۷۷۔ جہاد کا مقصد کیا ہے؟ اور ابتدائی جہاد کس لئے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
76۔ فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟ ۷۸۔ اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ہے؟

اسلامی جہاد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ ابتدائی جہاد (آزادی کے لئے)
خداوندعالم نے انسان کی سعادت و خوشبختی، آزادی اور کمال تک پہنچنے کے لئے احکام بیان کئے ہیں، اور اپنے مرسلین کو ذمہ داری دی ہے تاکہ یہ احکام لوگوں تک پہنچائیں، اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ اسلامی احکام کو اپنے منافع میں مزاحم سمجھے اور ان کے پہچانے میں مانع اور رکاوٹ بنے تو انبیاء علیہم السلام کو اس بات کا حق ہے کہ پہلے انھیں گفتگو کے ذریعہ سمجھائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو طاقت کے ذریعہ ان کو راستہ سے ہٹا دیں اور آزاد طریقہ سے تبلیغ کے فر ائض انجام دیں۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ہر معاشرہ کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ راہ حق کے منادی افراد کی ندا کو سنیں اور اس دعوت کے قبول کرنے میں آزاد ہوں، لہٰذا اگر کوئی ان کو اس جائز حق سے محروم کرنا چاہے اور ان کو راہ خدا کے منادی افرادکی آواز سننے سے روکے ، تو ان کو یہ حق ہے کہ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا سہار ا لیں، یہیں سے اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں ”ابتدائی جہاد “ کی ضرورت واضح و روشن ہوجاتی ہے۔
اور اسی طرح اگر کچھ لوگ مومنین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے گزشتہ مذہب کی طرف لوٹ جائیں تو اس موقع پر بھی کسی طاقت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
۲۔ دفاعی جہاد :
اگر کسی شخص یا گروہ پر دشمن کی طرف سے حملہ کیا جاتا ہے تو اس موقع پر تمام آسمانی اور انسانی قوانین اس بات کا حق دیتے ہیں کہ انسان اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور اپنے دفاع کے لئے اپنی پوری طاقت لگادے، اور اپنی حفاظت کے لئے کوئی بھی حربہ اپنانے میں چون و چرانہ کرے، اس قسم کے جہاد کو ”دفاعی جہاد“ کہا جاتا ہے، اسلام کی مختلف جنگیں اسی طرح کی تھیں جیسے جنگ احزاب، جنگ احد، جنگ موتہ، جنگ تبوک، جنگ حنین وغیرہ، یہ تمام جنگیں دفاعی پہلو رکھتی تھیں۔
۳۔ کفر اور شرک کی نابودی کے لئے جہاد
اسلام ؛ اگرچہ دنیا بھر کے لوگوں کو اس دین (جو سب سے عظیم اور آخر ی دین ہے)کے انتخاب کے لئے دعوت دیتا ہے لیکن ان کے عقیدہ کی آزادی کا احترام کرتا ہے اسی وجہ سے جو اقوام آسمانی کتاب رکھتی ہیں ان کو اسلام قبول کرنے کے لئے غور و فکر کے لئے کافی فرصت دیتا ہے، او راگر انھوں نے اسلام قبول نہ کیا تو ان کے ساتھ ایک ”ہم پیمان اقلیت“ کے عنوان سے معاملہ کرتا ہے اور خاص شرائط کے تحت (جو نہ مشکل ہیں اور نہ پیچیدہ) ان کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ہے۔
لیکن کفر و شر ک نہ دین ہے ،نہ کوئی مذہب اور نہ ہی قابل احترام ہے، بلکہ ایک قسم کی خرافات، انحراف اور حماقت ہے، در اصل ایک فکری اور اخلاقی بیماری ہے جس کو کسی نہ کسی طرح ختم ہونا چاہئے۔
دوسروں کی ”آزادی“ اور ”احترام“کی بات ان مقامات پرکیجا تی ہے جہاں فکر و عقیدہ میں کوئی ایک صحیح اصل پائی جاتی ہو لیکن انحرافات، گمراہی اور فکری بیماری قابل احترام نہیں ہے اسی وجہ سے اسلام کا حکم ہے کہ کفر و شرک کا دنیا بھر سے نام و نشان تک مٹا دیا جائے ،چاہے جنگ کرنی پڑے، اگر بت پرستی کے بُرے آثار گفتگو کے ذریعہ ختم نہ ہوں تو جنگ کے ذریعہ ان کا خاتمہ کردیا جائے۔(1)
ہماری مذکورہ باتوں سے گرجا گھروں کے زہریلے پروپیگنڈے کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں <لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّینِ(2)سے واضح آیت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔
البتہ وہ لوگ اسلامی جہاد اور اسلامی جنگوں میں تحریف کرنے کے لئے مختلف بہانہ بازی کرتے ہیں جبکہ اسلامی جنگوں کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے بہت سی جنگیں دفاعی پہلو رکھتی تھیں اور بعض وہ جنگیں جو ”ابتدائی جہاد “ کی صورت میں تھیں وہ بھی دوسرے ملکوں پر غلبہ کرنے اور مسلمانوں کو طاقت کے بل پر اسلام قبول کرانے کے لئے نہیں تھی بلکہ اس ملک میں حکم فرما ظالمانہ نظام کے خاتمہ کے لئے تھیں تاکہ اس ملک کے با شندے مذہب قبول کرنے میں آزاد رہیں۔
اس گفتگو پر تاریخ اسلام گواہ ہے،جن میں یہ بات بارہا بیان کی گئی ہے کہ جب مسلمان کسی ملک کو فتح کرتے تھے تودوسرے مذاہب کے پیرووٴں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور اگر ان سے ایک معمولی جزیہ حاصل کرتے تھے جو امنیت اور حافظ امنیت لشکر کے خرچ کے لئے ہوتا تھا کیونکہ ان کی جان و مال اور ناموس اسلام کی حفاظت میں تھی یہاں تک کہ وہ اپنے دینی پروگرام کرنے میں بھی آزاد تھے۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے افراد اس حقیقت کو جانتے ہیں یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے اور کتاب لکھنے والے عیسائی محققین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے مثلاً کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں تحریر ہے: ”دوسرے مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کا طریقہٴ کار اتنا ملائم تھا کہ مذہبی روٴساء کو مذہبی پروگرام کرنے کی اجازت تھی“۔
یہاں تک کہ بعض اسلامی تاریخ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جو عیسائی اسلامی تحقیق کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے اپنی مذہبی دعاؤں کا پروگرام آزادطریقے سے مسجد النبی(مدینہ) میں انجام دیا کرتے تھے۔(3)


(1) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۵
(2) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۶، ترجمہ: ”دین (قبول کرنے) میں کوئی جبر نہیں ہے“
(3) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۲۰۵

 
76۔ فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟ ۷۸۔ اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma