جن لوگوں نے روز قیامت کی میزان کو دنیا کی ترازو کی طرح قرار دیا ہے وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ انسان کے اعمال کے لئے ایک قسم کا وزن قرار دیں تاکہ اس کو ترازو میں تولا جاسکے۔
لیکن بہت سے قرائن و شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ”میزان“ سے مراد عام ناپ تول کے معنی میں ہے، کیونکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر چیز کی ناپ تول کے لئے ایک الگ آلہ ہوتا ہے، درجہ حرارت کو معین کرنے کے لئے ”تھرما میٹر“ ہوتا ہے، یا ہوا کا اندازہ لگانے کے لئے ”ایر میٹر “ ہوتا ہے۔ لہٰذا میزانِ اعمال سے مراد وہ افراد ہیں جن کے اعمال کے ذریعہ نیک اور بُرے لوگوں کے اعمال کا موازنہ کیا جائے، جیسا کہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ شیخ مفید ۺ سے نقل کرتے ہیں: ”ان امیر الموٴمنین والائمة من ذریتہ (ع)ھم الموازین“(1) (امیر المومنین اور ائمہ (علیہم السلام)قیامت میں عدل الٰہی کی میزان ہیں)”اصول کافی“ اور ”معانی الاخبار“ میں بھی حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آیہٴ شریفہ :<وَنَضعُ المَوازِینَ القِسط لِیَومِ القَیامةِ (ہم روز قیامت عدل و انصاف کی ترازو قرار دیں گے) کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ھم الانبیاء والاوصیاء“(2) (میزان اعمال سے مراد انبیاء ا ور ان کے جانشین ہیں)
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیاراتِ مطلقہ میں سے ہم ایک زیارت میں پڑھتے ہیں: ”السَّلام علیٰ مِیزَانُ الاٴعمَال“ (سلام ہو تم پر اے میزان اعمال!)(3)
در اصل یہ عظیم الشان شخصیات اعمال کے لئے نمونہ اور معیار ہیں، اور ہر شخص کے اعمال اگر ان حضرات کے اعمال سے شباہت رکھتے ہیں تو ان کا وزن ہے اور اگر ان کے اعمال سے شباہت نہیں رکھتے تو ان کا کوئی وزن نہیں ہے، یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی اولیاء اللہ، اعمال کے لئے معیار ہیں ، لیکن روز قیامت یہ مسئلہ بالکل واضح ہوجائے گا۔(4)