۱۰۷۔ کیا دنوں کو سعد و نحس ماننا صحیح ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۱۰۶۔ گناہان کبیرہ کا معیار کیا ہے؟ ۱۰۸۔ کیا اصحاب کہف کا واقعہ سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟

عوام الناس کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ کچھ دن سعد اور نیک ہوتے ہیں اور کچھ نحس ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں شدید اختلاف ہے کہ کون کون سے دن سعد یا نحس ہیں؟یہاں بحث یہ ہے کہ عوام الناس کا یہ عقیدہ اسلام کی نظر میں کہاں تک قابل قبول ہے؟ یا یہ نظریہ اسلام ہی سے لیا گیا ہے؟ اگرچہ عقلی لحاظ سے زمان اور ایام میں فرق کا پایا جانا محال نہیں ہے، کہ بعض ایام نحوست کی علامت رکھتے ہوں اور بعض دن سعد اور نیک ہوں، اگرچہ ہمارے پاس ایسی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے جس کے ذریعہ ان کو ثابت کیا جائے یا اس کی نفی کی جائے، ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے لیکن عقلی لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا اگر اس سلسلہ میں شرعی دلائل موجود ہوں تو ان کو قبول کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کو ماننا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں صرف دومقامات پر ”نحوستِ ایام“ کی طرف اشارہ ہوا ہے،ایک سورہ قمر ، آیت نمبر ۱۹ میں اور دوسرا سورہ فصلت ، آیت نمبر ۱۶/ میں جہاں قوم عاد کے واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: <فَاٴَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی اٴَیَّامٍ نَحِسَاتٍ(1)
”تو ہم نے بھی ان کے اوپر تیز اور تند آندھی کو ان کی نحوست کے دنوں میں بھیج دیا“۔(2)
اس کے مد مقابل بعض آیات میں دنوں کے لئے لفظ ”مبارک“ آیا ہے، جیسا کہ شب قدر کے بارے میں ارشاد ہے: <اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ(3) ”ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے “۔
”نحس“ اصل میں افق کی بہت زیادہ سرخی کو کہتے ہیں جس کو ”نحاس“ (یعنی ایسا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو ) کی شکل میں لاتے ہیں، لیکن بعد میں اس کو ”شوم “(یعنی بُرے) کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید میں صرف اس مسئلہ کی طرف مجمل اشارہ ہے، لیکن دنوں کے ”سعد و نحس“ کے سلسلہ میں اسلامی منابع میں بہت سی روایات موجود ہیں، اگرچہ ان میں سے متعدد روایات ضعیف ہیں، یا بعض روایات خرافات سے ملی جلی ہیں، لیکن سب ایسی نہیں ہیں، بلکہ ان کے درمیان متعدد روایات معتبر اور قابل قبول ہیں، جیسا کہ مذکورہ آیات کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ محدث بزرگوار مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلہ میں بہت سی احادیث ”بحار الانوار“ میں بیان کی ہیں۔(4)
ہم یہاں چند مطالب مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
الف۔ متعدد روایات میں تاریخوں کو سعد و نحس ان تاریخوں میں واقع ہونے والے واقعات کی بنا پر سعد و نحس کہا گیا ہے، مثال کے طور پر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ جس میں ”چہارشنبہ“ کے بارے میں سوال کیا جس کو عوام الناس کے درمیان اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اس کو بار سمجھا جاتا ہے، امام سے سوال کیا کہ وہ کونسا چہار شبہ ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس سے مراد مہینہ کا آخری چہار شنبہ ہے، جس میں بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں، اسی روز قابیل نے اپنے بھائی ”ہابیل“ کو قتل کی اور اسی روز چہار شنبہ میں خداوندعالم نے قوم عاد پر تیز آندھی کے ذریعہ عذاب نازل کیا“۔(5)
لہٰذا متعدد مفسرین نے اس طرح کی بہت سی روایات کی پیروی کرتے ہوئے ہر مہینہ کے آخری چہار شنبہ کو روز ”نحس“ قرار دیا، اور اس کو ”اربعاء لا تدور“ قرار دیا، (یعنی ایسا چہار شنبہ جس کی تکرار نہیں ہوتی)
اسی طرح بعض دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ نیک اور مبارک ہے، کیونکہ اس میں جناب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی طرح ہر ماہ کی ۲۶ تاریخ کو نیک شمار کیا ہے کیونکہ خداوندعالم نے اس تاریخ میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنایا۔(6)
اسی طرح ہر ماہ کی ۳تاریخ کو نحس قرار دیا کیونکہ اس تاریخ میں جناب آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے نکالا گیا اور ان کے بدن سے جنتی لباس جدا ہوگیا۔(7)
یا ہر مہینہ کی سات تاریخ کو نیک مانتے ہیں کیونکہ اس تاریخ میں جناب نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے (اور غرق ہونے سے نجات پاگئے)(8)
یا جیسا کہ نو روز کے سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ ایک مبارک روز ہے جس میں جناب نوح علیہ السلام کی کشتی جودی نامی پہاڑی پر رکی، جناب جبرئیل پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئے، اسی روز حضرت علی علیہ السلام نے دوش پیغمبر اکرم (ص) پر سوار ہوکر خانہ کعبہ سے بتوں کو توڑا، اور واقعہ غدیر خم بھی اسی نو روز میں واقع ہوا ہے(9)
المختصر : اس طرح کے الفاظ بہت سی روایات میں بیان ہوئے ہیں جن میں بعض اچھے واقعات اور بعض ناگوار واقعات کی بنا پر تاریخوں کو سعد یانحس قرار دیا ہے، خصوصاً روز عاشورہ کے سلسلہ میں جس کو بنی امیہ اہل بیت علیہم السلام پر کامیابی کے گمان سے اس دن کو ایک مبارک روز شمار کرتے تھے، لہٰذا روایات میں اس دن کو مبارک ماننے سے نہی کی گئی ہے بلکہ اس روز کاروبار اور تحصیل رزق کی تعطیل کے لئے کہا گیا ہے، تاکہ عملی طور پر بنی امیہ کے اس کام سے دوری اختیار کریں، لہٰذا اس طرح کی روایات کے پیش نظر بعض علمانے سعد و نحس کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ اسلام نے ان واقعات کی طرف توجہ دی ہے تاکہ انسان خود کو عملی طور پر تاریخی مثبت واقعات کے مطابق قرار دے ، اور بُرے اور غلط واقعات، نیز اس طرح کے واقعات کو رونما کرنے والوں سے دوری اختیار کریں۔
ممکن ہے کہ یہ تفسیر بعض روایات کے سلسلہ میں صادق اور صحیح ہو لیکن تمام روایات کے سلسلہ میں مسلم طور پر صادق نہیں ہے کیونکہ انھیں بعض روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض دنوں میں مخفی تاثیر پائی جاتی ہے جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔
ب۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض لوگ سعد و نحس کے سلسلہ میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تاریخ کے سعد و نحس ہونے کی جستجو کرتے ہیں، جن کی وجہ سے بعض کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں، اور اس سنہری موقع کو گنوا بیٹھتے ہیں۔
یا یہ کہ اپنی یا دوسروں کی کامیابی یا ناکامی کے اسباب و علل کی جستجو کرنے اور اپنی زندگی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہر طرح کی ناکامی کو تاریخ اور دنوں کی گردن پر یہ کہہ کر ڈال دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں تاریخ ہی نحس تھی، اور اسی طرح کامیاب ہونے پر نیک اور مبارک تاریخ ہونے کی علت سمجھتے ہیں!
لیکن یہ ایک طرح حقیقت سے فرار اور اس مسئلہ میں زیادہ روی سے کام لینا اور حوادث زندگی کی فضول توضیح و تفسیر ہے جس سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے، ان مسائل میں عوام الناس میں شایع شدہ مسائل پر دھیان نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی منجمین کی باتوں پر عمل کرنا چاہئے اورنہ ہی فال نکالنے والوں کی باتوں پر عمل کیا جائے، اگر اس سلسلہ میں کوئی چیز معتبر حدیث کے ذریعہ ثابت ہوجائے تو اس کو قبول کیا جائے ، اگر ثابت نہ ہو توہر کس و نا کس کی بات پر تو جہ نہ کرتے ہو ئے اپنی زندگی کو آگے بڑھایا جائے، سعی و کوشش کرتے ہوئے اپنے قدم بڑھائے، انسان خدا پر بھروسا کرے اور اسی کی نصرت و مدد طلب کرے۔
ج۔ تاریخوں کے سعد ونحس کے مسئلہ پر توجہ ، غالباً انسان کو تاریخی مثبت واقعات کی طرف رہنمائی کے علاوہ سبب ہوتی ہے کہ انسان خداوندعالم کی ذات مقدس کی طرف متوجہ ہو اور اس کی ذات پاک سے نصرت ومدد طلب کرے،لہٰذا ہم متعدد روایات میں پڑھتے ہیں: جن تاریخوں کو نحس قرار دیا گیا ہے اس میں صدقہ دے کر، یا دعا پڑھ کر، خداوندعالم کے لطف و کرم سے نصرت ومدد طلب کرکے، قرآن کی بعض آیات کی تلاوت کرکے اور خداوندمنّان کی ذات پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کاموں کو انجام دے تا کہ اپنے کاموں میں کامیاب ہوجاؤ۔
جیسا کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص منگل کے روز امام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم کل نہیں آئے ؟ اس نے عرض کیا:کل پیر کا دن تھا، میں پیر کے دن گھر سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں مانتا! اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”جو شخص پیر کے دن کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے نماز صبح کی پہلی رکعت میں سورہ ”ہل اتی“ پڑھنی چاہئے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے سورہ ہل اتی کی اس آیت کی تلاوت فرمائی (جو شر اوربلا کے دور ہونے کے لئے مناسب ہے): < فَوَقَاہُمْ اللهُ شَرَّ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَلَقَّاہُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا (10) ”تو خدا نے انھیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی و سرور عطا کر دیا“۔11)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: کیا روز چہار شنبہ جس کو نحس قرار دیا گیا یا اس کے علاوہ دوسرے نحس دنوں میں سفر کرنا مناسب ہے؟ امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: صدقہ دے کر سفر کا آغاز کرو، اور نکلتے وقت آیة الکرسی کی تلاوت کرو (اور جہاں چاہو سفر کرو)(12)
نیز ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص کہتا ہے: میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، حالانکہ راستہ میں میری انگلی زخمی ہوگئی تھی،چو نکہ ایک سواری میرے پاس سے گزری جس کی وجہ سے میرا شانہ زخمی ہوگیا، جس کی بنا پر کچھ لوگوں سے نزاع ہوگئی اور انھوں نے میرے کپڑے تک پھاڑ ڈالے، میں نے کہا: اے دن !خدا تیرے شر سے محفوظ رکھے، کتنا برا دن ہے! اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: تو ہماری محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس طرح کہتا ہے؟! اس دن کی کیا خطا ہے جو تو اس دن کو گناہگار قرار دیتا ہے؟ چنانچہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام سے یہ گفتگو سن کر ہوش میں آیا اور میں نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے عرض کی: اے میرے مولا و آقا! میں توبہ و استغفار کرتا ہوں، اور خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں۔اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایا: ”دنوں کا کیا گناہ ہے؟ کہ تم ان کو بُرا اور نحس مانتے ہو جب کہ تمہارے اعمال ان دنوں میں تمہارے دامن گیر ہوتے ہیں“؟!
راوی کہتا ہے: ”میں نے عرض کی میں خدا سے ہمیشہ کے لئے استغفار کرتا ہوں، اے فرزندِ رسول !میں توبہ کرتا ہوں“۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:”اس سے کوئی فائدہ نہیں، جس چیز میں مذمت نہیں ہے اس کی مذمت کرنے پرخدا تمہیں سزا دے گا ، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خداوندعالم ثواب و عذاب دیتا ہے، اور اعمال کی جزا اس دنیا اور آخرت میں دیتا ہے، اس کے بعد مزید فرمایا: اس کے بعد اس عمل کی تکرار نہ کرنا، اور حکم خدا کے مقابل دنوں کی تاثیر پر عقیدہ نہ رکھنا“۔(13)
(قارئین کرام!) یہ پُر معنی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر دنوں کا کوئی اثر ہے بھی تو وہ حکم خدا سے ہے، لہٰذا ان کے لئے مستقل طور پر تاثیر کا قائل نہ ہونا چاہئے، اپنے کو خدا کے لطف وکرم سے بے نیاز نہیں جاننا چاہئے، ان واقعات کو جو اکثر اوقات انسان کے بُرے اعمال کا کفارہ ہوتے ہیں ؛ دنوں کی تاثیر نہیں جاننا چاہئے اور اپنے کو بری الذمہ نہیں قرار دینا چاہئے، اس سلسلہ میں ان مختلف روایات کو جمع کرنے کے لئے شاید یہ بہترین راستہ ہو۔ (غور کیجئے )(14)


(1)سورہٴ فصلت ، آیت ۱۶
(2) توجہ رہے کہ مذکورہ آیت میں ”نَحِسَاتٍ“ کا لفظ آیا ہے جو ایام کی صفت ہے، یعنی وہ دن نحس تھے، جبکہ آیات محل بحث<فی یوم نحس مستمرمیںیوم ”نحس“ کی طرف مضاف ہوا ہے اور صفت کے معنی میں نہیں ہے، لیکن مذکورہ آیت کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ یہاں پر موصوف ،صفت کی طرف اضافہ ہوا ہے
(3)سورہ دخان ، آیت ۳
(4) بحارالانوار ، جلد ۵۹ کتاب ”السماء والعالم “صفحہ ۱تا۹۱،اور کچھ روایات اس کے بعد بیان کی ہیں
(5) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۸۳، (حدیث ۲۵)
(6) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۰۵
(7) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۵۸
(8) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۶۱
(9) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۹۲
(10) سورہ دہر ، آیت۱۱
(11) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۳۹، حدیث۷
(12) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۲۸
(13) تحف العقول ، بحا رالانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۲کی نقل کے مطابق، (مختصر فرق کے ساتھ)
(14)تفسیر نمونہ ، جلد ۲۳، صفحہ ۴۱
۱۰۶۔ گناہان کبیرہ کا معیار کیا ہے؟ ۱۰۸۔ کیا اصحاب کہف کا واقعہ سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma