۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
110 سوال اور جواب
22۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟ ۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟

۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟

کیا انسانی معاشرہ کسی ایک جگہ پر رُک سکتا ہے؟ کیا انسان کے کمال اور ترقی کے لئے کوئی حد معین ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج کا انسان گزشتہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے؟
ان حالات کے پیش نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دفتر نبوت بالکل ہی بند ہوجائے اور انسان اس ترقی کے زمانہ میں اپنے کسی نئے رہبر اور نبی سے محروم ہوجائے؟
اس سوال کا جواب ایک نکتہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ ہے کہ: انسان فکر و ثقافت کے مرحلہ میں اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ وہ پیغمبر خاتم (ص) کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کے پیش نظر کسی نئی شریعت کے بغیر اپنی ترقی کے مراحل کو طے کرسکتاہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے انسان کو تعلیم کے ہر مرحلہ میں ایک نئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھ سکے، لیکن جب انسان ڈاکٹر بن جاتا ہے یا کسی دوسرے علم میں صاحب نظر بن جاتا ہے تو پھر انسان کسی نئے استاد سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے گزشتہ اساتذہ خصوصاً آخری استاد سے حاصل کئے ہوئے مطالب پر بحث و تحقیق کرتا ہے اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا جاتاہے نئی نئی تحقیق اور نئے نئے نظریات پیش کرتا ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اپنے گزشتہ اساتذہ کے بتائے ہوئے عام اصول کی بنا پر راستے کی مشکلات کو حل کر تاہے لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ کوئی نیا دین اور نیا مذہب وجود میں آئے۔ (غور فرمائےے گا)
بالفاظِ دیگر: روحانی اور معنوی ترقی کی راہ میں موجود نشیب و فر از کے سلسلہ میں گزشتہ انبیاء نے باری باری انسان کی ہدایت کے لئے نقشہ پیش کیا تاکہ انسان میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجائے کہ اس راستہ کا جامع اور کلی نقشہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر آخرالزمان (ص) پیش فرمادیں۔
یہ بات واضح ہے کہ جامع اور کلی نقشہ حاصل کرنے کے بعد پھر کسی نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، اور یہ حقیقت خاتمیت کے سلسلہ میں بیان ہوئی احادیث میں موجود ہے، اور پیغمبر اکرم کو رسالت کی آخری اینٹ یا خوبصورت محل کی آخری اینٹ رکھنے والے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
یہ تمام چیزیں کسی نئے دین و مذہب کی ضرورت نہ ہونے کے لئے کافی ہیں، (یعنی مذکورہ باتوں کے پیش نظر اب کسی نئے دین کی ضرورت نہیں ہے) لیکن رہبری اور امامت کا مسئلہ انھیں کلی اصول و قوانین پر عمل در آمد ہونے پر نظارت اور اس راہ میں پیچھے رہ جانے والوں کو امداد پہنچانے کے عنوان سے ہے،البتہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کبھی بھی ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہمیشہ امام اور رہبر کی ضرورت رہے گی، اس دلیل کی بنا پر سلسلہٴ نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سلسلہ امامت بھی ختم ہوجائے، کیونکہ ”ان اصول کی وضاحت “، ”ان کا بیان کرنا“ اور ”ان کو عملی جامہ پہنانا“ بغیر کسی معصوم رہبرکے ممکن نہیں ہے۔(1)


(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۵
22۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟ ۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma