی ایک مناسب ہے ۔
٤۔ نورالثقلین ،جلد٣،صفحہ ٥٣٢۔
٥۔ "" تغابن "" باب تفاعل سے ہے اورعام طورپر ایسے مو آڑ میں بو لاجاتاہے جو دو جانبہ ہوں . جیسے تعارض وتز اخم وغیرہ اورقیامت کے بارے میں یہ معنی ممکن ہے اس طرح سے ہو کہ مومنین کے گروہ اورکفّار کے تعارض کانتیجہ قیامت میں ظاہر ہوگا اورحقیقت میں قیامت کادن تغابن کے ظہُور کادن ہوگا. اہل لغت کے بعض کلمات سے بھی اس بات کاپتہ چلتاہے کہ باب تفاعل ہمیشہ اس معنیٰ کے لیے نہیں آ تا اوریہاں ظہور غین کے معنیٰ میں ہے (مفردات ِ راغب مادّہ غبن) ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma