گناہان کبیرہ کی طرف قرآن مجید میں چند آیات میں اشارہ ہوا ہے(1) جن کے بارے میں مفسرین، فقہا اور محدثین نے طولانی گفتگو کی ہے۔
بعض مفسرین تمام گناہوں کو ”گناہان کبیرہ“ مانتے ہیں، کیونکہ صاحب عظمت خدا ہر گناہ بڑا ہے۔
جبکہ بعض علمانے ”کبیرہ“ اور ”صغیرہ“ کو نسبی امر بتایا ہے، اور ہر گناہ کو دوسرے اہم گناہ کے مقابل صغیرہ قرار دیا ہے اور اس سے چھوٹے گناہ کی نسبت کبیرہ قرار دیا ہے۔
بعض مفسرین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے جن پر قرآن مجید میں عذاب الٰہی کا وعدہ کیا گیا ہے۔
نیز بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس کے ارتکاب کرنے والے پر ”حدّ شرعی “ جاری ہوتی ہے۔ لیکن سب سے بہتر یہ ہے کہ ہم یوں کہیں کہ بعض گناہ کو ”کبیرہ“کہنا خود اس کے عظیم ہونے پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا جس گناہ میں درج ذیل شرائط میں سے کوئی ایک شرط پائی جائے تو وہ گناہ کبیرہ ہے:
الف۔ جن گناہوں پر عذاب الٰہی کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ب۔ جن گناہوں کو قرآن و سنت میں اہم قرار دیا گیا ہے۔
ج۔ جن گناہوں کو شرعی منابع میں گناہ کبیرہ سے بھی عظیم قرار دیا گیا ہے۔
د۔ جن گناہوں کے بارے میں معتبر روایات میں کبیرہ ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔
اسلامی روایات میں ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے، بعض روایات میں سات گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے: (قتل نفس، عقوق والدین، سود خوری، ہجرت کے بعد دار الکفر کی طرف پلٹ جانا، پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا، یتیموں کا مال کھانا اور جہاد سے فرار کرنا)(2)
بعض دیگر روایات میں (بھی) ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد سات ہی بیان کی گئی ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس میں عقوق والدین کی جگہ یہ جملہ بیان ہوا ہے کہ ”کُلَّمَا اٴوْجَبَ اللهعلَیہ النَّار“ (جن چیزوں پر خدا نے جہنم کو واجب قرار دیا ہے)
جبکہ بعض دوسری روایات میں ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد ۱۰، بعض میں ۱۹، اور بعض میں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔(3)
گناہان کبیرہ کی تعداد کے سلسلہ میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ تمام گناہان کبیرہ برابر نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے بعض کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یا بالفاظ دیگر ”اکبر الکبائر“ (کبیرہ سے زیادہ بڑا) ہے، لہٰذا ان کے درمیان کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔(4)