۴۵۔قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۴۴۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ہوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟ ۴۶۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ہیں؟

جیسا کہ ہم سورہ آل عمران میں پڑھتے ہیں: < ہُوَ الَّذِی اٴَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ اٴُمُّ الْکِتَابِ وَاٴُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ (1)
”اس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیں محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں“۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ سے کیا مراد ہے؟
لفظ ”محکم“ کی اصل ”احکام“ ہے اسی وجہ سے مستحکم او رپائیدار موضوعات کو ”محکم“ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ خود سے نابودی کے اسباب کو دور کرتے ہیں، اور اسی طرح واضح و روشن گفتگوجس میں احتمال خلاف نہ پایا جاتا ہو اس کو ”محکم“ کہا جاتا ہے، اس بنا پر ”محکمات“ سے وہ آیتیں مراد ہیں جن کا مفہوم اور معنی اس قدر واضح اور روشن ہو کہ جس کے معنی میں بحث و گفتگو کی کوئی گنجائش نہ ہو، مثال کے طور پر درج ذیل آیات :
<قُلْ ھُوَ اللهُ اٴحدٌ <لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیءٌ <اللهخَالِقُ کُلّ شَیءٍ <لِلذَکَرِ مِثْلُ حَظَّ الاٴنْثَیَینِ
اور اس کی طرح دوسری ہزاروں آیات جو عقائد، احکام، وعظ و نصیحت اور تاریخ کے بارے
میں موجود ہیں یہ سب آیات ”محکمات“ ہیں، ان محکم آیات کو قرآن کریم میں ”امّ الکتاب“ کانام دیا گیا ہے، یعنی یہی آیات اصل ،اور مرجع و مفسر ہیں اور یہی آیات دیگر آیات کی وضاحت کرتی ہیں۔
لفظ ”متشابہ“ کے لغوی معنی یہ ہیں کہ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے شبیہ اور مانند ہوں، اسی وجہ سے ایسے جملے جن کے معنی پیچیدہ ہوں اور جن کے بارے میں مختلف احتمالات دئے جاسکتے ہوں ان کو ”متشابہ“ کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم میں بھی یہی معنی مراد ہیں، یعنی ایسی آیات جن کے معنی ابتدائی نظر میں پیچیدہ ہیں شروع میں کئی احتمالات دئے جاتے ہیں اگرچہ آیات ”محکمات“ پر توجہ کرنے سے اس کے معنی واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ کے سلسلہ میں مفسرین نے بہت سے احتمالات دئے ہیں لیکن ہمارا پیش کردہ مذکورہ نظریہ ان الفاظ کے اصلی معنی کے لحاظ سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور شان نزول سے بھی، آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں بیان ہونے والی روایات سے بھی،اورمحل بحث آیت سے بھی، کیونکہ مذکورہ آیت کے ذیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ بعض خود غرض لوگ ”متشابہ“ آیات کو اپنی دلیل قرار دیتے تھے، یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ آیات سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ متشابہ آیات سرسری نظر میں متعدد معنی کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ”متشابہ“ سے وہی معنی مراد ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔
”متشابہ“ وہ آیات ہیں جو خداوندعالم کے صفات اور معاد کی کیفیت کے بارے میں ہیں ہم یہاں پر چند آیات کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:<یَدُ اللهِ فُوقَ اَیْدِیْہِم (خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے) جو خداوندعالم کی قدرت کے بارے میں ہے، اسی طرح <وَاللهُ سَمِیْعُ عَلِیْمُ (خدا سننے والا اور عالم ہے) یہ آیت خداوندعالم کے علم کے بارے میں دلیل ہے، اسی طرح <وَنَضَعُ المَوَازِینَ القِسْطِ لِیَومِ القَیَامَةِ( ہم روزِ قیامت عدالت کی ترازو قائم کریں گے) یہ آیت اعمال کے حساب کے بارے میں ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ نہ خداوندعالم کے ہاتھ ہیں اور نہ ہی وہ آنکھ اور کان رکھتا ہے، اور نہ ہی اعمال کے حساب و کتاب کے لئے ہمارے جیسی ترازو رکھتا ہے بلکہ یہ سب خداوندعالم کی قدرت اور اس کے علم کی طرف اشارہ ہیں۔
یہاں اس نکتہ کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں محکم اور متشابہ دوسرے معنی میں بھی آئے ہیں جیسا کہ سورہ ہود کے شروع میں ارشاد ہوتا ہے: <کتاب احکمت آیاتہاس آیت میں تمام قرآنی آیات کو ”محکم“ قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں ،اور سورہ زمر میں آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد ہوتا ہے: <کتاباً متشابہاس آیت میں قرآ ن کی تمام آیات کو متشابہ قراردیا گیا ہے کیو نکہ یہاں متشابہ کے معنی حقیقت ،صحیح اور درست ہونے کے لحاظ سے تمام آیات ایک دوسرے جیسی ہیں۔
لہٰذا محکم اور متشابہ کے حوالہ سے ہمارے بیان کئے ہو ئے مطالب کے پیش نظر معلوم ہوجاتا ہے ایک حقیقت پسند اور حق تلاش کرنے والے انسان کے لئے خداوندعالم کے کلام کو سمجھنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ تمام آیات کو پیش نظر رکھے اور ان سے حقیقت تک پہنچ جائے ،چنانچہ اگر بعض آیات میں ابتدائی لحاظ سے کوئی ابہام اور پیچیدگی دیکھے تو دوسری آیات کے ذریعہ اس ابہام اور پیچیدگی کو دور کرکے اصل تک پہنچ جائے، درحقیقت ”آیات محکمات“ ایک شاہراہ کی طرح ہیں اور ”آیات متشابہات“ فرعی راستوں کی طرح ہیں ، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر انسان فرعی راستوں میں بھٹک جائے تو کوشش کرتا ہے کہ اصلی راستہ پر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کرصحیح راستہ کو معین کرلے۔
چنا نچہ آیات محکمات کو ”امّ الکتاب“ کہا جانا بھی اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ عربی میں لفظ ”امّ“ کے معنی ”اصل اور بنیاد“ کے ہیں، اور اگر ماں کو ”امّ“ کہا جاتا ہے تو اسی وجہ سے کہ بچوں کی اصل اور اپنی اولاد کی مختلف مشکلات اور حوادث میں پناہ گاہ ہوتی ہے، اسی طرح آیات محکمات دوسری آیات کی اصل اور ماں شمار ہوتی ہیں۔(2)


(1)سورہ آل عمران ، آیت ۷
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۰
۴۴۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ہوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟ ۴۶۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma