۲۰۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟ ۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟

۲۰۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟

قرآن کریم کے سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے: <وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ (1) ”خداوندعالم نے تم میں سے بعض لوگوں کو روزی کے لحاظ سے بعض دوسرے لوگوں پر برتری دی ہے“۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق و روزی کے لحاظ سے فرق قرار دینا ؛ کیا خداوندعالم کی عدالت اور معاشرہ کے لئے ضروری مساوات سے ہم آہنگ ہے؟
(قارئین کرام!) اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مادی اسباب اور مال و دولت کے لحاظ سے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی اہم وجہ خودانسانوں کی استعداد اور صلاحیت ہے، انسان میں موجودہ جسمی اور عقلی یہی فرق ہی باعث ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بہت زیادہ مال وs دولت جمع ہوجائے اور بعض دوسروں کے پاس نسبتاً کم رہے۔ 
البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگ اتفاقات کی بنا پر مالدار بن جاتے ہیں جو کہ خود ہمارے نظریہ کے مطابق صرف ایک اتفاق ہوتا ہے لیکن ایسی چیزوں کومستثنیٰ شمار کیا جاسکتا ہے، ہاں جو چیز اکثر اوقات قاعدہ و قانون کے تحت ہوتی ہے تو وہ استعداد وصلاحیت اور انسان کی کارکردگی کا فرق ہے (البتہ ہماری گفتگو ایسے سالم معاشرہ کے بارے میں ہے جس میں ظلم و ستم نہ ہو اور نہ ہی استثمار، اور نہ ہی ایسا معاشرہ جو قوانین خلقت اور انسانی نظام سے بالکل دور ہو)
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم جن لوگوں کو اپاہج (لولا او رلنگڑا) اور کم اہمیت سمجھتے ہیں وہ بہت زیادہ مال و دولت جمع کرلیتے ہیں اور اگر ان کے جسم و عقل کے بارے میں مزید غور و فکر کریں اور ظاہری طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے گہرائی سے سوچیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ ان کے اندر کچھ ایسی طاقتور چیزیںپائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں، (ایک بار پھر اس بات کی تکرار کرتے ہیں کہ ہماری بحث ایک سالم اور ظلم و ستم سے دور معاشرہ کے بارے میں ہے)۔
بہر حال استعداد اور صلاحیت کی وجہ سے آمدنی میں فرق ہوتا ہے، اور استعداد خداوندعالم کی عطا کردہ نعمت ہے، ہوسکتا ہے بعض مقامات میں انسان سعی و کوشش کے ذریعہ کسب کرلے، لیکن دیگر مواقع پر انسان کسب نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ ایک سالم معاشرہ میں بھی اقتصادی لحاظ سے درآمد میں فرق پایا جانا چاہئے، مگر یہ کہ ایک جیسے انسان، ایک جیسی استعداد اور ایک جیسے رنگ کے انسان بن جائیں کہ جن میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہ ہو، جو خود مشکلات اور پریشانیوں کی ابتدا ہے!
۲۔ کسی انسان کے بدن، یا کسی درخت یا کسی پھول کو مد نظر رکھیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ ان تمام چیزوں کے جسم کے تمام اعضا ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوجائیں؟
تو کیا درختوں کی جڑوں کی طاقت نازک پتوں کی طرح یا انسان کے پیر کی ایڑی ،آنکھ کے نازک پردہ کی طرح ہوسکتی ہے؟ اگر ہم ان کو ایک جیسا بنادیں تو کیا ہمارے اس کام کو صحیح کہا جاسکے گا؟! (اگر یہ نازک آنکھ، ایڑی کی طرح سخت یا ایڑی ،آنکھ کی طرح نرم ہوجائے تو انسان کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے؟!!)
اگر جھوٹے نعرے اور شعور سے خالی نعروں کو دور رکھ کر فرض کریں کہ اگر ہم نے کسی روز تمام انسانوں کو ایک طرح بنادیا جو ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں ، اور دنیا کی آبادی پانچ ارب فرض کریں اور وہ سبھی ذوق، فکر اور صلاحیت بلکہ ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں، بالکل ایک کارخانہ سے بننے والی سگریٹ کی طرح۔
تو کیا اس وقت انسان بہتر طور پر زندگی گزار سکے گا؟ قطعی طور پر جواب منفی ہوگا، یہی نہیں بلکہ دنیا ایک جہنم بن جائے گی، سب لوگ ایک چیز کی طرف دوڑیں گے، ایک ہی عہدہ کے طالب ہوں گے، سب کو ایک ہی کھانا اچھا لگے گا، اور سب ایک ہی کام کرنا چاہیں گے!
یہ بات مکمل طور پرواضح ہے کہ اس طرح زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی، اور اگر یہ گاڑی چلی بھی تو واقعاً بور کرنے والی ، بے مزہ اور ایک طرح کی ہوگی، جس کا موت سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی بقا بلکہ مختلف استعداد کی پرورش کے لئے نہایت ضروری ہے کہ استعداد اور صلاحیت میں فرق ہو، جھوٹے نعرے اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔
لیکن اس بات سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ ہم طبقاتی نظام یا استعماری نظام کو قبول کرتے ہیں، نہیں ، ہرگز نہیں، ہماری مراد طبیعی فرق ہے نہ کہ مصنوعی، اور وہ فرق مراد ہے جو ایک دوسرے کے تعاون کا باعث ہو، نہ کہ ایک دوسرے کی ترقی میں رکاوٹ بنے، اورجس سے ایک دوسرے پر ظلم و ستم کیا جائے۔
طبقاتی اختلاف (توجہ رہے کہ طبقات سے مراد وہی استثماری نظام اور استثماری نظام کو قبول کرنے والے لوگ ہیں) نظام خلقت کے موافق نہیں ہے ، بلکہ نظام خلقت سے موافق استعداد اور صلاحیت اور سعی و کوشش کا فرق ہے، او ران دونوں کے درمیان زمین تا آسمان فرق ہے۔ (غور کیجئے )
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ استعداد اور لیاقت کے فرق سے اپنی اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کے راستہ میں مدد لی جائے، بالکل ایک بدن کے اعضا کے فرق کی طرح، یا ایک پھول کے مختلف حصوں کی طرح، جو اپنے فرق کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مددگار ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے لئے باعث زحمت و پریشانی۔
المختصر : استعداد اور صلاحیت کے فرق سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے ، اور نہ ہی اس کو طبقاتی نظام بنانے میں بروئے کار لانا چاہئے۔
اسی وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُون (2) ”کیا خداوندعالم کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟“۔
اس آیت میں طبیعی طور پر فرق (نہ کہ مصنوعی اور ظالمانہ فرق) خداوندعالم کی ان نعمتوں میں سے ہے جس کو معاشرہ کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔(3)


(1) سورہ نحل ، آیت ۷۱
(2) سورہ نحل ، آیت ۷۱
(3) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۳۱۲
 
۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟ ۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma