یہودیوں کی فتنہ انگیزی اوراس میں منا فقین کی شمُولیت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 23
گزشتہ آیات میں یہود بنی نظیر کے واقعہ کوبیان کرنے اور مومنین کے تین گروہ یعنی مہاجرین ، انصار اورتا بعین کے حالات کی ہرایک خصوصیت کی تشریح کے ساتھ پیش کرنے کے بعد پروردگارِ عالم زیر بحث آیات میں ایک گروہ یعنی منافقین اوران کی اس واقعہ سے متعلق کارکردگی کوپیش کرتاہے تاکہ تمام افراد کے حالات کی کیفیّت ایک دوسرے کے موازنہ کے ساتھ واضح کردے ۔ اور یہ قرآن کا طریق کار ہے کہ وہ مختلف گروہوں کے تعارف کے لیے انہیں ایک دُوسرے کے تقابل کے ساتھ پیش کرتاہے ۔ پہلے رُوئے سُخن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے فرماتاہے:
کیاتُونے منافقین کونہیں دیکھا جواپنے بھائی اہل کتاب کفار سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں تمہارے وطن سے نکالاگیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہوں گے اورتمہارے بارے میں ہم کسِی کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگرتم سے جنگ ہوئی توہم تمہاری مدد کریں گے (أَ لَمْ تَرَ ِلَی الَّذینَ نافَقُوا یَقُولُونَ لِاخْوانِہِمُ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَ لا نُطیعُ فیکُمْ أَحَداً أَبَداً وَ ِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ ) ۔ اس طرح گروہِ منافقین نے طائفہ یہود سے تین باتوں کاوعدہ کیا ۔جب کہ وہ ہر بات پر جھوٹے تھے ۔ پہلایہ کہ اگرانہوںنے اس سرزمین سے تمہیں نکالا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے ۔ہم نہیں چاہتے کہ تمہارے بعدکسی خالی جگہ کودیکھیں ۔دوسرے یہ کہ اگرکوئی حکم کسی شخص کی طرف سے تمہارے خلاف صادر ہو ، نہ صرف اَب بلکہ کبھی بھی توہم اس کی اطاعت نہیں کریں گے ۔تیسرے یہ کہ اگرجنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہارے دوش بدوش جنگ کریں گے اورتمہاری مدد کے سلسلے میں کسی تردّد کاشکار نہیں ہوں گے ، جی ہاں !یہ قول وقرار تھے جومنافقین نے اس واقعہ سے پہلے یہود سے کیے تھے لیکن بعد کے واقعات نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ تھا ۔ اسی بناپر قرآن صراحت کے ساتھ کہتاہے:
خداگواہی دیتاہے کہ وہ جھوٹے ہیں(وَ اللَّہُ یَشْہَدُ ِانَّہُمْ لَکاذِبُون)کیا لرزا ہے دینے والا انداز کلام ہے جو نوع واقسام کی تاکید وں کے ساتھ ہے خداکالفظ گواہ کوجملہ اسمیہ کی شکل میں لاناپھر ان اور لام کی تاکید ، یہ سب باتیں جھوٹ اور نفاق ایک دوسرے سے اس طرح مِلے جلے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ممکن نہیں ہے ۔منافق ہمیشہ جھوٹے سے اور زیادہ ترجھوٹے منافق ہوتے ہیںاخوانھم (بھائی )کی تعبیر بتاتی ہے کہ منافقین اور کفّار کے درمیان بہت نزدیکی رابط ہے جیساکہ گزشتہ آیات میںمومنین کے درمیان رابط اخوّت پرزور دیا گیاتھا ،فرق صرف یہ تھاکہ مومنین اپنی اخوّت کے بارے میں سچّے تھے ۔ اس لیے کسی قسم کے ایثار اور قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔ اس کے برعکس منافقین آپس میں کسی قسم کی وفاداری اورہمدردی نہیں رکھتے اور سخت ترین رات میں اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے دست بردار ہوجاتے ہیں ۔ یہ مومنین اور کافرین کی اخوّت میں فرق ہے (وَ لا نُطیعُ فیکُمْ أَحَداً أَبَداً ) ہم تمہارے معاملے میں کسِی کی اطاعت نہیں کریں گے کاجملہ اس طرف اشارہ ہے کہ ہم تمہارے بارے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیّتوں ،نصیحتوں اورتنبیہوں کو اور خطرات کے اشاروں کومکمل طورپر نظر انداز کردیں گے ۔ اس کے بعد ان کی دروغ گوئی متعلق مزید وضاحت کے لیے اضافہ کرتاہے :
اگر یہودیوں کونکال دیں تویہ منافقین ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے (لَئِنْ أُخْرِجُوا لا یَخْرُجُونَ مَعَہُمْ) اور اگران کے ساتھ جنگ ہو تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے (وَ لَئِنْ قُوتِلُوا لا یَنْصُرُونَہُمْ) ۔ اور بالفرض اگراپنے قول پر عمل کریں اوران کی مدد کے لیے آمادہ ہوبھی جائیں توجلدہی میدان سے فرار کرجائیں گے (وَ لَئِنْ نَصَرُوہُمْ لَیُوَلُّنَّ الْأَدْبار) ۔ اوراس کے بعد ان کی مدد نہیں کی جائے گی (ثُمَّ لا یُنْصَرُونَ) ۔ ان آیات کاقاطع لب ولہجہ ہرمنافق کولرزہ براندام کردیتاہے ۔ خصوصاًیہ کہ آ یت اگرچہ ایک خاص مورد نازل ہوئی ہے لیکن طے شدہ پراسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔منافقین کے تمام دشمنانِ اسلام سے رابطے ایک دوسرے سے مرتکب کار اور ان وعدوں کے سلسلے میںجووہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں یہ ایک اصلی کلّی ہے حالانکہ وہ تمام وعدے بے بُنیادہوتے ہیں ۔صورت ِ حال نہ صِرف گزشتہ تاریخِ اسلام میں نظر آتی ہے بلکہ آج بھی ، اسلامی ممالک میں، منافقین کی دُشمنان ِ اسلام سے سازبازکے سلسلہ میں کے زندہ نمونے نظر تے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہتاہو انظر آتاہے ۔ اور یہ طے شدہ ہے کہ اگر سچّے مومنین اپنی اسلامی ذمّہ داریاں سمجھ لیں اور اپنا فرض ادا کریں توان کے مقابلہ میں کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اوران کے منصُوبے نقشِ برآب ثابت ہوں گے ۔
والی آ یت میں اس شکست کے اسباب کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے:
تمہاراخوف ان کے دلوں میں خدا کے خوف سے زیادہ ہے (لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَہْبَةً فی صُدُورِہِمْ مِنَ اللَّہ) ۔چونکہ وہ خدا سے نہیں ڈرتے لہٰذا ہرچیز سے وحشت وخوف رکھتے ہیں ۔خصوصاً اے مومنو! تم جیسے سخت دشمن سے یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک نادان گروہ ہے (ِ ذلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْم لا یَفْقَہُونَ ) رھبة اصل میں اس خوف کے معنوں میں ہے جس کے ساتھ اضطراب واحتیاط ہو ۔ اور حقیقت میں یہ ایسا گہر ااورجڑیں رکھنے والاخوف اوروحشت ہے جس کے اثرات کردار میں منعکس ہوتے ہیں ۔
اگرچہ مندرجہ بالاآ یت یہود بنی نظیر اور مسلمانوں کے مقابلہ میںان کی شکست کے عوامل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔لیکن اس کانفسِ مضمون ایک حکم کلّی وعمومی کی حیثیت رکھتاہے ۔ اس لیے کہ انسان کے دل میں کبھی دوخوف نہیں ہوسکتے ،خوف خدااور ماسوا اللہ کاخوف، اس لیے کہ تمام چیزیں حکم ِ خداکی تابع ہیں اورجو شخص خداسے ڈرے اوراس کی قدرت سے آگاہ ہووہ اس کے غیر سے کبھی خائف نہیں ہوسکتا ان سب بدبختیوں کاسرچشمہ جہالت ،نادانی اورحقیقت ِ توحید سے بے خبر ہوتاہے ۔ اگراس زمانے کے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان ،مومن اور موحد ہوں تووہ نہ صرف موجودہ دنیا کی فوجی اورصنعتی طاقتوں سے خائف نہ ہوں بلکہ مذ کورہ طاقتیں ان سے ڈریں جیساکہ ہم اس کے نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ یہ طاقتیں باوجود ان ترقی یافتہ وسائل کے اوران مہلک ہتھیاروں کے ایک چھوٹی سی لیکن قربانی دینے کی صلاحیّت رکھنے والی قوم سے خوف زدہ ہیں ۔ اسی مفہوم کی ایک نظیر سورة آ ل ِ عمران کی آ یت ١٥١میں بھی آئی ہے ۔( سَنُلْقی فی قُلُوبِ الَّذینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِما أَشْرَکُوا بِاللَّہِ ما لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطاناً وَ مَأْواہُمُ النَّارُ وَ بِئْسَ مَثْوَی الظَّالِمینَ ) عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے اس لیے کہ اُنہوںنے بغیرکسی دلیل کے کچھ چیزوں کوخداکا شریک قرار دیاہے ۔ ان کے رہنے کی جگہ آگ ہے اور ظالموں کی قرار گاہ کیاہی بُری ہے اس کے بعد اس اندرونی خوف کی واضح نشانی کوبیان کرتے ہوئے مزید فرماتاہے:
وہ سوائے محکم قلعوں میں رہ کر یاپسِ دیور ہوکر تم کبھی جنگ نہیں کرسکیں گے ۔ وہ تمہارے سامنے آنے سے گھبرتے ہیں(لا یُقاتِلُونَکُمْ جَمیعاً ِلاَّ فی قُریً مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَراء ِ جُدُر)قری جمع ہے قریہ کی جوآبادی کے معنی میں ہے ، عام اس سے کہ شہرہو یاگاؤں ۔ کبھی ایک ہی جگہ جمع شُدہ انسانوں کے بارے میں بھی یہ لفظ آتاہے ۔ محصنة کامادّہ حصن (بروزن جسم ) قلعہ کے معنی میں ہے ،اس بناپر قری محصنة ان آباد یوں کوکہا جاتاہے جوبرجوں اور قلعوں کے ذریعہ یاخندق کھود کر یااوردوسری رکاٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے دشمن کی یلغار سے محفوظ ہوں جدر جمع ہے جدار کی دیوار کے معنی میں ہے اس لفظ کے بنیادی معنی بلندی کے ہیں جی ہاں چونکہ وہ ایمان اور توکّل علی اللہ کی پناہ گاہ سے باہر ہیں لہٰذا سوائے دیواروں اورقلعوں کی پناہ کے مومنین سے جنگ کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے:
لیکن یہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ کمزور ،ناتواں اورفنون ِ جنگ سے ناواقف افراد ہیں ۔ جب جنگ خودان کے مابین واقع ہو تو نہایت شدید ہوتی ہے ( بَأْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدید)لیکن تمہارے مقابلہ میںصُورت حال بلکل بد جاتی ہے اورخوف ووحشت سے ایک عجیب اضطراب ان پر مسلّط ہوجاتاہے ۔ یہ بھی ایک بنیاد ی حقیقت ہے کہ تمام بے ایمان اقوام کی جب آپس میں جنگ ہو اوراس کے مقابلہ میں جب مسلمانوں سے مقابلہ ہوتو مذ کورہ صُورت ِ حال پیش آتی ہے ۔ اس کے نمونے ہم نے موجودہ زمانے میں بار بار دیکھے ہیں ۔جب خداکی معرفت نہ رکھنے والے افراد ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تواس طرح ایک دوسرے کی سرکوبی کرتے ہیں کہ ان کی جنگ جوئی میں کسی قسم کاشبہ باقی نہیں رہتا ۔لیکن جب ان کا مقابلہ مومنین اور شہادت فی سبیل اللہ کاشوق رکھنے والوں سے ہوتاہے تووہ فوراً ہتھیاروں ،محکم مورچوں اور قلعوں کی پناہ لے لیتے ہیں اوراضطراب انہیں چاروں طر ف سے گھیرلیتاہے ۔ اگرمسلمان واقعی اسلامی اقدار اختیار کریں تووہ دشمنوں کے مقابلہ میںاز سرِنوافضل وبرتر ثابت ہوں ۔
اسی آ یت کوجاری رکھتے ہوئے ان کی شکست اور ناکامی کے ایک اور سبب کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے:
تُو ان کے ظاہر کی طرف دیکھے توانہیں متفق ومتحد تصوّر کرے گا حالانکہ ان کے دل پراگندہ ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وُہ ایک ایسی قوم ہیں جوعقل سے محروم ہیں ( تَحْسَبُہُمْ جَمیعاً وَ قُلُوبُہُمْ شَتَّی ذلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْم لا یَعْقِلُونَ) ۔ شتی جمع ہے شیت کی یعنی متفرق قران تحصیل مسائل میں فی الواقعی بہت ہی دقیق اورالہام بخش ہے ۔وہ ہمیں بتاتاہے کہ تفرقہ اوراندرونی نفاق جہات ، بے خبری اورنادانی کی وجہ سے پیدہوتاہے اس لیے کہ شرک کاسبب جہالت ہے اور پراگندگی وانتشار کا سبب شِرک ہے اورانتشار کانتیجہ شکست ہے ۔ اس کے برعکس علم جو ہے وہ عقیدہ ٔ توحید ،عملی اتفاق اورہم آہنگی کووجود میں لاتاہے اوربجائے خود کامیابیوں کا سرچشمہ ہے ۔ اس طرح بے ایمان افراد کاظاہری اجتماع ،ان کے آپس کے معاہدے اور فوجی واقتصادی وحدت سے ہمیں کبھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے ۔ اس لیے کہ ان باہمی معاہدوںاور نعروں کے پیچھے وہ دل ہوتے ہیں جوانتشارکاشکار ہوں ۔ اس کی دلیل بھی واضح ہے وہ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے مادّی مفاد کامحافظ ہوتاہے اور ہمیں معلوم ہے کہ مادّی منفعتوں میں ہمیشہ تکراؤ ہوتاہے ۔ جب کہ مومنین کی وحدت اوران کا اجتماع ایسے اصول کی بُنیاد پرہوتاہے ۔ جس میں تضاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ ان کی وحدت کااصول اصل ایمان ، توحید اورالہٰی اقدار پرمبنی ہوتاہے ،لہٰذا جہاں کہیں مسلمانوں کوشکست سے دوچار ہوناپڑے تومندرجہ بالا آیات کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ حقیقت ِ ایمانی سے محروم ہوتے ہیں جب تک اس کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے ان کے حالات بہتر نہیں ہوں گے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma