۵۸۔ قیامت کے عقلی دلائل کیا ہیں؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۵۷۔ فلسفہٴ انتظار کیا ہے؟ ۵۹۔ معاد؛ جسمانی ہے یا روحانی؟

قرآن مجید میں قیامت کے سلسلہ میں سیکڑوں آیات بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ قیامت کے بارے میں بہت سے عقلی دلائل بھی موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:
الف ۔ برہانِ حکمت: اگر قیامت کے بغیر اس زندگی کا تصور کریں تو بے معنی اور فضول دکھائی دیتی ہے، بالکل اسی طرح کہ شکم مادر میں بچہ کو اس دنیاوی زندگی کے بغیر تصور کریں۔
اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ بچہ شکم مادر میں پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتا تو پھر تصور کریں کہ کسی ماں کاحاملہ ہونا کتنا بے مفہوم تھا؟ اسی طرح اگر قیامت کے بغیر اس دنیا کا تصور کریں تو یہی پریشانی دکھائی دے گی۔
کیونکہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کم و بیش ۷۰/ سال تک اس دنیا کی سختیوں کو برداشت کریں؟ اور ایک مدت تک بے تجربہ رہیں، ”و تا پختہ شود خامی ،عمر تمام است!“ یعنی جب تک انسان تجربات حاصل کرتا ہے تو عمر تمام ہوجاتی ہے!
ایک مدت تک تحصیل علم و دانش کرتے رہیں ، اور جب معلومات کے لحاظ سے کسی مقام پر پہنچ جائیں تو موت ہماری طرف دوڑنے لگے۔
اس کے علاوہ ہم کس چیز کے لئے زندگی کریں؟ چند لقمہ کھانا کھانا، چند جوڑے لباس پہننا، سونا اور بیدار ہونا، دسیوں سال تک ہر روز یہی تھکادینے والے کام انجام دینا؟!
یہ عظیم الشان آسمان، وسیع و عریض زمین، اور ان میں پائی جانے والی تمام چیزیں، یہ اساتید، مربیّ، یہ بڑے بڑے کتب خانے اور ہماری اور دوسری موجودات کی خلقت میں یہ باریک بینی، اورظرافتکیا واقعاً یہ سب کچھ کھانے پینے، پہننے اور مادی زندگی بسر کرنے کے لئے ہیں؟
اس سوال کی بنا پر معاد اور قیامت کا انکار کرنے والے اس زندگی کے ہیچ ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ اس بے معنی زندگی سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں!
کیسے ممکن ہے کہ جو شخص خداوندعالم اور اس کی بے نہایت حکمت پر ایمان رکھتا ہولیکن اس دنیا کو عالم آخرت کے لئے مقدمہ شمار نہ کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاٴَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ (1)
”کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عالم آخرت نہ ہو تو اس دنیا کا خلق کرنا فضول تھا۔

جی ہاں! یہ دنیوی زندگی اسی صورت میں با معنی اور حکمت خداوندی سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ جب اس دنیا کو عالم آخرت کی کھیتی قرار دیں ”الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ“،یا اس کوعالم ِآخرت کے لئے پل قراردیں” الدنیاقنطرة“ یا اس عالم کے لئے یونیورسٹی اور تجارت خانہ تصور کریں ، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں فرماتے ہیں:

”یاد رکھو کہ دنیا باور کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے، سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے، یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور آسمان کے فرشتوں کا مصلیٰ ہے، یہیںوحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں، رحمت الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں“۔(2)
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اس جہان کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسراجہان بھی موجود ہے: < وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولَی فَلَوْلاَ تَذکَّرُونَ(3) ”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو“۔
ب۔ برہانِ عدالت: اس کائنات اور قوانین خلقت میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تمام چیزیں حساب و کتاب سے ہیں(۔4)
خود ہمارے بدن میں ایک ایسا عادلانہ نظام حاکم ہے کہ اگر ذرا بھی تبدیلی یا نامناسب تغیر پیدا ہوجائے تو بیماری یا موت کا سبب ہوجاتا ہے، ہمارے دل کی دھڑکنیں، خون کی روانی، آنکھوں کے پردے، ہمارے اعظائے بدن کے تمام خلیے(Cells) اور اجزا اسی دقیق نظام کی طرح ہیں جس کی حکومت پورے جہان پرہے، ”وَبِالعَدْلِ قَامَتِ السَّمٰوَاتِ وَالاٴرْضِ“(5) ”عدل ہی کے ذریعہ زمین و آسمان باقی ہیں“،کیا انسان اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ناموزوں پیوند ہوسکتا ہے؟!
یہ بات صحیح ہے کہ خداوندعالم نے انسان کو آزادی ، ارادہ اور اختیار دیا ہے تاکہ اس کا امتحان لے سکے،اور جس کے زیر سایہ وہ کمال کی منزلوں کو طے کرسکے، لیکن اگر انسان آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھائے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے؟ اگر ظالم و ستم گر ، گمراہ اور گمراہ کرنے والے ان خداداد نعمتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں تو خداوندعالم کی عدالت کا تقاضا کیا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ بعض ظالم اور مجرم لوگو ں کو اس دنیا میں سزا مل جاتی ہے اور وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن مسلم طور پر ایسا نہیں ہے کہ تمام مجرموں کو پوری سزا مل جاتی ہو، یا تمام نیک اور پاک افراد کو اپنے اعمال کی جزا اسی دنیا میں مل جاتی ہو، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں گروہ ،عدالت خدا کی میزان میں برابر قرار پائیں؟ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا، ارشاد ہوتا ہے:

< اٴَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ # مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ (6)
”کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسا فیصلہ کررہے ہو“۔
نیز ارشاد ہوتا ہے: < اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ ()(کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر قرار دےدیں؟)
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم کے احکام کی اطاعت کرنے والوں کے لحاظ سے انسانوں میں فرق ہے، جس طرح سے ”مکافات جہان“، ”محکمہ وجدان “، اور ”گناہوں کا عکس العمل“ نامی عدالتیں اس دنیا میں عدالت برقرار کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ، لہٰذا یہ بات ماننا پڑے گی کہ عدالت الٰہی نافذ ہونے کے لئے خداوندعالم کی طرف سے ایک عام عدالت

(میزان) قائم ہو، جس میں نیک اور برے لوگوں کے سوئی کی نوک کے برابر اعمال کا بھی حساب کتاب کیا جائے، ورنہ عدالت خداوندی پر حرف آتا ہے، اس بنا پر قبول کرنا چاہئے کہ اگر ہم خداوندعالم کی عدالت کو مانتے ہیں تو پھر روز قیامت پر بھی ایمان رکھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ بِالْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ(7) ”‘اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے۔“
نیز ارشاد ہوتا ہے:<وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ (8) ”لیکن ان کے درمیان حساب کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے گا“۔
ج۔ برہانِ ہدف: مادہ پرستوں کے نظریہ کے برخلاف الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان کی خلقت میں ایک ہدف اور مقصد کار فرما ہے جسے فلسفی اصطلاح میں ”تکامل و ارتقا“ کہتے ہیں اور قرآن و حدیث کی زبان میں کبھی ”قربِ خداوندی “ اور کبھی ”عبادت و بندگی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندمتعال ہے: <وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ(9) ”اور ہم نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے“۔ اگر ان تمام کی انتہا ”موت“ ہو تو کیا یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے؟! بے شک اس سوال کا جواب منفی ہے، تو پھر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہونا چاہئے جہاں ”کمال“ کی منزلیں طے ہوتی رہیں، اور اس کھیتی کی فصل کٹتی رہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک موقع پر عرض کیا ہے کہ اس زندگی میں بھی آخری مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ تکاملی راستہ طے ہوتا رہے گا خلاصہ یہ کہ یہ مقصد قیامت پر ایمان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا، اور اگر اس دنیا کا تعلق عالم آخرت سے ختم ہوجائے تو سب چیزیں معمہ بن کر رہ جائیں گی اور ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکے گا۔(10


(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۳۷۸
(2) سورہٴ موٴمنون ، آیت ۱۱۵
(3) نہج البلاغہ ،کلمات قصار کلمہ ۱۳۱
(4)سورہٴ واقعہ ، آیت ۶۲
(5) تفسیر صافی ،سورہٴ رحمن کی ساتویں آیت کے ذیل میں
(6)سورہٴ قلم ، آیت ۳۵و۳۶
(7)سورہٴ ص ، آیت ۲۸
(8)سورہٴ انبیاء ، آیت ۴۷
(9)سورہٴ یونس ، آیت ۵۴
(10) سورہٴ ذاریات ، آیت ۵۶
۵۷۔ فلسفہٴ انتظار کیا ہے؟ ۵۹۔ معاد؛ جسمانی ہے یا روحانی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma