۲۵۔ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم کی بشارت دی گئی ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟ ۲۶۔ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟

۲۵۔ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم کی بشارت دی گئی ہے؟

جیسا کہ ہم سوہ اعراف میں پڑھتے ہیں: <الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْاٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ(1) ”جو لوگ ہمارے رسول نبیِّ امی کا اتباع کرتے ہیں جس (کی بشارت ) کو وہ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔
مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے؟
اگرچہ یقینی قرائن اور اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں دور حاضر کی موجودہ ”مقدس کتابوں “ (توریت و انجیل) کے مطالب اس بات پر یہ دونوں گواہ ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی یہ دونوں کتابیں اصل نہیں ہیں ، بلکہ ان میں بہت زیادہ تبدیلی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ بعض تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے، اور جو کچھ اس وقت کی موجودہ مقدس کتابوں میں موجود ہے وہ انسانی فکر اور بعض خدا کی طرف سے موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام پر نازل ہونے والے مطالب کا ایک مرکب مجموعہ ہے، جس کو ان کے بعض شاگردوں نے جمع کیا ہے۔(2)
اس بنا پر؛ ان مو جودہ کتا بوں میں اگر کوئی ایسا جملہ نہ ملے جس میں صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہو ، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
لیکن تحریف کے باوجود بھی ان کتابوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت پردلالت کرتے ہیں، جن کو مسلمان دانشوروں نے اپنی کتابوں اور مضا مین میں تحریر کیا ہے،چونکہ ان تمام مطالب کو ذکر کرنااس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا نمونہ کے طور پر چند چیزوں کو بیان کرتے ہیں:
۱۔ توریت کے سِفْر تکوین فصل ۱۷،نمبر ۱۷ سے۲۰ تک میں اس طرح مر قوم ہے:
”اور ابراہیم نے خداوندعالم سے فرمایا :کہ اے کاش !اسماعیل تیرے حضور میں زندگی کرت اور اسماعیل کے حق میں تیری دعاکو سنا، اس وجہ سے اس کو صاحب برکت قرار دیا اور اس کو پھل دار بنادیا ہے، اور آخر کا راس کی اولاد کو کثیر قرار دیا، اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس کو ایک عظیم امت قرار دوں گا“۔
۲۔ سِفْر پیدائش باب ۴۹، نمبر ۱۰ میں وارد ہوا ہے:
عصای سلطنت یہودا سے اور ایک فرمان روا اس کے پیروں کے آگے سے قیام کرے گا تااینکہ ”شیلوہ“ آجائے کہ اس پر تمام امتیں اکٹھا ہوجائیں گی۔
یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیلوہ کے ایک معنی ”رسول“ یا ”رسول اللہ“ کے ہیں، جیسا کہ مسٹر ہاکس نے کتاب ”قاموس مقدس“ میں بیان کیا ہے۔
۳۔ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۴ ،نمبر ۱۵، ۱۶ میں یوں بیان ہوا ہے:
”اگر تم لوگ مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے احکام کی رعایت کرو، میں پدر سے درخواست کروں گا وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا“۔
۴۔اسی طرح مذکورہ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۵ ،نمبر ۲۶ میں اس طرح وارد ہوا ہے:
”جب وہ تسلی دینے والا آجائے گا جس کو میں پدر کی طرف سے بھجواؤں گا یعنی وہ سچی روح جو پدر کی طرف سے آئے گی، وہ میرے بارے میں شہادت دی گی“۔
۵۔ نیز اسی انجیل یوحنا باب ۱۶ ،نمبر ۱۷ کے بعد میں وارد ہوا ہے:
”لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر میں تمہارے درمیان سے چلاجاؤں تویہ تمہارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو تمہارے پاس وہ تسلی دینے والا نہیں آئے گا، اور اگر میں چلا گیا تو اس کو تمہارے لئے بھیج دوں گا  لیکن جب وہ سچی روح تمہارے پاس آجائے گی تو تمہیں تمام سچائیوں کی طرف ہدایت کردے گی، کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ کلام نہیں کرے گا بلکہ جو کچھ اس کو سنائی دے گا وہی کہے گا، اور تمہیں آئندہ کے بارے میں خبر(بھی) دے گا“(3)
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ فارسی انجیل میں ”تسلی دینے والے “ کی جگہ عربی انجیل مطبوعہ لندن ( ویلیام وٹس پریس ، ۱۸۵۷ءء) میں اس کی جگہ ”فارقلیطا“ ذکر ہوا ہے۔ (4)
ایک اور زندہ گواہ
”فخر الاسلام “جو کتاب ”انیس الاعلام “کے موٴلف ہیںپہلے عیسا ئی عالم تھے ،انھوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں میں مکمل کی تھی اور ان کے درمیان ایک بلند مقام حاصل کر لیاتھا وہ انیس الا علام کے مقدمہ میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
”بڑی جستجو ،زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ، ”کیتھولک‘ فرقہ کے بادشاہ و غیرہ اپنے مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے ،ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاریٰ کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ،اس کے بہت سے شاگر د تھے لیکن اتفاقاً مجھ سے اسے کچھ خاص ہی لگاوٴ تھا ،اس کے گھر کی تمام کنجیاں میرے ہاتھ میں تھیں، صرف ایک صندوق خانے کی کنجی اس کے پاس ہوا کرتی تھی ۔
اس دوران وہ پادری بیمار ہو گیا تواس نے مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہہ دو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ،جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سب بحث و مباحثے میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ”فارقلیطا“ اور یونانی زبان کے لفظ ”پریکلتوس “کے معنی تک جاپہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ،ہر ایک کی الگ رائے تھی ،واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا تم لوگوں نے آج کیا بحث کی ہے؟تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا :تونے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ،میں نے کہا کہ فلاں مفسرکے قول کوپسند کیا ہے ۔
استاد پادری کہنے لگا :تونے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق و حقیقت ان تمام اقوال کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو ” رَاسِخُونَ فِی العِلمِ“کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ،میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتائےے، وہ بہت رویا اور کہنے لگا:میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ،لیکن اس نام کے معنی معلوم ہو جانے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اور تمہیں قتل کر دیا جائے گا،اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔
میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میںسے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ہیں ۔
اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی کنجی مجھے دی اور کہا کہ فلاں صندوق کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آوٴ ، چنا نچہ میںوہ کتابیں اس کے پاس لے آیا ، یہ دونوں کتابیں رسول اسلام (ص) کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔
دونوں کتابوں میں لفظ ”فارقلیطا“کا ترجمہ ”احمد“اور” محمد“کیا گیا تھا اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علمائے نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد و محمد ہیں، لیکن ظہور محمد( (ص))کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کر دی اور اس کے لئے دوسرے معنی گڑھ لئے حالانکہ صا حب انجیل کی مراد وہ معنی یقینا نہیں ہیں۔
میں نے سوال کیا کہ دین ِنصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ،اس نے کہا دین اسلام کے آنے سے منسوخ ہوگیا ہے اس جملہ کی اس نے تین مرتبہ تکرار کی ۔
پس میں نے کہا کہ اس زمانہ میں طریقِ نجات اور صراطِ مستقیم ،کونساراستہ ہے ؟۔
اس نے کہا :مختصر یہ ہے کہ محمد (ص) کی پیروی و اتباع کرو ۔
میں نے کہا :کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ؟ اس نے کہا :ہاں !خدا کی قسم (اور تین مرتبہ قسم کھائی )
پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا : اگر آخرت اور نجات چاہتے ہوتودین حق ضرور قبول کر لو،میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد (ص) کا پیروکار ہوں اور علمائے نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور ظاہراً میری طرح اپنے دنیاوی مقام سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ورنہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے ۔“!!(5)
آپ دیکھیں کہ علمائے اہل کتاب نے پیامبراسلام (ص)کے ظہور کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے لئے آنحضرت (ص) کے نام اور نشانیوں کو بدل ڈالا ۔!!(6)


(1) سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷
(2) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب ”رہبر سعادت یا دین محمد“ اور کتاب ”قرآن و آخرین پیامبر“ کو ملاحظہ فرمائیں
(3) مذکورہ تمام تحریریں، جن کو عہد قدیم اور عہد جدید سے نقل کیا گیا ہے ، اس فارسی ترجمہ سے ہے جو ۱۸۷۸ءء میں لندن سے عیسائی مترجمین کے ذریعہ عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے
(4)تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۳
(5) اقتباس از کتاب ہدایت دوم ،مقدمہ کتاب انیس الاعلام، اختصار کے ساتھ
(6) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۲۱۱
 
۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟ ۲۶۔ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma