۳۵۔ کیا معجزہٴ”شق القمر“ سائنس کے لحاظ سے ممکن ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۳۴۔ جناب آدم کا ترک اولیٰ کیا تھا؟ ۳۶۔ بعض آیات و احادیث میں غیر خدا سے علم غیب کی نفی اور بعض میں ثابت ہے، اس اختلاف کا حل کیا ہے؟

۳۵۔ کیا معجزہٴ”شق القمر“ سائنس کے لحاظ سے ممکن ہے؟  

ہم سورہ قمرکی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں: <اقتربت الساعة و انشقّ القمر (قیامت آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے)
اس آیہٴ شریفہ میں معجزہٴ شق القمر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
مشہور روایات میں کہ جن کے سلسلہ میں بعض لوگوں نے تواتر(1) کا دعویٰ بھی کیا ہے، بیان ہوا ہے کہ مشرکین مکہ پیغمبراکرم (ص) کے پاس آئے اور کہا: اگر آپ سچ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں، تو آپ چاند کے دو ٹکڑے کردیجئے! آنحضرت (ص) نے فرمایا: اگر میں اس کام کو کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے؟ سب نے کہا: ہاں ، ہم ایمان لے آئیں گے، (وہ چودھویں رات کا چاند تھا) اس وقت پیغمبر اکرم نے خدا کی بارگاہ میں دعا کی کہ جو یہ لوگ طلب کررہے ہیں وہ عطا کردے، چنانچہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ چاند د و ٹکڑے ہوگیا، اس موقع پر رسول اللہ (ص) ایک ایک کو آواز دیتے جاتے تھے اور فرماتے تھے: دیکھو دیکھو!(2)
اس طرح کے سوالات کا جواب دانشوروں اور نجومیوں کے مطالعات او ران کے انکشافات کے پیش نظر کوئی پیچیدہ نہیں ہے، کیونکہ جدید انکشافات کہتے ہیں: اس طرح کی چیز نہ صرف یہ کہ محال نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات بارہا رونما ہوئے ہیں، اگرچہ ہر واقعہ میں مخصوص عوامل کار فرما تھے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں 
نظام شمسی اور دوسرے آسمانی کرّات میں سے کسی آسمانی کرہ کا اس طرح شق ہوجانا اور پھر مل جانا ایک ممکن امر ہے، نمونے کے طور پر چند چیزیں درج ذیل ہیں:
الف۔ پیدائش نظام شمسی: اس نظریہ کو تقریباً سبھی ماہرین نے مانا ہے کہ نظام شمسی کے تمام کرّات ابتدا میں سورج کے اجزا تھے بعد میں سورج سے الگ ہوئے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگا۔
مسٹر ”لاپلاس“ کا نظریہ یہ ہے کہ کسی چیز کے الگ ہونے کے اس عمل کا سبب مرکز سے گریز کی وہ قوت ہے جو سورج کے منطقہ استوائی میں پائی جاتی ہے وہ اس طرح کہ جس وقت سورج ایک جلانے والی گیس کے ٹکڑے کی شکل میں تھا، (اور اب بھی ویسا ہی ہے) اور اپنے گرد گردش کرتا تھا تو اس کی گردش کی سرعت منطقہ استوائی میں اس بات کا سبب بنی کہ سورج کے کچھ ٹکڑے اس سے الگ ہوجائیں اور فضا میں بکھر جائیں، اور مرکز ِاصلی یعنی خود سورج کے گرد گردش کرنے لگیں۔
لیکن لاپلاس کے بعد بعض دانشوروں نے تحقیقات کیں جس کی بنا پر ایک دوسرا فرضیہ پیش کیا کہ اس جدائی کا سبب سورج کے مقابل سمندر میں ہونے والے شدید مدر و جزر (1) ہے جوسورج کی سطح پر ایک بہت بڑے ستارے کے گزرنے کے سبب ایجاد ہوتا ہے۔
اس فرضیہ سے اتفاق کرنے والے اس وقت کی سورج کی حرکتِ وصفی کو سورج کے ٹکڑوں کے علیحدہ ہونے کی توجیہ کو کافی نہیں سمجھتے وہ اس مفروضہ کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ مدّ و جزر نے سورج کی سطح پر بہت بڑی بڑی لہریں اس طرح پیدا کیں جیسے پتھر کا کوئی بہت بڑا ٹکڑا سمندر میں گرے اور اس سے لہریں پیدا ہوں، اس طرح سورج کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے باہر نکل کر سورج کے گرد گردش کرنے لگے، بہر حال اس علیحدگی کا سبب کچھ بھی ہو اس پر سب متفق ہیں کہ نظام شمسی کی تخلیق انشقاق کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔
ب۔ بڑے شہاب: یہ بڑے بڑے آسمانی پتھرہیں جو نظام شمسی کے گرد گردش کررہے ہیں اور جو کبھی کبھی چھوٹے کرّات اور سیاروں سے مشابہت رکھنے والے قرار دئے جاتے ہیں، بڑے اس وجہ سے کہ ان کا قطر ۲۵ کلو میٹر ہوتا ہے لیکن وہ عموماً چھوٹے ہوتے ہیں، ماہرین کا نظریہ ہے کہ ”استروئید ہا“ (بڑے شہاب) ایک عظیم سیارے کے بقیہ جات ہیں جو مشتری اور مریخ کے درمیان مدار میں حرکت کررہا تھا اور اس کے بعد نامعلوم اسباب کی بنا پر وہ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اب تک پانچ ہزار سے زیادہ اس طرح کے شہاب کے ٹکڑے معلوم کئے جاچکے ہیں اور ان میں سے جو بڑے ہیں ان کے نام بھی رکھے جاچکے ہیں، بلکہ اان کا حجم، مقدار اور سورج کے گرد ان کی گردش کا حساب بھی لگایا جاچکا ہے، بعض ماہرین فضا ان استروئیدوں کی خاص اہمیت کے قائل ہیں، ان کا
(۳)مدر و جزر : دریا کے پانی میں ہونے والی تبدیلی کو کہا جاتا ہے ، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ گھٹتا ہے اس کو ” جزر“ کہا جاتاہے اور ایک مرتبہ بڑھتا ہے جس کو ”مد“ کہا جاتاہے ، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے ہوتی ہے(مترجم) 
نظریہ ہے کہ فضا کے د ور دراز حصوں کے جانب سفر کرنے کے لئے اولین قدم کے عنوان سے ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
آ  سمانی کرات کے انشقاق کا ایک دوسرانمونہ     شہاب ثاقب ،یہ چھوٹے چھوٹے آسمانی پتھر ہیں جو کبھی کبھی چھوٹی انگلی کے برابر ہوتے ہیں، بہر حال وہ سورج کے گرد ایک خاص مدار میں بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں، اور جب کبھی ان کا راستہ مدارِزمین کو کاٹ کر نکلتا ہے تووہ زمین کا رخ اختیار کرلیتے ہیں۔
یہ چھوٹے پتھر اس ہوا سے شدت کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے کہ جو زمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے او رتھرتھراہٹ پیدا کرنے والی اس تیزی کی وجہ سے کہ جو ان کے اندر ہے زیادہ گرم ہوکر اس طرح بھڑک اٹھتے ہیں کہ ان میں سے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ہم انھیں ایک پرنور اور خوبصورت لکیر کی شکل میں آسمانی فضا میں دیکھتے ہیں اور انھیں ”شہاب کے تیر“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دور دراز کا ستارہ ہے جو گررہا ہے حالانکہ وہ چھوٹا شہاب ہے کہ جو بہت ہی قریبی فاصلہ پر بھڑک کر خاک ہوجاتا ہے۔
شہابوں کی گردش کا مدار زمین کے مدار سے دو نقطوں پر ملتا ہے اسی بنا پر ستمبر اور اکتو بر میں جو دو مداروں کے نقطہ تقاطع ہیں شہاب ثاقب زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دمدار ستارے کے باقی حصے ہیں جو نا معلوم حوادث کی بنا پر پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں۔
آسمانی کرات کے پھٹنے کا ایک اور نمونہ  بہر حال آسمانی کرّات کا انشقاق یعنی پھٹنا اور پھٹ کر بکھر نا کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے اور جدید علوم کی نظر میں یہ کوئی محال کام نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ معجزہ کا تعلق امر محال کے ساتھ نہیں ہوا کرتا، یہ سب باتیں انشقاق یعنی پھٹنے کے سلسلہ کی ہیں، دو ٹکڑوں میں قوت جاذبہ ہوتی ہے اس بنا پر اس انشقاق کی بازگشت ناممکن نہیں ہے۔
اگرچہ ہیئت قدیم میں بطلیموس کے نظریہ کے مطابق نو آسمان پیاز کے تہہ بہ تہہ چھلکوں کی طرح ہیں اور گھومتے رہتے ہیں اور اس طرح یہ نو آسمان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں جن کا ٹوٹنا اور جڑنا ایک جماعت کی نظر میں امر محال تھا، اس لئے اس نظریہ کے حامل افراد معراج آسمانی کے بھی منکر تھے اور ”شق القمر“ کے بھی، لیکن اب جبکہ ہیئت بطلیموسی کا مفروضہ خیالی افسانوں اور کہانیوں کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور نو آسمانوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا تو اب ان باتوں کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔
یہ نکتہ کسی یاد دہانی کا محتاج نہیں ہے کہ ”شق القمر“ ایک عام طبیعی عامل کے زیر اثر رونما نہیں ہوا بلکہ اعجاز نمائی کا نتیجہ تھا، لیکن چونکہ اعجاز، محال عقلی سے تعلق نہیں رکھتا ،لہٰذا یہاں اس مقصد کے امکان کو بیان کرنا تھا۔ (غور کیجئے )


(1) علم حدیث میں ”حدیث تواتر“ اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راویوں کی تعداد اس حد تک ہو کہ ان کے ایک ساتھ جمع ہوکر سازش کرنے کا قابلِ اعتماد احتمال نہ ہو (مترجم)
(2) ”مجمع البیان “اور دیگر تفاسیر ، مذکورہ آیت کے ذیل میں یہاں پر ممکن ہے اس طرح کے سوالات کئے جائیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اتنا عظیم کرہ (چاند) دو ٹکڑے ہوجائے، پھر اس عظیم واقعہ کا کرہ زمین اور نظام شمسیپر کیا اثر ہوگا؟ اور چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد کس طرح آپس میں مل گئے، اور کس طرح ممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہو جائے لیکن تاریخ بشریت اس کو نقل نہ کرے؟!
۳۴۔ جناب آدم کا ترک اولیٰ کیا تھا؟ ۳۶۔ بعض آیات و احادیث میں غیر خدا سے علم غیب کی نفی اور بعض میں ثابت ہے، اس اختلاف کا حل کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma