22۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟ ۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟

22۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی عبادت کے ذریعہ سعادت اور کمال تک پہنچنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر کمال اور سعادت کے مخالف شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا، اس کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اور وہ بھی ایک ایسا وجود جو بہت ہوشیار، کینہ اور حسد رکھنے والا، مکار ، فریب کار اور اپنے ارادہ میں مصمم ہے!
(قارئین کرام!) اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیں تو اس دشمن کا وجود انسانوں کے کمال اورسعادت تک پہنچنے کے لئے مددگار ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے دفاع کرنے والی (ہماری ) فوج ،دشمن کے مقابلہ میں بہت زیادہ شجاع او ردلیر بن جاتی تھی، اور کامیابی کی منزلوں تک پہنچ جاتی تھی۔
طاقتور اور تجربہ کار وہی سپاہی اور سردار ہوتے ہیں جو بڑی بڑی جنگوں میں دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ لڑتے ہیں۔
وہی سیاستمدار تجربہ کار اور طاقتور ہوتے ہیں جو بڑے سے بڑے سیاسی بحران میںسختی کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔
نامی پہلوان وہی ہوتے ہیں جو اپنے مد مقابل طاقتور پہلوان سے زور آزمائی کرتے ہیں۔
اس وجہ سے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خداوندعالم کے نیک اور صالح بندے شیطان سے ہر روز مقابلہ کرتے کرتے دن بدن طاقتور اور قدرت مند ہوتے چلے جاتے ہیں!
آج کل کے دانشورانسانی جسم میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم کے بارے میں کہتے ہیں: اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے خلیے(Cells) سست اورناکارہ ہوجاتے اور ایک احتمال کی بنا پر انسان کی رشد و نمو ۸۰سینٹی میٹر سے زیادہ نہ ہوتی، اور سب کوتاہ قد نظر آتے، لیکن آج کا انسان مزاحم میکروب سے لڑتے لڑتے بہت طاقتور بن گیا ہے۔
بالکل اسی طرح انسان کی روح ہے جو ہوائے نفس اور شیطان سے مقابلہ کرتے کرتے طاقتور ہوجاتی ہے۔
لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بہکائے، پہلے شیطان کی خلقت دوسری مخلوق کی طرح پاک و پاکیزہ تھی انسان میں انحراف، گمراہی ، بدبختی اور شیطنت اس کے اپنے ارادہ سے ہوتی ہیں، لہٰذا خداوندعالم نے ابلیس کو شیطان نہیں پیدا کیا تھا اس نے خود اپنے آپ کو شیطان بنایا، لیکن شیطنت کے باوجود خدا کے حق طلب بندوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیںپہنچاتا بلکہ ان کی ترقی اور کامیابی کا زینہ ہے۔ (غور کیجئے )
لیکن یہاں پر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خداوندعالم نے اسے قیامت تک کی زندگی کیوں دیدی، کیوں فوراً ہی اس کو نیست و نابود کیوں نہ کردیا؟!
اگرچہ گزشتہ گفتگو سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے لیکن ہم ایک اور چیز عرض کرتے ہیں:
دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے، (انسان کی کامیابی اور ترقی کا باعث امتحان او رآزمائش ہے) اور ہم جانتے ہیں کہ یہ امتحان اور آزمائش ،بڑے دشمن اور طوفان سے مقابلہ کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
البتہ اگر شیطان نہ ہوتا تو بھی انسان کی ہوائے نفس اور نفسانی وسوسہ کے ذریعہ انسان کا امتحان ہوسکتا تھا، لیکن شیطان کے ہونے سے اس تنور کی آگ اور زیادہ بھڑک گئی ہے، کیونکہ شیطان باہر سے بہکانے والا ہے اور ہوائے نفس انسان کو اندر سے بہکاتی ہے۔(1) 

ایک سوال کا جواب: 

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوندعالم ایسے بے رحم اور طاقتور دشمن کے مقابلہ میں ہمیں تن تنہا چھوڑ دے؟ اور کیا یہ چیز خداوندعالم کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف سے ہم آہنگ ہے؟
اس سوال کا جواب درج ذیل نکتہ سے واضح ہوجائے گا اور جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم مومنین کے ساتھ فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے اور غیبی اور معنوی طاقت عطا کرتا ہے جس سے جہاد بالنفس اور دشمن سے برسرِ پیکار ہونے میں مدد ملتی ہے:
< إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمْ الْمَلَائِکَةُ اٴَلاَّ تَخَافُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُون # نَحْنُ اٴَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ (2)
”بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہواور اس جنت سے مسرور ہو جاوٴ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ،ہم زندگانی دنیامیں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں“۔
ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ شیطان کبھی بھی ہمارے دل میں اچانک نہیں آتا، اور ہماری روح کے باڈر سے بغیر پاسپورٹ کے داخل نہیںہو سکتا، اس کا حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا، وہ ہماری اجازت سے ہم پر سوار ہوتا ہے، جی ہاں وہ دروازہ سے آتا ہے نہ کہ کسی مورچہ سے، یہ ہم ہی ہیں جو اس کے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
< إِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ،إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ(3)
” شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے، اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں“۔
اصولی طور پر یہ انسان کے اعمال ہوتے ہیں جوشیطان کے سوار ہونے کا راستہ ہموار کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ(4) ”اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں“۔
لیکن بہرحال شیطان اور اس کے مختلف سپاہیوں کے رنگارنگ جال، مختلف شہوتیں، فساد کے ٹھکانے ، استعماری سیاست، انحرافی مکاتب اور منحرف ثقافت سے نجات کے لئے ایمان و تقویٰ، اور لطف الٰہی اور خدا پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
<وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلًا (5)
”اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے“۔(6)
انبیاء علیہم السلام


(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۵
(2) سورہٴ فصلت ، آیت۳۰۔ ۳۱
(3) سورہ نحل ، آیت ۹۹، ۱۰۰
(4) سورہٴ اسراء ، آیت۲۷
(5)سورہٴ نساء ، آیت۸۳
(6) تفسیر پیام قرآن ، جلد اول صفحہ ۴۲۳
 

 

۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟ ۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma