گہری فکر رکھنے والوں کی علامات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 23

ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سورہ توحید اورصفات ِ باری تعالیٰ کے بیان سے شروع ہواہے ۔ وہ صفتیں جوبیان ہوئی ہیں وہ تعداد میں بیس ہیں، یہ صفات ایسی ہیں کہ ان کی معرفت انسان کی سطح فکر کو بلند کرتی ہے اوروہ اپنے ربّ سے رُوشناس ہوجاتاہے ۔اِن صفتوں میں سے ہر ایک پروردگار ِ عالم کی صفات ِ جلال وکمال کے کسی گوشہ کولیے ہوئے ہے اورصاحبان ِ فکر ونظر اس میں جس قدر غور وفکر کرتے ہیں انہیں نئی حقائق دستیاب ہوتے ہیں جیساکہ ایک حدیث میں امام علی بن الحسین علیہ السلام سے یہ بات سُننے میں آ ئی ہے کہ جس وقت آپ سے لوگوں نے توحید الہٰی کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:
ان اللہ عزّوجل علم انہ یکون فی اٰخرالزمان اقوام متعمقون فانزل اللہ تعالیٰ قل ھو اللہ احد والاٰیات من سورة الحدید، الیٰ قولہ علیم بذات الصدور فمن رام وراء ذالک فقد ھلک ، خداوندتعالیٰ جانتا تھاکہ آخری زمانے میں کچھ قو میں ا ئیں گی جومسائل میں غور وفکر سے کام لیں گی لہٰذا خدانے سُورقل ھو اللہ اورسُورہ حدید کی ابتدائی آ یات علیم بذات الصدتک نازل فرمائیں ، پس جوشخص اس سے ہٹ کرکسی اور شے کاطالب ہوگا وہ ہلا ک ہوجائے گا ( ١) ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اِن آیتوں سے طالبان ِحقیقت کوخدا کی ممکن معرفت کے بیشتر حصّہ پرعبور ہوجاتاہے ۔ بہرحال اس سُورہ کی پہلی آ یت خدا کی تسبیح سے شروع ہوتی ہے ارشاد ہوتاہے :جوکچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ ہمیشہ خداکی تسبیح کرتاہے اوروہی ایسا قادر ہے جسے کبھی شکست نہیں ہوتی ،اوروہ حکیم علی اطلاقہے (سَبَّحَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیمُ ) ۔گزشتہ سورہ تسبیح کے حکم کے ساتھ ختم ہواہے اوریہ سورہ تسبیح الہٰی سے شروع ہورہاہے اورقابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ وہ سورتیں جوخداکی تسبیح سے شروع ہوتی ہیں اور جنہیں مسبّحات کہتے ہیں ان میں تین مواقع ایسے ہیں کہ جہاں تسبیح کا زکر ماضی کے صیغے سبّح سے شروع ہواہے (حدید ،حشر اورصف)اور دو مواقع ایسے ہیں کہ وہاں صیغہ مضارع استعمال ہواہے ،یعنی یسبّح (جمعہ اورتغابن ) ۔ تعبیر کایہ فرق شاید اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ گزشتہ اور آئندہ یعنی ہمیشہ اس جہان کے موجودات اس ذاتِ اقدس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ، یہ تسبیح ہوتی رہی تھی ،ہوتی رہی ہے اورہوتی رہے گی ۔تسبیح سے مراد خداکی ذات کوہرعیب ونقص سے پاک قرار دینا ہے ( ٢) ۔
اورتمام موجودات ِعالم کی یہ گواہی کہ خداتمام عیوب ونقائص سے پاک ہے یاتو، اس بناپر ہے کہ ان سب کے نظامِ حیات میں اس طرح کی حکمت ودانائی اورایسے نظم ونسق ، حساب و کتاب اورعجائب وغرائب موجود ہیں جوسب کے زبان ِحال سے ذکرِ پروردگار کرتے ہیں اوراس کی تسبیح وحمد وثناکرتے ہیں اوربا آواز بلند کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار کی قدرت اوراس کااختیار بے حدوبے پایاں ہے اسی لیے اس آ یت کے آخر میں (وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیمُ )کاجملہ آیاہے یاپھریہ کہ اس عالم کے تمام ذرّات اِک طرح کے اور اک و شعور سے بہرہ ورہیں اوروہ اپنے اپنے مقام پرزبان ِحال سے خداکی تسبیح کے بارے میں سورۂ ِ اسراکی آ یت ٤٤ کے ذیل میں (جلد ٦ ملاحظہ فرمائیں ۔ اس نکتہ کویاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لفظ ما جو(سَبَّحَ لِلَّہِ ما فِی السَّماوات) میں استعمال ہواہے وہ وسیع معانی پرمشتمل ہے ،اس سے تمام موجودات ِ عالم مراد ہیں خواہ وہ صاحب ِ عقل ورُوح ہوں یابے رُوح ، یہ سب پر احاطہ رکھتاہے ( ٣) ۔
خداوند ِ عالم کی ددوصفتیں یعنی عزّت اورحکمت کے بعد عالم ِ ہستی میں جواس کی مالکیت ، تدبیر اور تصرف کار فرما ہے اورجو لازماً قدرت ہے اس کوپیش کرتے ہوئے فر ماتاہے: خدا کے لیے آسمانوں اور زمین کی مالکیت وحاکمیت (لَہُ مُلْکُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ) وہی ہے جوزندہ کرتاہے اور مارتاہے۔( یُحْیی وَ یُمیتُ ) ۔اوروہ ہرکام پرقدرت رکھتاہے ۔(وَ ہُوَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر)۔عالم ِ ہستی میں خداکی مالکیت اعتبار ی اورتشریعی نہیں ہے بلکہ مالکیّت ِ حقیقی وتکوینی ہے یعنی وہ ہرچیز پراحاطہ رکھتاہے اور ساراجہان اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اوراس کے ارادہ وفرمان کے ماتحت ہے ۔اس لیے اس کے بعد زندہ کرنے، مارنے اورہر چیز پراختیار رکھنے کی گفتگو درمیان میں آئی ہے ۔تواس طرح اَب تک ان دوآیتوں میں خدا کی صفات میں سے چھ صفتیں بیان ہوئی ہیں ، عزّت اورقدرت میں فرق یہ ہے کہ عزّت عام طورپر دفاع کے انتظا مات کودرہم وبرہم کرتی ہے اورقدرت کی توجہ اسباب کوایجاد کرنے کی طرف ہے اس بناپر یہ دومختلف صفتیں شمارہوتی ہیں،اگرچہ بنیادی طورپرقوّت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں ( غورفر مایئے)زندہ کرنے اورمارنے کا مسئلہ بہت سی آیتوں میںبیان ہوا ہے اوردرحقیقت یہ دونوں موضوع ایسے ہیں جن کے پیچیدہ اسرار کسی پرواضح وروشن نہیں ہیں، نہ کوئی شخص مکمل طورپر زندگی کی حقیقت سے باخبرہے اورنہ موت کی حقیقت کوکوئی کماحقّہ جانتاہے ،بلکہ جوکچھ ہم ان دونوں کے بارے میںجانتے ہیں وہ ان کے آثار ہیں، تعجب کی بات یہ ہے کہ تمام چیزوں سے زیادہ نزدیک ہم سے ہماری زندگی ہے ،اس کے باوجود اس کی حقیقت اوراس کے اسرار ہم سے ہی سب سے زیادہ مخفی ہیں ۔ قابلِ توجہ یہ کہ یحی ویمیت کاجملہ مضارع کی شکل میں تمام زمانوں میں موت وحیات کے استمرار کی دلیل ہے ۔ ان دونوں کااطلاق نہ صرف انسانوں کی زندگی وموت تک محدُود ہے بلکہ فرشتے اوردوسرے تمام زندہ موجودات ممبع حیوانات حتّٰی کہ یہ گھاس پھونس پربھی احااطہ رکھتے ہیں اور نہ صرف اس دنیاہی کی زندگی بلکہ عالم ِ برزخ و قیامت کی زندگی کوبھی اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں ۔ جی ہاں حیات وموت اپنی تمام صُورتوں کے اعتبار سے خداکے قبضہ ٔ قدرت میں ہے ۔
اس کے بعد پانچ اورصفتوں کوبیان کرتے ہوئے فر ماتاہے: و ہ اوّل ہے اور وہ آخر ہے ، ظاہر ہے اور باطن ہے اورہرچیز سے آگاہ ہے (ہُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الْباطِنُ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلیم ) ۔ اوّل وآخر ہونے کی صفت اس کی ازلیت وابدیت کی بہت لطیف تعبیر ہے ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ واجب الوجود اور لامتناہی ہے یعنی اس کی ہستی خود اپنی ذات ہی سے ہے نہ کر خارج سے کہ اس کی کوئی ابتدا ہو اور وہ ختم ہو ،اس بناپر وہ ازل سے ہے اوراَبد تک رہے گا ، وہ عالم ِ ہستی کاسرآغاز ہے اور وہی ہے کہ جوعالم ِ فنا کے بعد بھی ہوگا ،اس بناپر اوّل وآخر کی تعبیر کسی خاص زمانے تک محدُود نہیں ہے اور کسی معیّن مدّت تک اشارہ نہیں کرتی ۔ ظاہروباطن کی توصیف بھی تمام چیزوں کی نسبت اس کے احاطۂ وجود ی کی ایک اور تعبیر ہے ۔ وہ ہرچیز سے زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اس کے آثار نے ہرجگہ کا احاطہ کررکھاہے ۔ اوروہ ہرچیزسے زیادہ مخفی ہے کیونکہ اس کی کنہ ذات کسی پرآشکار نہیں ہے ، بعض مفسرین نے یہاں یہ مفہوم لیاہے (الاوّل بلا ابتداء والاٰخربلا انتھاء والظاھربلا اقتراب والباطن بلا احتجاب) وہ ایسااول ہے کہ جس کاآغاز نہیں ہے اورایساآخر ہے جس کا اختتام نہیں ہے ،باوجود قریب نہ ہونے کے ظاہر ہے اور پوشیدہ ہے باوجود ظاہر ہونے کے کچھ اورمفسرین ایک تعبیر پیش کرتے ہیں ( الاول ببرہ والاٰ خر بعفوہ والظاہر باحسانہ وتوفیقہ اذا اطعتہ والباطن بسترہ اذاعصیتہ )وہ اول ہے نیکیوں میں اور آخر ہے عفود بخشش کی بناء پر ۔اگر تواس کی اطاعت کرے تووہ اپنے احسان وتوفیق کے ساتھ تجھ پرظاہر ہوتاہے اوراگر تواس کی نافرمانی کرے تو ستر وپوشش کے ذ ریعے پنہاں ہوجاتاہے ۔ مختصر یہ کہ وہ ہرچیز پراحاطہ رکھتاہے اورعالم ہستی کاآغاز وانجام اورظاہر وباطن ہے ۔بعض مفسرین نے ظاہر کے معنی یہاں غالب تجویز کیے ہیں (ظہور بمعنی غلبہ ) اورنہج البلاغہ کے بعض خطبوں میں ان معانی کاقرینہ نظر آتاہے جہاں خلقت ِ زمین کے بارے میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :
(ھو الظاھرعلیھابسلطانہ وعظمتہ وھو الباطن لھابعلمہ و معرفتہ ) وہ اس پراپنے تسلّط اورعظمت کی بنا پرغلبہ رکھتاہے اوراپنے علم ومعرفت کی وجہ سے اس کے باطن میں راہ رکھتاہے ( ٤) ۔
١۔اصول کافی مطابق نقل تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٣١۔
٢۔"" تسبیح "" "" سبح "" (بروزن مسح)کے مادّہ سے ہے جس کے معنی پانی اور ہوا کی تیزحرکت ہے تسبیح بھی پروردگار کی عبادت کی راہ میں حرکت سریع ہے (مفردا تِ راغب ) ۔
٣۔باوجود یکہ تسبیح حرف جر کے بغیر متعدی ہوتاہے مثلاً کہاجاتاہے "" شجرہ "" لیکن یہاں لام کے ساتھ آ یا ہے اوریہ ممکن ہے تاکید کے لیے ہے ۔
٤۔نہج البلاغہ خطبہ ،١٨٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma