٣۔ حرکت ِ جوہری :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 23

حرکت ِ جوہری کے بعض طرفداروں نے قرآن کی چند آ یتوں سے استدلال کیاہے ، یاکم ازکم اُسے اپنے مقصُود کی طرف اشارہ سمجھاہے ،منجملہ دیگرآیتوں کے ایک یہ آ یت بھی ہے (کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فی شَأْنٍ )اس کی وضاحت یہ ہے : قدیم فلسفیوں کانظر یہ یہ تھا کہ حرکت صرف چار عرضی مقولوں میں ممکن ہے (مقولہ این ، کیف اوروضع)زیادہ آسان اور سادہ مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ ایک جسم ،مکان کے لحاظ سے ، تغیّر کرے یااس طرح اس کی نشو ونما ہوکہ اس جسم کی مقدار میں اضافہ ہوجائے یااس کے رنگ میں وبُو اورذائقہ میں تبدیلی پیدا ہوجائے (مثل ایک سیب کے جودرخت پرلگاہوا ہے) یااپنی جگہ پراپنے گردگردش کرے ( زمین کی حرکت ِ وضعی کی طرح ) لیکن ان کانظر یہ یہ تھا کہ جسم کاجوہر اوراس کی ذات میں حرکت کاکوئی امکان نہیں ہے ،کیونکہ حرکت میں ذاتِ متحرک کوثابت وبرقرار ہونا چاہئیے ۔اس کے محض عوارض وگرگوں ہوں ، بصُورت دیگرحرکت کاکوئی مفہوم نہ ہوگا،لیکن فلاسفہ متاخرین نے اس نظر یہ کو ردّ کیاہے اوروہ حرکت ِ جو ہر ی کے معترف ہیں ،انہوںنے کہاہے کہ حرکت کی اساس اور بُنیاد خودجو ہرمیں ہے جس کے آثار عوارض میں ظاہرہوتے ہیں ،پہلا شخص جس نے اس نظر یہ کومعقول شکل میں پیش کیا ملا صدرائے شیرازی تھلاس نے کہا کہ تمام ذرّاتِ کائنات اور دُنیا ء مادئہ ِ حرکت کاایک مجموعہ ہے دُوسرے لفظوں میں اجسام کامادہ ایک سیال وجود ہے جس کی ذات ہمیشہ متعیّر ہوتی رہتی ہے اوراس کاہرلمحے ایک نیا وجود ہے جوقبل کے لمحے سے مختلف ہے لیکن چونکہ یہ تبد یلیاں ایک دوسرے سے متصل ہوتی ہیں اس لیے ایک ہی شے شمار کی جاتی ہیں ،اس نظر یہ کی بناپر ہم ہر روز ایک نیا وجود ہیں لیکن یہ وجود متصل ومستمر ہیں اورایک ہی صُورت رکھتے ہیں ، دُوسرے لفظوں میں مادہ چار جہتیں رکھتاہے ،طول عرض ،عمق اوربُعد یہ بُعد وہ ہے جسے زمان کانام دیتے ہیں اور یہ زمان جو ہری حرکت کے علاوہ دوسری اورکوئی چیزنہیں ہے ۔غور کیجئے ۔
یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حرکت ِجوہری ایٹموس کی اند رونی حرکت کے مسئلہ سے ارتباط نہیں رکھتی ،کیونکہ وہ حرکت مکان میں ہے اور عرضی حرکت ہے ،حرکت ِ جوہری ایک زیادہ عمیق اور گہرا مفہوم رکھتی ہے کہ جو جسم کی ذات اوراس کی انفرادیت پرحاوی ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں متحرک عینِ حرکت ہوجاتاہے ،اور چیزیں خوداپنے داخل ہونے کی جگہ بن جاتی ہیں ۔ غورکیجئے
ان کے پاس اس مقصد کے اثبات کے لیے مختلف دلائل ہیں جن کی تشریح کی یہاں گنجائش نہیں لیکن ، یہ امر معیوب نہیں ہے کہ ہم یہاں اس فلسفیانہ عقیدہ کے نتیجے کی طرف اشارہ کریں ، اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہم خدا شناسی کے مسئلہ کا ہر گزشتہ لمحے سے زیادہ واضح طورپر ادراک کریں کیونکہ خلقت اورآفرینش صرف دنیاکے آغاز ہی میں نہیں تھی بلکہ ہرساعت اورہر لمحے اس کاآغاز ہے اورخداہمیشہ نئی خلقت اور آفرینش میں مصروف ہے اورہم وقت اس سے وابستہ اوراس کے فیض ِ سے مستفیض ہیں ،انہوںنے : (کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فی شَأْنٍ )کی تفسیر انہی معانی میں کی ہے ،البتہ اس میں کوئی امرمانع نہیں ہے کہ یہ تفسیر بھی آ یت کے وسیع مفہوم کاایک جز ہو ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma