یہودِ بنی نظیر کی مدینہ میں سازش کاخاتمہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 23
یہ سُورہ خداکی تسبیح وتنزیہ اوراس کی عزّت وحکمت کے بیان سے شروع ہوتاہے ۔ خداوندِ عالم فرماتاہے:
جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے خداکی تسبیح کرتاہے اوروہ عزیز وحکیم ہے (سَبَّحَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْأَرْضِ وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیم)یہ درحقیقت یہودی بنی نظیر کی سرگزشت کے بیان کی تمہیدہے ۔یہ لوگ خدا اوراس کی صفات کی معرفت کے سلسلہ میں انواع واقسام کی تحریفوں کاشکار تھے انہیں اپنی قوّت وعزّت پربڑا گھمنڈتھا، یہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خلاف ساز شوںمیں مصروف ہوگئے ،زمین وآسمان کے موجودات کی عمومی تسبیح ،عام اس سے کہ تسبیح کرنے والے فرشتے ہوں یاانسان یاحیوانات وجمادات ونباتات ،ممکن ہے کہ زبان قال کے ساتھ ہو یاپھرزبان ِحال کے ساتھ ،اس لیے کہ حیران کُن نظام جوہر ذرّہ کی تخلیق میں مصروفِ کارہے وہ زبانِ حال سے خداکے علم وقدرت اوراس کی عظمت کوبیان کرتاہے پھر علماء کی ایک جماعت کے نظریہ کے مطابق ہر موجود اپنے وجود میں عقل وادراک وشعور کاایک حصّہ رکھتاہے اگرچہ ہم اس سے آگاہ نہیں ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ تمام وجود اپنی زبان سے خداکی تسبیح کرتے ہیں ۔ اگرچہ ہمارے کان ان کے سُننے کی صلاحیّت نہیں رکھتے ،تمام عالم میں اس کی تسبیح وحمد کا غلغلہ ہے اگرچہ ہم اس سے بے خبرہیں لیکن وہ جو صحیح معنی میں زندہ ہیں اورپتھر نہیں ہیں ان کوغیب کے سلسلہ میں ایک چشم بینا عطاہوئی ہے وہ عالم کے تمام موجودات کے راز دار ہیں ۔وہ پانی اورمٹی کے نطق کواچھی طرح سُنتے ہیں ۔یہ نطق اہل دل کومحسوس ہوتاہے ۔
یہ ذکر ش ہرچہ خواہی درخروش است دلے داند چنیں معنی کہ گوش است
بہ بُلبُل برگلش تسبیح خوان است کہ ہر خارے بہ توحیدش زبان است
جس کوتودیکھے گاوہ اس کی تسبیح میں مصروف ہے لیکن اسے وہ سُن سکتاہے جسے خدا نے کان عطاکیے ہیں ،نہ صِرف بُلبل اپنے پُھول کو دیکھ کرتسبیح کررہاہے بلکہ ہر خار اس کی توحید کی زبان ہے ۔
اس سلسلہ میں مزید تشریح سُورہ اسریٰ کی آ یت ٤٤ کے ذیل میں آچکی ہے (جلد ٦ ،صفحہ ٥٧٥ تا ٥٨٢)اس تمہید کوبیان کرنے کے بعد مدینہ کے بنونظیر کے نکلنے کی داستان بیان کرتے ہوئے فر ماتاہے :
خُدا وہی ہے جس نے اہل کتاب کفّار کومسلمانوں کے مقابلہ میں پہلے اجتماع میں ہی ان کے گھروں سے نکالا ( ہُوَ الَّذی أَخْرَجَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتابِ مِنْ دِیارِہِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْر) حشر اصل میں کسی گروہ کومیدانِ جنگ یااسی قسم کی کسِی دوسری جگہ کی طرف بھیجے کے معنی میں ہے ۔ یہاں اس سے مُراد مسلمانوں کااجتماع اورمدینہ سے یہودیوں کے قلعوں کی طرف چل پڑتا ہے ،یایہودیوں کامسلمانوں سے لڑنے کے لیے اکٹھا ہوناہے ،چونکہ اپنی نوعیّت کے اعتبار سے اوریہ پہلا اجتماع تھا،لہٰذا قرآن میں اسے لاول الحشر کا عنوان دیاگیاہے اور یہ خُود ایک لطیف اشارہ ہے یہود بنی نظیر اوریہود خیبرسے مقابلہ کی طرف ،تعجب کی بات یہ ہے کہ مفسّرین کی ایک جماعت نے اس آ یت کے سلسلہ میں کئی ایسے ااحتمال پیش کیے ہیں جوآ یت کے نفسِ مضمون سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ، دوسرے احتمالات میں سے ایک یہ ہے کہ حشر اوّل سے مُراد روزِ قیامت کاحشر ہے ، سب قبروں سے محشر کی طرف رجوع ہوگا ۔ زیادہ عجیب یہ ہے کہ بعض نے اس آیت کو اس امر کی دلیل قرار دیاہے کہ قیامت مین حشر سرزمین شام میں واقع ہوگا کیونکہ یہودی مدینہ سے نکل کرشام کی طرف گئے تھے ۔ یہ تمام ضعیف احتمال لفظ حشر سے پیداہوئے ہیں ۔ حالانکہ یہ لفظ حشر قیامت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کااطلاق ہرقسم کے اجتماع ،قرار گاہ سے نکلنے اورم یدان میں حاضر ہونے پر ہواہے ۔جیساکہ سُورہ نمل کی آ یت ١٧ میں ہم پڑھتے ہیں :(وَ حُشِرَ لِسُلَیْمانَ جُنُودُہُ مِنَ الْجِنِّ وَ الِْنْسِ وَ الطَّیْرِ)سلیمان علیہ السلام کالشکر جِنّ واِنس اورپرندوںمیں سے ان کے پاس جمع ہوا ۔ اسی طرح فرعونی جادوگروں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مبارزہ کے مشاہدہ کے لیے اجتماع کے بارے میں ہمیں ملتا ہے کہ :(وان یحشرالنّاس ضحی) ہماری قرار داد یہ ہے کہ جس وقت دن چڑھے سب لوگ جمع ہوں)(طٰہٰ۔٥٩) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : تم ہرگز یہ گمان نہ کرتے تھے کہ وہ اس مقام سے چلے جائیں گے اوروہ یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے مستحکم قلعے شکست اورعذابِ الہٰی سے انہیں محفوظ رکھیں گے ( ما ظَنَنْتُمْ أَنْ یَخْرُجُوا وَ ظَنُّوا أَنَّہُمْ مانِعَتُہُمْ حُصُونُہُمْ مِنَ اللَّہ) ۔وہ اس طرح مغرور اوراپنی ذات سے رضامند تھے کہ ان کی تکیہ گاہ ان کے مضبُوط قلعے اوران کی ظاہری قوت تھی ، آ یت کایہ انداز بیان بتاتاہے ، کہ بنونظیر کے یہودی مدینہ میں وسیع وسائل کے حامل تھے اوران کے پاس بہت سازو سامان تھا ۔ اس طرح نہ وہ خُود باور کرتے تھے کہ آسانی کے ساتھ مغلوب ہوںگے نہ دُوسرے لوگ ۔لیکن چونکہ خداچاہتاتھا کہ سب پرواضح کردے کہ اس کے ارادہ کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی، یہاں تک کہ یہ واقع ہوئے بغیر اُنہیں اس سرزمین سے نکال دیا اس لیے اس آ یت کوجاری رکھتے ہوئے فرماتاہے:
لیکنخدانے جہاں سے انہیں گمان نہیں تھا، ان کوآلیا اوران کے دل میں خوف ڈالا ،اس طرح سے کہ وہ اپنے گھروں کواپنے ہاتھوں سے ویران کرتے تھے (فَأَتاہُمُ اللَّہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوا وَ قَذَفَ فی قُلُوبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُونَ بُیُوتَہُمْ بِأَیْدیہِمْ وَ أَیْدِی الْمُؤْمِنین) ۔ جی ہاں خدانے اس غیر مرئی (نظر نہ آنے والا)لشکر یعنی خوف کے لشکر کوجسے بہت سی جنگوںمیں مؤ منین کی مدد کے لیے بھیجتا تھا ۔
اوران کے دلوں پر مسلّط کردیا اوران سے ہرقسم کے مقا بلہ کی طاقت چھین لی انہوںنے اپنے آ پ کوبیرونی لشکر کے مقا بلہ کے لیے تیّار کیاتھا ۔وہ اس سے بے خبر تھے کہ خداان کے اندرسے ایک لشکران کے لیے بھیجے گااوراس طرح انہیں ایک تنگ گلی میں بند کردے گا کہ وہ خُود دشمن سے مِل کرہی تخریب کاری اورویرانی میں مدد کریں گے ۔ ٹھیک ہے کہ ان کے رئیس کعب بن اشرف کے مارے جانے نے اس واقعہ سے پہلے ان کے دلوں میں ایک طرح کی وحشت پیدا کردی تھی ، لیکن یہ طے ہے کہ آیت سے مُراد یہ نہیں ہے جیساکہ بعض مفسّرین نے گمان کیا ہے بلکہ یہ ایک قسم کی روحانی امدادتھی جوبارہا اسلامی جنگوں میں مسلمانوں کومدد کے لیے سامنے آئی ہے ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ نہ آئیں ۔ اس صورتِ حال کانتیجہ کے استحکام کاویران ہوناتھا ۔ اِس آ یت کے بارے میں کچھ اور تفاسیر بھی پیش کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہودی اندر سے اپنے مکانوں کی دیواروں کو ٹکراتے تھے کہ بھاگ کھڑے ہوں اورمسلمان باہر سے توڑ تے تھے کہ ان پر قبضہ کرسکیں (لیکن یہ احتمال بعید ہے )یہ بھی کہاگیاہے کہ اس آ یت کامعانی کنایة رکھے گئے ہیں ۔جیسے کہ ہم کہیں کہ فلاں شخص نے اپناگھر اوراپنی زندگی اپنے ہاتھ سے تباہ کی یعنی نادانیوں اور کج فہمیوں کی وجہ سے اپنی زندگی کے برباد ہونے کاسبب بنا ۔ یایہ کہ یہودیوں کابعض گھروں کوویران کرنے سے مقصد یہ تھا کہ قلعوں کے اندر کے کوچوں کے دھانے بند کردیں تاکہ مسلمانوںاندر نہ آسکیں اورآئندہ یہاں رہائش اختیار نہ کرسکیں ،یایہ کہ قلعوں کے اندر کے کچھ گھرانہوںنے خراب کیے تاکہ اگرقلعہ کے اندر کا حصّہ میدان ِ جنگ بن جائے توجنگ کرنے کے لیے کافی جگہ موجود ہو، یا یہ کہ بعض گھروں کی تعمیر میں گراں قیمت اشیاء صرف ہوئی تھیں ۔ انہوںنے گھروں کوخراب کیاتاکہ جوکچھ اُتھانے کے قابل ہو اسے اُٹھا کرلے جائیں لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے ،آ یت کے آخرمیں ایک مجموعی نتیجہ اخذکرتے ہوئے فرماتاہے:)
پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو(فَاعْتَبِرُوا یا أُولِی الْأَبْصارِ) اعتبروا اعتبارکے مادّہ سے اصل میں عبور سے لیاگیاہے ،اس کے معنی ایک چیزسے گُزر کردوسری چیزکی طرف جاناہے ۔ یہ جو اشک ِچشم کو عبرہ کہا جاتاہے آنسوؤں کے قطروں کاآنکھ کو عبور کرنے کی بناپر ہے اور عبارة کواس بنا پر عبادت کہتے ہیں کہ وہ مفاہیم کوایک شخص سے دوسرے شخص کی طر ف منتقل کرتی ہے اورخواب کے مفہوم پرتعبیرِ خواب کااطلاق اس بناپر ہے کہ وہ انسان کواُس کے ظاہر سے اُس کے باطن کی طرف منتقل کر تی ہے ، اسی مناسبت سے وہ حوادث جوانسان کونصیحت کاسرمایہ دیتے ہیں انہیں عبرت کہاجاتاہے ،کیونکہ وہ انسان کی کلّی تعلیما ت کے ایک سلسلہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اورایک مطلب سے دُوسرے مطلب کی طرف منتقل کرے ہیں اولی الابصار کی تعبیر (آنکھوں والے ) ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو حوادث کواچھی طرح دیکھتے ہیں اوراپنی بصیرت سے ان کی تہہ تک پہنچتے ہیں ،بصرکالفظ عام طورپر بینائی کے عضو، بصیرت ِ باطنی یعنی ادراک وآگاہی کے لیے بولاجاتاہے(١)
حقیقت میں اولی الابصار وہ لوگ ہیں جودرسِ عبرت حاصل کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن انہیں تنبیہ کرتاہے کہ وہ اس حادثہ سے ضرورسبق حاصل کریں ، اس میں شک نہیں کہ عبرت پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ مشابہ حوادث جوحکمِ عقلی کے لحاظ سے یکساں ہیں ان کاایک دوسرے پرقیاس کریں ،مثلاً دوسرے کفّار اوران کی عہد شکنیوں کی حالت کا بنو نظیر کے یہو دیوں کے احوال پرقیاس کریں لیکن یہ جملہ ہرگزقیاسات ِ ظنّی سے تعلق نہیں رکھتا جن سے بعض لوگ احکام ِ دینی کے استنباط میں فائدہ اُٹھاتے ہیں ،تعجب کی بات ہے کہ بعض فقہائے اہل سُنت نے اس مقصد کے اثبا ت کے لیے مندرجہ بالا آ یت سے استفادہ کیاہے جب کہ بعض دوسروں نیاس پراعتراض کیاہے ۔خلاصہ یہ کہ عبرت اوراعتبار سے مُراد مندرجہ بالا آ یت میں ایک موضوع سے دُوسرے موضوع کی طرف منطقی اورقطعی انتقال ہے نہ یہ کہ خیال وگمان پر عمل کرنا ، بہرحال واقعی، اس قومِ یہود کی سرگزشت باوجود اس قوّت وعظمت وشوکت کے اور باوجود وسائل وامکانات واستحکامات کے ،عبرت انگیز تھی ،یہاں تک کہ بغیر اس کے کہ سلحہ کوہاتھ لگائیں، مسلمانوں کی ایسی جمعیّت کے مقابلہ میں، جو بظاہر ہرگزان کے مقابلہ کے قابل نہیں تھی ، سرتسلیم خم کردیااورہتھیار ڈال دیے اپنے گھراپنے ہاتھوں برہاد کیے اوراپنے مال ضرورت مند مُسلمانوں کے لیے چھوڑ گئے اورمختلف علاقوں میں بکھر گئے ، حا لانکہ تاریخوں کے حوالوں کے مطابق ابتدامیں انہوں نے مدینہ میں اس نے سکونت اختیار کی تھی جس پیغمبر کی آمد کاان کی کتابوں میں وعدہ کیاگیاتھا اس کوحاصل کریں اوراس کے اصحاب کی صف ِ اوّل میں قرار پائیں ۔ ایک حدیث میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
(کان اکثر عبادة ابی ذ ر التفکروالا عتبار )
ابوذر کی زیادہ ترعبادت غوروفکر کرنااورعبرت حاصل کرنا تھی(٢)
لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جودرد ناک حوادث کوخُود آزمائیں اور شکستوں کاتلخ مزہ خُود چکھیں لیکن کوئی عبرت حاصل نہ کریں ، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں : ( السعید من وعظ بغیرہ )
سعادت مند وہی ہے جودوسروں سے وعظ ونصیحت حاصل کرے (٣)
اس کے بعد والی آ یت کہتی ہے :
اگر یہ نہ ہوتا کہ خدانے ان کے لیے مقرر کررکھا تھا کہ جلاوطن ہوجائیں اوراس جگہ کوچھوڑ دیں تو ان پراسی دنیامیں عذاب نازل کرتا(وَ لَوْ لا أَنْ کَتَبَ اللَّہُ عَلَیْہِمُ الْجَلاء َ لَعَذَّبَہُمْ فِی الدُّنْیا) ۔ اس میں شک نہیں کہ جلا وطنی اوران عُمدہ سرمایوں کاچھوڑ جانا جن کے جمع کرنے میں انہوںنے ایک عمر صرف کی تھی ، خُود ان کے لیے ایک درد ناک عذاب تھا ۔ اسی بناپر اُوپر والے جملہ سے مُراد یہ ہے کہ اگر یہجمع کرنے میں انہو ں نے ایک عمر صرف کی تھی ، خُود ان کے لیے ایک درد ناک عذاب تھا ،اسی بناپر اُوپر والے جملہ سے مُراد یہ ہے کہ اگر یہ عذاب ان کے لیے مقدر نہ کیاگیاہو تا تو دوسرا عذاب ان پر نازل ہوتایعنی مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوتے اور قتل ہوجاتے ،خداچاہتا تھا کہ وہ دنیا میں دربدر مارے مارے پھریں اور یہ دربدر ہوناان کے لیے بسااوقات زیادہ دردناک تھااس لیے کہ جس وقت و ہ اپنے ان تمام قلعوں ، سجے جسائے گھروں ،کھیتوں اور باغات کویاد کرتے ،جواَب دوسروں کے قبضہ میں تھے اوروہ خود عہد شکنی اور پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے دوسرے علاقوں میں محروم سرگرواں تھے تو وہ بہت زیادہ تکلیف اور رُحانی عذاب میں گرفتار ہوتے تھے ، جی ہاں !خدا یہ چاہتاتھا کہ یہ مغر ور ،فریب کار اور عہد شکن گروہ اس قسم کے درد ناک عذاب سے دوچار ہو لیکن یہ صرف ان کادنیاوی عذاب تھا، اس لیے آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے :
اوران کے لیے آخرت میں بھی جہنم کاعذاب ہے (وَ لَہُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذابُ النَّار) ۔
یہ ہے دُنیا وآخرت ان لوگوں کی جوحق وانصاف کوٹھکرادیتے ہیں اور غر ور و خُود پرستی کے رہوار پرسوار ہوتے ہیں ۔ چو نکہ اس واقعہ کا بیان ،علاوہ اس کے کہ پروردگار کی قدرت اورپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی حقانیت کابیان ہے ،تمام لوگوں کوتنبیہ کرتاہے جویہود بنی نظیر جیسے اعمال کے حامل ہیں تاکہ مسئلہ انہی تک محدُود نہ رہے لہٰذا بعد والی آیت میں ایک بامقصد تعلیم دیتے ہوئے مزید فرماتاہے:
دنیا وآخرت کا عذاب اس بناء پر نازل ہوا کہ و ہ خدا اوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دشمن بن گئے (ذلِکَ بِأَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہَ وَ رَسُولَہُ) اور جوشخص خداکی دشمنی اختیار کرے تووہ اس پرعذاب نازل کرتاہے ،اس لیے کہ وہ شدید العقاب ہے ۔ (وَ مَنْ یُشَاقِّ اللَّہَ فَانَّ اللَّہَ شَدیدُ الْعِقاب)(٤) ۔
شاقوا مادہ ٔ شقاق سے اصل میں دو چیزوں کے درمیان شگاف پڑنے اور جدائی کے معنوں میں ہے اور چونکہ دشمن ہمیشہ مدمقابل قرار پاتاہے ،قابلِ توجہ یہ ہے کہ پروردگار ِ عالم آغاز آ یت میں خدا اوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی دشمنی کوپیش کرتاہے جب کہ آیت کے ذیل میں صرف خدا کی دشمنی کی بات کرتاہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسول ِخدا سے دُشمنی بھی خدا کی دشمنی ہے اور وہ دنوں ایک دُوسرے سے جُدا نہیں ہیں ۔شدید العقاب کی تعبیر ارحم الراحمین ہونے کے ساتھ کسی قسم کاتضاد نہیں رکھتی ۔ اس لیے کہ جو عفو ورحمت کامقام ہے وہاں وہ ارحم الراحمین ہے اورجہاں عذاب ،سزا اور عقوبت کامقام ہے وہاں وہ اشدالمعاقبین ہے جیساکہ دُعا میں آ یاہے (وایقنت انک انت ارحم الراحمین فی موضع العفووالرحمة واشد المعا قبین فی موضع النکال والنقمة )(٥)
مجھے یقین ہے کہ توعفو ورحمة کے مقام پر ارحم الرحمین ہے اورعذاب وسزا کی منزل میں بھی اشد المعاقبین ہے ۔زیربحث آیات کی آخری آیت میں خداوند ِ عالم ایک اعتراض کاجواب پیش کرتاہے جوبنو نظیر کے یہود نے جیساکہ ہم شان ِ نزول میں بھی کہہ چکے ہیں اُس موقعہ پرپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر کیاتھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے حکم دیاتھاکہ یہودیوں کے قلعوں کے پاس کی کھجوروں کے کچھ درخت کا ٹ دیے جائیں (تاکہ جنگ کے لیے جگہ کھلی ہوجائے یااس لیے کہ یہود ی پریشان ہوں اور قلعوں سے باہر نکل کرجنگ کریں) اُنہوںنے کہاتھاکہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!کیاوہ آپ ہی نہیں تھے جواس قسم کے کاموں منع کرتے تھے تویہ آیت نازل ہوئی اورکہا کھجور کے جس قیمتی درخت کوتم نے کاٹاتھا یااسے اپنی حالت پررہنے دیا ہے یہ سب کچھ خدا کے حکم سے تھا۔(ما قَطَعْتُمْ مِنْ لینَةٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہا قائِمَةً عَلی أُصُولِہا فَبِِذْنِ اللَّہِ ) (٦)
مقصد یہ تھا کہ فاسقین کوذلیل ورسوا کرے (و لیخز ی الفا سقین) لینة لون کے مادہ سے ہے اوراس کے معنی کھجور کے درخت کی ایک اعلیٰ نوع کے ہیں ،بعض مفسرین نے اسک ی لین کے مادّہ سے کھجور کے درخت کی ایک نوع کی نری کے معنوں میں تفسیر کی ہے ،یہ درخت نرم ہوتاہے اوراس کی شاخیں زمین کے قریب ہوتی ہیں ۔ اس درخت میں لگنے والی کھجور یں نرم اورلذیز ہوتی ہیں ،اورکبھی لینة کی تفسیر الوان کے حوالے سے ہوتی ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی مختلف انواع ہیں ۔ اس کی تفسیر نخل کریمہ بھی کی گئی ہے ۔ یہ سب تفسیر یں ایک ہی نوعیّت کی ہیں ، بعض مفسّرین نے لکھاہے کہ بنونظیر کے کھجوروں کے درخت بعض مسلمانوں نے کا ٹے جبکہ دوسرے مسلمان مخالف تھے ۔ اس موقع پر مندرجہ بالاآ یت نازل ہوئی اورنزاع کوختم کیا(٧)
بعض دوسرے مفسّرین نے کہاہے کہ یہ آ یت اصحاب میں سے دو افرا د کے عمل سے متعلق ہے کہ جن میں سے ایک کھجورکے اچھے درخت کاٹ رہاتھا تاکہ یہودی غصّہ میں آکرقلعوں سے باہر نکل آئیں ۔دوسرا کم قیمت درختوں کو کاٹتاتھا تاکہ جو قیمتی درخت ہیں ان سے فائدہ اُٹھا یاجائے ۔ اس بناپر ان کے درمیان اختلاف ہوا تو یہ آ یت نازل ہوئی اور بتایا کہ دونوں کام اللہ کے حکم سے تھے (٨) ۔
لیکن آ یت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مسلمانوں نے لینة اچھی قسم کے درختوں کوکاٹا اوران میں سے بعض کوچھوڑ دیا ، یہ چیز یہودیوں کے اعتراض کاسبب بنی اورقرآن نے اس کاجواب دیاتاکہ واضح ہوجائے کہ یہ کام ہوائے نفس کے نتیجے میں نہیں تھا بلکہ اس سلسلہ میں ایک حکم ِ الہٰی صادر ہوتاتھا کہ محدُود طریقہ پراس کام کو کیاجائے تاکہ نقصان زیادہ نہ ہو بہرصورت یہ حکم اسلام کے ایک مشہور قانون کااستثناء تھا جو یہ کہتاہے کہ دُشمن پرحملے کے وقت درختوں کونہیں کاٹناچاہیئے ، جانوروں کوذبح نہیں کرنا چاہیئے اورکھتیوں میں آگ نہیں لگانی چاہیئے یہ استثناء صرف ایسے موقف سے تعلق رکھتاتھا کہ جہاں دشمن کوقلعہ سے باہر نکالنے یامیدان ِ جنگ بنانے کی ضرورت تھی ۔
آم طورپر کلی میں ضرروری جزوی استثناء عام طورپر موجود ہوتے ہیں جیساکہ اصل ِ کلّی مردارگوشت نہ کھانا ہے لیکن مجبوری اور اضطرارکی صُورت میں اکل میتة مردار کا کھانا ہے ( وَ لِیُخْزِیَ الْفاسِقین ) تاکہ فاسقوں کوذلیل ورُسوا کرے یہ جملہ بتاتاہے کہ اس کاایک محدُود مقصد یہ تھاکہ دُشمن کوذلیل کیاجائے اوران کے حوصلوں کوپست کیاجائے ۔
٢۔کتابِ خصال مطابق نقل نورالثقلین، جلد ٥،صفحہ ٢٧٤۔
٣۔ نہج البلاغہ خطبہ ٨٦۔
٤۔من شرطیہ ہے اوراس کی جزامحذوف ہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے کہ من یشاق اللہ یعا قبہ فان اللہ شدید العقاب ۔
٥۔دُعائے افتتاح از "" ادعیۂ ماہِ مبارک رمضان""۔
٦۔ اوپر والی آ یت میں ساشرطیہ ہے ور فباذن اللہ اس کی جزا ہے ۔
٧۔تفسیر ابو الفتوح رازی جلد ١١ صفحہ ٩٣ ،یہی معنی تفسیر درالمنثور جلد ٦ ،صفحہ ١٨٨ پر بیان ہوئے ہیں ۔
٨۔تفسیرفخر رازی ،جلد ٢٩،صفحہ ٢٨٣۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma