۱۴ ۔کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۱۳۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟ ۱۵۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

۱۴ ۔کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات خدا کی تسبیح کرتی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واضح آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت نمبر ۴۴ ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے:
< وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ
”اور کوئی شئی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔
اس آیت کی بناپر کائنات کی تمام موجوات بغیر کسی استثنا کے خداوندعالم کی اس عام تسبیح میں شامل ہیں۔
اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علماو فلاسفہ کے درمیان بہت زیادہ بحث و گفتگو ہے۔
بعض افراد نے اس حمد و تسبیح کو ”حالی“ (یعنی زبان حال) مانا ہے، جبکہ بعض دوسرے افراد نے اس سے ”قولی“ تسبیح مراد لی ہے، ہم یہاں پر ان تمام نظریات کا خلاصہ اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں:
۱۔بعض گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کائنات کے تمام ذرات چاہے وہ جاندار اور عاقل ہوں یا بے جان اور غیر عاقل؛ سب کی سب ایک طرح کا شعور اور ادراک رکھتی ہیں، اور یہ سب چیزیں خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، اگرچہ ہم ان کی حمد و تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے، اور نہ ہی سن پاتے ہیں۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اس عقیدہ پر شاہد اور گواہ ہیں، نمونہ کے طور پر:
< وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ (1)
”اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہیں“۔
<فَقَالَ لَہَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْہًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ(۲)
”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔
۲۔ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے کہ یہ حمد و تسبیح وہی ہے جس کو ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں، اور یہ حمد و تسبیح حقیقی طور پر ہے، مجازی طور پر نہیں، لیکن زبان حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے۔ (غور کیجئے )
وضاحت: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے چہرے پر پریشانی اور ناراحتی یا درد و غم کے آثار پائے جاتے ہیں یا اس کی آنکھوں سے بیداری کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں،چنانچہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے: اگرچہ تم اپنی زبان سے پریشانی اور مشکل نہیں بتارہے ہو، لیکن تمہارے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یا کہتے ہیں کہ تمہیں رات میں نیند نہیں آئی ہے!!
کبھی کبھی یہ ”زبان حال“ اس قدر واضح اورروشن ہوتی ہے کہ ”زبان قال“ کو موثر بنا دےتی ہے، اور زبان قال کو جھٹلادیتی ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
گفتم کہ با مکر و فسون پنہان کنم راز درون!
پنہان نمی گردد کہ خون از دیدگانم می رود!
”میں نے کہا کہ مکر و فریب سے اپنے اندرونی راز کو چھپالوں لیکن خون کبھی چھپائے سے نہیں چھپتا ، اور میری آنکھوں سے خون برستا دکھائی دیتا ہے“۔
اسی چیز کی طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور و معروف قول میں اشارہ فرمایا ہے:
”مَا ضمَر اٴحد شیئًا اِلاَّ ظھر فی فلتاتِ لسانِہ وَصفحاتِ وَجھہِ“(3)
”کوئی بھی راز دل میں چھپائے سے چھپ نہیں سکتا، اور ایک نہ ایک دن اس کی زبان یا چہرے پر ظاہر ہوہی جاتا ہے“۔
دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بہترین مصور کی بنائی ہوئی تصویر اس کی مہارت اور ذوق کی گواہی نہ دے اور اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟
کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک مشہور و معروف شاعر کا کلام اس کے بہترین ذوق کی عکاسی نہ کرے اور ہمیشہ اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟
کیا اس بات کا منکر ہوا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان عمارت اوربڑے بڑے کارخا نے وغیرہ اپنی بے زبانی سے اپنے بنانے والے کے خلاق ذہن اور ایجادات کرنے والے ذہن کی تعریف نہ کریں اور ان کی ذہنیت کی قصیدہ خوانی نہ کریں؟
لہٰذا ہم کو یہ بات مان لینا چاہئے کہ کائنات کایہ عجیب و غریب نظام اور چکاچوند کردینے والی چیزیں خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ کرتی ہیں۔
کیا ”تسبیح“ پاک و پاکیزہ ماننے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے، اس کائنات کا نظام اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے کہ اس کا خالق ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔
کیا ”حمد“ صفاتِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ یہ کائنات کا نظام خدا وندعالم کی صفات کمال( بے کراں علم و قدرت ،اور مکمل حکمت )کی گفتگو نہیں کررہا ہے۔
(قارئین کرام!) ”حمد و تسبیح “ کے یہ معنی تمام موجوات کے لئے قابل فہم ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم تمام مخلوقات کے ذروں کو صاحب عقل و شعور فرض کریں، کیونکہ کوئی قطعی دلیل ان کے بارے میں موجود نہیں ہے، اور مذکورہ آیات بھی قوی احتمال کی بنا پر ”زبان حال“ کو بیان کرتی ہیں۔
لیکن یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ سے مراد نظام کائنات کا خدا کی عظمت اور اس کی پاکیزگی و عظمت کی حکایت کرنا ہے اور ”صفات سلبیہ“ و ”صفات ثبوتیہ“ اس کی وضاحت کرتی ہیں، تو پھر قرآن مجید میں کیوں ارشاد ہوا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھتے؟
اگر بعض عوام الناس نہیں سمجھ سکتے تو کم سے کم دانشوروں کو تو سمجھنا چاہئے؟
اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں:
پہلا جواب: یہ ہے کہ قرآن مجید میں خطاب اکثر جاہلوں خصوصاً مشرکین سے ہے اور مومن دانشوروں کی اقلیت اس عموم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہر عام کے لئے ایک استثنا ہوتا ہے۔
دوسرا جواب: یہ ہے کہ اس کائنات کے جن اسرار کو ہم جانتے ہیں وہ نامعلوم اسرارکے مقابل سمندر کے مقابل ایک قطرہ یا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر صحیح غور و فکر کریں تو اس کو کسی علم و دانش کا نام تک نہیں دیا جاسکتا ۔
تا بدانجا رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم
”میری عقل آخر میں اس بات کو سمجھ پائی ہے کہ میں نادان اور جاہل ہوں“
لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ اگرچہ ہم کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اس کائنات کے ذروں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ کسی بڑی کتاب کا ایک لفظ ہے، اس بنا پر تمام عوام الناس کے لئے یہ اعلان عام کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ زبان حال سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور جو چیزیں ہم سمجھتے ہیں وہ اس قدر کم اور ناچیز ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔
۳۔بعض مفسرین نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح زبان ”حال“ اور زبان ”قال“ دونوں سے مرکب ہے یا دوسرے الفاظ میں ”تکوینی اور تشریعی تسبیح“ ہے، کیونکہ بہت سے انسان اور تمام ملائکہ اپنی عقل و شعور کے لحاظ سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں لیکن اس کائنات کے تمام ذرے اپنی زبان بے زبانی سے خداوندعالم کی عظمت و کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں۔
اگرچہ” حمد و تسبیح“کے دونوں معنی آپس میں مختلف ہیں لیکن ”ایک مشترک پہلو بھی رکھتے ہیں“ یعنی حمد و تسبیح کے عام اور وسیع معنی (یعنی اعلان پاکیزگی اور مدح و ثنا) میں مشترک ہیں۔
لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ مذکورہ دوسری تفسیر سب سے بہتر ہے۔(4).


(1)سورہ بقرہ ، آیت ۷۴
(۲) سورہ فصلت ، آیت ۱۱
(3) نہج البلاغہ کلمات قصار نمبر ۲۶.
(4) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۳۴
۱۳۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟ ۱۵۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma