۵۵۔ کیا دس سالہ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۵۴۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟ ۵۶۔ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول فرمایا؟

یہ ایک مشہور و معروف سوال ہے جو قدیم زمانہ سے بہا نہ باز لو گوں کے درمیان ہوتا آرہا ہے اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ٹھیک ہے حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پہلے اظہار اسلام کیا، لیکن اس دس سالہ اور نابالغ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے یا نہیں؟ اور اگرآپ کے بلوغ کو معیار قرار دیں تو دوسرے بہت سے لوگ اس وقت اسلام یا مسلمان ہو چکے تھے ۔
یہاں ”مامون عباسی“ اور اس کے زمانہ کے ایک مشہور و معروف سنی عالم دین ”اسحاق“ کی گفتگو کا بیان کرنا مناسب ہے، (اس واقعہ کو ”ابن عبدربّہ“ نے اپنی کتاب ”عقد الفرید“ میں تحریر کیا ہے)
مامون نے اس سے کہا: پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت میں سب سے افضل کونسا عمل ہے؟
اسحاق نے کہا: خدا کی توحید اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی میں اخلاص سے کام لینا۔
مامون نے کہا: کیا تم کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہو جو حضرت علی علیہ السلام سے پہلے مسلمان ہوا ہو؟
اسحاق نے کہا: علی اس وقت اسلام لائے جب وہ کم سن اور نابالغ تھے، اور شرعی ذمہ داریاں بھی ان پر نافذ نہیں ہوئی تھیں۔
مامون نے کہا: حضرت علی علیہ السلام کا اسلام پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کی بنا پر تھا یا نہیں؟ اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے اسلام کو قبول کیا یا نہیں؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کسی ایسے شخص کو اسلام کی دعوت دیں جس کا اسلام قابل قبول نہ ہو!
یہ سن کر اسحاق لاجواب ہوگیا۔(1)
مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ ”عقد الفرید“ سے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ابوجعفراسکافی معتزلی (متوفی ۲۴۰ئھ) اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ سب مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، پیغمبر اکرم (ص) پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام نے منگل کے روز اظہار اسلام فرمایا، اور آپ فرماتے تھے کہ میں نے دوسروں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے، اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ ”میں اسلام لانے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں“اور یہ ہر مشہور بات سے زیادہ مشہور ہے، ہم نے گزشتہ زمانہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کے اسلام کو کم اہمیت قرار دے، یا یہ کہے کہ حضرت علی اس وقت اسلام لائے جب آپ کم سن تھے، عجیب بات تو یہ ہے کہ ”عباس“ اور ”حمزہ“ جیسے افراد اسلام قبول کرنے میں ”جناب ابوطالب‘‘ کے عکس العمل کے منتظر تھے ، لیکن فرزند ابوطالب (حضرت علی علیہ السلام) نے اپنے پدر بزرگوار کے اسلام کا انتظار نہ کیا اور فوراً ہی اظہار ایمان کردیا۔(۲)
خلاصہٴ گفتگو یہ ہے : پہلی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا اسلام قبول کیا ، لہٰذا اگر
کوئی شخص اس کم سنی میں حضرت کے اسلام کو قبول نہ کرے تو گویا وہ پیغمبر اکرم (ص) پر اعتراض کرتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کی مشہور و معروف روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کھانا تیار کرایا اورقریش میں سے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کی اور ان کو اسلام کا پیغام سنایا، فرمایا: جو شخص سب سے پہلے اسلام کے پیغام میں میری نصرت و مدد کرے گا وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین ہوگا، اس موقع پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کسی نے رسول اسلام کی دعوت پر لبیک نہیں کہی، آپ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! میں آپ کی نصرت و مدد کروں گا، اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہوں، اس موقع پر پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی! تم میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہو۔
کیا کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ایک نابالغ شخص کو (جس کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اسلام قابل قبول نہیں ہے) اپنا بھائی ، وصی اور جانشین قرار دیں اور دوسروں کو ان کی اطاعت کی دعوت دیں ! یہاں تک کہ مشرکین ِمکہ ابو طالب کا مذاق اڑاتے ہوئے ان سے کہیں کہ تم اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا بے شک، اسلام قبول کرنے کے لئے بالغ ہوناشرط نہیں ہے، ہر وہ نوجوان جو صاحب عقل وشعور ہواگراسلام کو قبول کرے اور بالفرض اس کا باپ بھی مسلمان نہ ہو تو وہ اپنے باپ سے جدا ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حتی نبوت کے لئے بھی ”بلوغ“ کی شرط نہیں ہے اور بعض انبیاء کو یہ مقام بچپن میں ہی مل گیا تھا، جیسا کہ جناب یحیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: < وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا (3)’اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی’“۔
اور جناب عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی ملتا ہے کہ انھوں نے پیدائش کے بعد ہی واضح الفاظ میں کہا: < قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللهِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا(4) ” (جناب) عیسیٰ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔
ان دلیلوں میں سب سے بہترین دلیل یہی ہے کہ خود پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے اسلام کو قبول کیا اور دعوت ذوالعشیرہ میں یہ اعلان کیا کہ علی علیہ السلام میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہیں۔
بہر حال وہ روایت جس میں بیان ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہیں، یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک ایسی عظیم فضیلت بیان کرتی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے ، اسی دلیل کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے لئے امت میں سب سے زیادہ حقدار اور مناسب شخص ہیں۔(5)


(1) عقد الفرید ، جلد ۳، صفحہ ۴۳ (تلخیص کے ساتھ)
(۲) الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۲۳۷
(3) سورہٴ مریم ، آیت ۱۲3
(4) سورہٴ مریم آیت۳۰
(5) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۳۵۵
۵۴۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟ ۵۶۔ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول فرمایا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma