وہ ہمیشہ قدرت پرجلوہ گر ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 23

اِن گیارہ اوصاف کے بعد جوگزشتہ آیتوں میں پروردگار ِ عالم کی ذات ِ پاک کے بارے میں بیان ہوئے ہیں نوآیتوں میں مزید اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔ پہلی زیربحث آ یت میں خدا کی صفات وجمال وجلال میں سے پانچ صفتوں کی طرف اشارہ ہواہے ،سب سے پہلے خالقیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : وہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ روز میں خلق کیاہے : (ہُوَ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فی سِتَّةِ أَیَّام) ۔چھ دن میں خلقت کامسئلہ قرآن مجید میں سات مرتبہ بیان ہواہے ۔سب سے پہلے سورہ اعراف کی آیت ٥٤ میں اورآخری مرتبہ اس زیربحث آ یت میں ( سورہ حدید کی آ یت ٤ ) جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہاہے کہ ان آ یات میں یوم سے مُراد عام دن نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایک دُور ہے چاہے وہ دُورچھوٹا ہوچاہے بڑاہو، ہوسکتاہے وہ کئی ملین سال پرمحیط ہو۔ اور یہ ایسی تعبیر ہے جوعربی زبان میں بھی استعمال ہوئی ہے اوردوسری زبانوں میں بھی ،مثلاً کہتے ہیں: آج فلاں گروہ کی باری ہے کہ وہ حکومت کرے اورکل دوسروں کی باری ہوگی ، یعنی ان کادور ہوگا۔ اس بات کوہم شواہد اورمبسوط شرح کے ساتھ جلد ٦ سورہ اعراف کی آ یت ٥٤ کے ذیل میں پیش کرچکے ہیں ( ١) ۔
البتہ خداکے لیے کچھ مشکل نہیں تھا کہ وہ سارے جہان کوایک ہی لمحے میں خلق کردے لیکن یہ مسلّم ہے کہ اگر ایساہوتا توخالق آفرید گار کی بہت کم عظمت ،قدرت اوراس کاعلم ظاہر ہوتالیکن اگرانہیں کئی اَرب سال میں، مختلف ادواراورمختلف صورتوں میں منظّم اور طے شدہ پروگراموں کے مااتحت پیداکرے تویہ اس کی قدرت وحکمت پرزیادہ واضح و آشکار دلائل لیے ہوئے ہوگا ۔علاوہ ازیں تخلیقی عمل کااس طرح بتدریج ہونا انسانی ترقی کی تدریجی رفتار اورمختلف مقاصد کے حصول میں عجلت نہ کرنے کے بارے میں ایک نمونۂ عمل کی حیثیت رکھتاہے ۔
اس کے بعد مسئلہ حکومت اورتد بیرعالم کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے: خدانے عالم کوپیداکرنے کے بعد تخت ِ حکومت پراِستقرار کیا (ٍ ثُمَّ اسْتَوی عَلَی الْعَرْشِ ) ۔وہ زمامِ حکومت اورتدبیرِ عالم کوہمیشہ سے اپنے ہاتھ میں رکتھاتھا اوررکھتاہے ۔اس میں شک نہیں کہ خدانہ جسم ہے اور نہ عرش کے معنی تخت ِ سلطنت کے ہیں بلکہ یہ تعبیر خدا کی حاکمیت ِ مطلقہ اورعالم ِ ہستی میں اس کی تدبیر کے نفوذ کاایک لطیف کنایہ ہے ۔لغت میںعرش اس چیز کے معنوں میں ہے جس پرچھت ہو۔اورکبھی چھت کوبھی عرش کہاجاتاہے اوریہ لفظ بادشاہوں کے اُونچے اُونچے تختوں کے معنوں میں بھی آ یاہے اورقدرت وطاقت کے کنائے کے طورپر بھی استعمال ہواہے جیساکہ ہم فارسی میں کہتے ہیں اس کے تخت کی بُنیاد یں گرگئیں یاعربی میں کہتے ہیں :(فلان ثل عرشہ )جواِس بات کاکنایہ ہے کہ اس کااقتدار برباد ہوگیا( 2) ۔
بہرحال اس کے برخلاف ،جوبے خبروں کے ایک گروہ نے خیال کیاہے کہ خدانے اس عالم کوپیداکرکیاس کے حال پر چھوڑ دیاہے،حقیقت یہ ہے کہ وہ زمامِ حکومت اورتدبیرِ عالم کو اپنے قبضۂ قدرت میں رکھے ہوئے ہے ۔ا س جہان کے نظاموں کی بلکہ ایک ایک چیز کی اس کی ذات سے وابستگی اس طرح ہے کہ اگرایک لمحے کے لیے ان سے نظرِ لُطف ہٹالے اوراپنے فیض وکرم کومنقطع کرلے تو فرو ریز ند قالبہاسب کچھ تباہ وبرباد ہوجائے گا ۔اس حقیقت کی طرف توجہ کی جائے توپھرانسان کویہ بلند یٔ نظر عطاہو تی ہے کہ وہ خدا کوہرجگہ ہرچیز کے ساتھ اوراپنی جان کے اندر دیکھے ،محسوس کرے اوراس سے محبت کرے ۔
اس سے خارج ہوتاہے اورجوکچھ آسمان سے نازل ہوتاہے اورجوکچھ آسمان کی طرف صعود کرتاہے وہ اس سب سے واقف وباخبرہے(یَعْلَمُ ما یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَ ما یَخْرُجُ مِنْہا وَ ما یَنْزِلُ مِنَ السَّماء ِ وَ ما یَعْرُجُ فیہا ) ۔اگرچہ یہ تمام اُمورھوبکل شی ء علیم کے مفہوم میں داخل ہیں جوگزشتہ آیات کاایک جُز ہے لیکن اِن معانی کی تشریح وتفصیل اس سلسلہ میں انسان کوخداکے علم کی وسعت کی طرف زیادہ توجہ دلاتی ہے ، جی ہاںوہ اس سے آگاہ ہے جوزمین میں نفوذ کرتاہے اورا س میں جذب ہوجاتاہے ۔ بارش کے تمام قطرات سے، سیلابوں کی موجوں سے ،نباتات کے دانوں سے جو ہو ا کی مدد سے یاکیڑے مکوڑوں کے ذ ریعہ زمین پربکھر جاتے ہیں اور اس میں نفوذ کرجاتے ہیں، درختوں کی جڑوں سے جب وہ پانی اورغذا کی تلاش میں زمین کی گہرائیوں میں اُتر تی چلی جاتی ہیں،انواع واقسام کی ایسی انواع واقسام کے کیڑے مکوڑوں سے جوزمین کے اندر گھربناتے ہیں،جی ہاں وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔ان گھاس کی پتیوں سے جوزمین سے سرنکلالتی ہیں اوران چشموں سے جوظاہر ہوتے ہیں اورمٹی اورپتھرکادل چیر کر باہر آ تے ہیں ، معدنوں اورگنجینوں سے، ان انسانوں سے جواس مٹی سے بنے ہیں ،اِن آتش فشاں پہاڑوں سے جوزمین کے اندر سے شعلے نکالتے ہیں، ان گیسوں اوربخارات سے جوزمین سے اُوپراُٹھتے ہیں، ان جاذبہ موجوں سے جواس کے اندرسے اُٹھتی ہیں، خدا ان تمام سے،ان کے ایک ایک جُز اور ذرّہ ذرّہ سے واقف ہے اسی طرح جوکچھ آسمانوں سے نازل ہوتاہے ،بارش کے قطروں سے سُورج کی حیات بخش کرنوں تک ، فرشتوں کے دستوں سے لے کروحی وکتب ِآسمانی کی طاقتور تحریروں تک ، اس عالم کی روشنی سے لے کرشہاب ِثاقب اوران سرگرداں پتھروں اورسنگریزوں تک جوزمین میںجذب ہوتے ہیں ،وہ ان سب کی حقیقتوں سے باخبرہے ۔نیز جوکچھ آسمانوں کی طرف صعود کرتاہے ، عام اس سے کہ وہ فرشتے ہوں، اِنسانوں کی ارواح ہوں ،بندوں کے اعمال ہوں ، انواع واقسام کی دعائیں ہوں، طرح طرح کے پرند ے اور بخارات ہوں، بادل ہوں یاان کے علاوہ دوسری چیزیں ہوں، جنہیں ہم جانتے ہیں یانہیںجانتے، وہ سب اس کی بارگاہِ علم میں آشکار و ہویدا ہیں، اگر اس سلسلہ میں تھوڑا ساسوچیں کہ ہرلمحہ اربوں کی تعداد میں مختلف موجودات زمین کے اندر داخل ہوتے ہیں یاوہ جوآسمان کی طرف صعود کرتے ہیں اور حدوحساب سے باہر ہیں اورخدا کے علاوہ کوئی بھی ان کاشمار نہیں کرسکتا توپھرہم پروردگار کے علم کی وسعت سے آگاہ ہوسکیں گے ۔آخرمیں چوتھی اورپانچویں صفت کے سلسلہ میں ایک حسّاس نکتہ پرانحصار کرتے فرماتاہے : وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں ہو (وَ ہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ ما کُنْتُمْ) جبکہ ایساہے توپھر جوکچھ تم کرتے ہو وُہ اسے جانتاہے ( وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیر) ۔وُ ہ کِس طرح ہمارے ساتھ نہ ہوجبکہ ہم نہ صرف اپنے وجود میں بلکہ اپنی بقا کے بارے میں بھی ہر لمحہ اس کے محتاج ہیں اوراس سے مدد لیتے ہیں ۔وُہ عالم ِ ہستی کی رُوح ہے،جانِ جہاں ہے بلکہ ہرشے سے بہتر وبرتر ہے ،اس وقت جب ہم ایک ذرّہ ٔ خاک کی شکل میں ایک گوشہ میںپڑے ہوئے تھے اورپھر اس لمحے جب ہم جنین کی صُورت میں شکمِ مادر میں تھے وہ ہمارے ساتھ تھا ،وہ ساری عمر ہمارے ساتھ رہا اور عالم ِبرزخ میں بھی ہرجگہ ہمارے ساتھ ہے ۔اِن حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہم سے بے خبر ہو ۔فی الحقیقت یہ احساس کہ وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے اور نہ صرف ہم کوعظمت وشکوہ بخشتا ہے بلکہ ہمارے نفس کواعتماد واطمینان عطاکرتاہے اور شجاعت وشہامت پیدا کرتاہے اوراس کے علاوہ اسے یعنی ہمارے نفس کوشدید ذمّہ داری کااحساس دلاتاہے ،کیونکہ وہ ہرجگہ حاضر وناظر اورنگراں ہے ۔اس کی قربت کایہ احساس ایک عظیم درسِ اصلاح ِ احوال ہے ،جی ہاں یہ اعقاد انسان کے لیے تقویٰ ، پاکیزگی اورکامیابی کابنیادی سبب ہے اوراس میں اُس کی (انسان کی )عظمت وبزرگی کی رمز بھی پنہاںہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وُہ ہمیشہ ہرجگہ ہمارے ساتھ ہے ۔ یہ کوئی کنایہ مامجاز نہیںہے بلکہ ایسی حقیقت ہے جودلپذیر ، عقل انگیز اوررُوح پروربھی ہے اورہمارے دلوں میں رعب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں احساسِ ذمہ داری بھی دلاتی ہے ۔اسی لیے ایک حدیث میں پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرما:
انّ من افضل ایمان المرء ان یعلم ان اللہ تعالیٰ معہ حیث کان
انسان کے ایمان کاافضل ترین درجہ یہ ہے کہ وہ یہ سجھے کہ جہاں کہیں بھی وہ ہے خدا اس کے ساتھ ہے ( 3) ۔
ایک اورحدیث میں ہمیں ملتاہے ،کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا: این اجدک یاربّ؟ پروردگار میں تجھے کہاں پاوں؟ (قال یاموسیٰ اذاقصدت الی فقد وصلت الیّ)فرمایا اے موسیٰ توجیسے ہی میرا اِرادہ کرے ( توسمجھ لے )کہ مجھ تک پہنچ گیا( 4) ۔
اصولی طورپر بندہ کے ساتھ خدا کی یہ معیّت اس قدر پُر لطف اوردقیق ہے کہ ہر مفکر ومومن انسان اپنی پروازِفکر اورجذبۂ ایمانی کے مطابق اس کاادراک کرتاہے اوراس کی گہرائی سے باخبر ہوتاہے ،اس کی حاکمیت وتدبیر کے بعد گفتگو سارے عالم ِ ہستی پراس کی حاکمیت تک جاپہنچتی ہے ۔فرماتاہے : آسمانوں اور زمین کی مالکیّت اسی کے لیے ہے (لَہُ مُلْکُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ) ۔
آخرمیں مرجعیت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے : اورتمام کاموں کی بازگشت اسی کی طرف ہے ( وَ ِلَی اللَّہِ تُرْجَعُ الْأُمُور) ۔ جی ہاں جب وہ ہمارا خالق و مالک اورحاکم ومدبّر ہے اور ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے تویقیناہم سب کی اورہمارے امور کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہوگی ، ہم اس کی منزل ِ عشق کے مسافر ہیں ،اُمید اور دوسری توانائیوں کابوجھ اپنے کاندھے پررکھے ہوئے منزل ِ عدم سے چلے ہیں اور اقلیم ِ وجودتک یہ سارا راستہ ہم نے طے کیاہے ۔ ہم اس کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے کیونکہ ہمارا مبدأ ومنتہیٰ ہے ۔ قابلِ توجہ یہ امر ہے کہ گزشتہ تین آیتوں میں بعینہ یہی توصیف بیان ہوئی تھی (لَہُ مُلْکُ السَّماواتِ وَ الْأَرْض)ممکن ہے یہ تکرار اس بناپر ہوکہ وہاں گفتگو صرف زندہ موجودات کی موت وحیات سے متعلق تھی اور یہاں بحث کادامن زیادہ وسیع ہے اور اَب گفتگو یہ ہے کہ تمام امور کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔ پہلے ہرچیز پرخدا کے قادر ہونے کے سلسلہ میں ایک تعارفی بیان ہے کہ ہرچیز کی بازگشت اس کی طرف ہے ، یہ دونوں اموراس کالازمہ ہیں کہ زمین اورآسمان دونوں خداکی ملکیّت ہیں ۔ الامور کی تعبیر جوجمع کی صُورت میں ہے یہ بتاتی ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی کی سمت رُخ کیے ہوئے چل رہے ہیں، اوریہ ایسا چلناہے کہ اس میں کسِی مقام پر کوئی توقف نہیںہے ۔اِس صُورت ِحال کے پیش ِ نظر کا مفہوم صرف اس حد تک محدُود نہیں ہے کہ قیامت کے لیے انسانوں کی بازگشت اس کی طرف ہے ،اگرچہ معاد کے موضوع کاتعلق خصوصیّت کے ساتھ انسان سے ہے ۔ آخر ی زیربحث آ یت میں دواور صفتوں کی طرف اشارکرتے ہیں ہوئے فر ماتاہے : وہ رات کودن میں اور دن کورات میں داخل کرتاہے (یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہارِ وَ یُولِجُ النَّہارَ فِی اللَّیْل)(5) ۔
جی ہاں بتدریج ایک میں کمی کردیتاہے اوردوسرے میں اضافہ کردتیاہے ۔رات اور دن کے طول میں تغیّر کرتاہے ۔وہ تغیّر جوسال بھر کی چار فصلوں کے ہمراہ ہے ۔ان تمام برکتوں کے ساتھ جوان فصلوں میں انسان کے لیے چھپی ہوئی ہیں ۔اس آ یت کی ایک اورتفسیر بھی ہے وہ یہ کہ سُورج کے طلوع وغروب کے وقت روشنی وتاریکی کے نظام میں کبھی یک لخت تبدیلی نہیں ہوتی تاکہ انسان اوردوسرے زندہ موجودات کے لیے مختلف قسم کی مشکلات پیدانہ ہوں ، یہ صُورت ِ احوال رفتہ رفتہ و قوع پذ یرہوتی ہے اوروہ موجودات کوآہستہ آہستہ دن کی روشنی سے رات کی تاریکی کی طرف اوررات کی تاریکی سے دن کی روشنی کی طرف منتقل کرتاہے اوررات اور دن کی آمد کااعلان کافی پہلے کرتاہے تاکہ سب لوگ اس تبدیلی کے لیے خود کوآ مادہ کرلیں ،دونوں تفسیروں کومفہوم ِ آ یت میں جمع کرنے سے کوئی علمی قباحت لازم نہیں ا تی ۔آخر میں مزید کہتاہے :اوروہ اس چیزسے جو دلو ں پر حاکم ہے باخبرہے (ِ وَ ہُوَ عَلیم بِذاتِ الصُّدُور) ۔ جس طرح سُورج کی حیات بخش کرنیں اور دن کی روشنی رات کی تاریکی کی گہرائیوں میں نفوذ کرجاتی ہے اورہرجگہ کو روشن کردیتی ہے ، اسی طرح پروردگارکاعلم بھی انسان کے دل وجان کے تمام اطراف و جوانب میں نفوذ کرتاہے اوراس کے تمام اسرار کوواضح وروشن کردیتاہے ۔قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ گزشتہ آ یات میں گفتگو یہ تھی کہ خدا ہمارے اعمال سے باخبرہے (وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیر)یہاںگفتگو یہ ہے کہ وہ ہماری نیّتوں، ہمارے عقائد واعمال اور افکار سب سے باخبرہے (وَ ہُوَ عَلیم بِذاتِ الصُّدُور)لفظ ذات جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے ،عربی زبان میں عین وحقیقت کے معنی میں نہیں ،یہ فلسفیوں کی ایک اصطلاح ہے ۔ یہ لفظ لُغت میں کسی چیزکے صاحبکے معنی میں ہے ۔ اس بناپر ذات الصدور ان نیّتوں اور عقائد کی طرف اشارہ ہے جن کاانسانوں کے دلوں پرقبضہ ہے اور وہ ان پرحکومت کرتے ہیں ( غور فرمائیے )کتنا اچھاہوا اگرانسان خداکی ان تمام صفتوں کااپنے دل وجان کی گہرائیوں سے اقرار کرے اوراپنے اعمال، نیّتوں اورعقائد سے اس کو باخبر سمجھے توکیااس شعور کے بعد یہ ممکن ہے کہ اِنسان اطاعت و بندگی کے راستے سے ہٹ کربُرائی کی راہ اختیار کرے ۔
١۔تفسیرنمونہ ،جلد ٦ ،صفحہ ١٢٩۔
١۔عرش کی حقیقت کے سلسلہ میں مزید وضاحتیں تفسیرنمونہ جلد ٤ ،آیت ٥٤ سورہ اعراف اورپہلی جلد سورہ بقرہ کی آ یت ٢٥٥ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔
3۔ درالمنثور ،جلد ٦ ،صفحہ ١٧١۔
4۔رُوح البیان ،جلد ٩ ،صفحہ ٣٥١۔
5۔"" یولج "" مادہ "" ایلاج"" سے ہے اوروہ بھی "" ولوج ""کے مادّہ سے لیاگیاہے "" ولوج""کے معنی داخل ہونے اورنفوذ کرنے کے ہیں اور ""ایلاج ""داخل کرنے اورنفوذ کرنے کے معنی میں ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma