حضرت ابراہیم کے متعلق رو نما ہوا ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
چند اہم نکاتبت پرستی کی ابتد اء کا تعین بہت مشکل ہے

گذشتہ آیت پروردگار کی ولایت اور راہنمائی کے ذریعے مومنین کی ہدایت اور طاغوت کی پیروی کے ذریعے کفارکی گمراہی کے بارے میں تھی ۔اس کے بعد زیر نظر آیت میں خدا ایک زندہ اور واضح شاہد کا ذکر کرتا ہے جو اس عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم کے متعلق رو نما ہوا ۔
ہوا یہ کہ حضرت ابراہیم نے اپنے زمانے کے ایک جابر سے بحث مباحثہ کیا اور طاغوت کی اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کئے وہ اپنی حکومت کی وجہ سے باد ہٴ غرور میں سر مست تھا لہٰذا حضرت ابر ہیم سے پوچھنے لگاتیرا خدا کون ہے ۔حضرت ابراہیم نے کہا وہی جو زندہ کرت اہے اور مارتا ہے ۔حقیقت میں آپ نے عظیم شاہکار قدرت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ۔مبداء جہان ہستی کے علم وقدرت کی واضح نشانی یہی قانون موت وحیات ہے لیکن اس نے مکر وتزویر کی راہ اختیا ر کی اور مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ لوگوں کو اور اپنے حمایتیوں کو غافل رکھنے کے لئے وہ تو میں زندہ کرتا اور مارتاہو ںاور موت وحیات کا قانون میرے ہاتھ میں (انااحی وامیت )
قرآن میں اس کے جملے کے بعد واضح نہیں ہے کہ اس نے اپنے پید ا کئے گئے مغالطے کی تائید کے لئے کس طرح عملی اقدام کیا لیکن احادیث وتواریخ میں آیا ہے کہ اس نے فورا د و قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا ۔قیدی لا ئے گئے تو اس نے فرمان جاری کیا کہ ایک کو آ زاد کردے اور دوسرے کو قتل کردو۔ پھر کہنے لگا : تم نے دیکھاکہ موت وحیا ت کس طرح ہمارے قبضہ میں ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موت وحیا ت سے متعلق دلیل ہر لحاظ سے قوی تھی لیکن دشمن سادہ لوح لوگوں کوجھل دے سکتا ہے حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے دوسرا استد لال پیش فرمایا خدا آفتا ب کو افق مشرق سے نکالتا ہے اگر جہان ہستی کی حکومت تیرے ہاتھ میں ہے توتو اسے مغرب سے نکال کردکھا ۔یہا ں دشمن خاموش ،مبہوت اور عاجز ہو گیا ۔اس میںسکت نہ رہی کہ اس زندہ منطق کے بارے میں کو ئی بات کرسکے ۔ایسے ہٹ دھر م دشمنوں کو لاجواب کرنے کایہ بہتر ین طریقہ ہے۔یہ مسلم ہے کہ موت وحیات کا مسئلہ کئی جہات سے آسمان اور گردش شمس وقمر کی نسبت پرور دگار عالم کے علم وقدرت پر زیادہ گواہی دیتا ہے ۔اسی بناء پر حضرت ابراہیم  سے پہلے وہی مسئلہ پیش کیا اور یہ فطری امر ہے کہ صساحب فکر اور روشن ضمیر افراد اس مجلس میں ہو ں گے تو وہ اسی دلیل سے مطمئن ہو گئے ہوں گے کیو نکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک قیدی کو آازاد کر نااور دوسرے کو قتل کر دینایہ قطعی اور طبعی موت وحیا ت سے بالکل ربط نہیں رکھتاجو لوگ کم عقل تھے ا ور اس د ور کے ظالم حکمران کے پیدا کردہ مغالطے سے متائثرہوسکتے تھے ان کی فکر راہ حق سے منحرف ہوسکتی تھی لہٰذا آپ نے دوسرااستدلال پیش کیا اور سورج کے طلوع وغروب کا مسئلہ پیش کیا تاکہ حق ہردوطرح کے افراد کے سامنے واضح ہو جائے ۔
چند اہم نکات
۱۔حضرت ابراہیم کے مد مقابل کون تھا :سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے مد مقابل اس اجتماع میں کون تھا اور کون آپ سے حجت بازی کررہا تھا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں اس کے نا م کی صراحت نہیں ہے لیکن فرما یا گیا ہے ۔
ان اٰتٰہ اللہ الملک
یعنیََ۔۔۔ اس غرور تکبر کے باعث جو اس نشہٴ حکومت کی وجہ سے پیدا ہو چکا تھا وہ ابراہیم سے حجت بازی کرنے لگا ۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام سے منقول در منثور کی ایک حدیث میں اور اسی طرح تواریخ میں اس کا نام ”نمرود بن کنعان “بیان کیا گیا ہے
۲۔یہ مباحثہ کب ہوا :زیر آیت میں اس مبا حثہ کا ،وقت نہیں بتایا گیا ۔لیکن قرائن سے اندا ز ہ ہو تا ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابر اہیم  کی بت شکنی اور آگ کی بھٹی سے نجات کے بعد کا ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ آگ میں ڈالے جا نے سے قبل اس گفتگوکا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا اور اصولی طور پر بت پرست آپ کو ایسے مباحثے کا حق نہ دے سکتے تھے وہ حضرت ابراہیم  کو ایک ایسا مجرم اور گنہگار سمجھتے تھے جسے ضروری تھا کہ جتنی جلدی ہوسکے اپنے اعما ل ا ور خدا یان مقدس کے خلا ف قیام کی سزا ملے ۔وہ توانہوںنے بت شکنی کے اقدا م کا صرف سبب پوچھا تھااور اس کے بعد انہوںنے انتہائی غصے اور سختی سے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر ہوا تھا لیکن جب آپ حیرت انگیز طریقے سے آگ سے نجات پاگئے تو پھر اصطلاحی الفاظ میں ” نمرود کے حضور رسائی ہو ئی “اور پھر بحث مبا حثہ کے لئے بیٹھ سکے۔
۳۔ بحث سے نمرود کا مقصد :آیت سے اچھی طرح واضح ہو تا ہے کہ اس بحث اور گفتگو کے ذریعہ نمرود کسی حقیقت کی جستجو نہ کررہا تھا بلکہ وہ اپنے باطل موقف کو بر تر ثابت کررہا تھاشاید لفظ ” حاج“ اسی مقصد کے لئے استعما ل ہو اہے کیونکہ یہ لفظ عموما ایسے ہی مواقع پر ا ستعما ل ہو تا ہے۔
۴،نمرود کا دعوائے الوہیت:آیت سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ وہ ظالم حکمران اپنے بارے میں الوہہیت کا مدعی تھا ۔یہی نہیں کہ وہ اپنی پر ستش کرو اتا تھا بلکہ اپنے آپ کو عالم ہستی کا پیدا کرنے والابھی بتاتا تھا یعنی اپنے آپ کو معبود بھی سمجھتا تھا اور خالق بھی ۔
ایسا ہو نا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ جب لوگ پتھراور لکڑی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور ان کی پر ستش کے علاوہ انہیں امور عالم میں موئثر اور سہیم بھی مانتے ہیںتو ایسا موقع ایک مکار اور ظالم حکمرا ن کے لئے پیش آسکتا ہے کہ وہ سادہ لوح لوگوںسے فائدہ اٹھائے ، انہیں اپنی طرف دعوت دے اور اپنے آپ کو ایک بنا کرپیش کرے تاکہ اس کی بھی پرستش ہو اور لوگ اس کی خالقیت کے سامنے سرجھکائیں۔

 

چند اہم نکاتبت پرستی کی ابتد اء کا تعین بہت مشکل ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma