عمره اور حج کے اعمال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خرچ کرنا معاشرے کو هلاکت سے بچاتا هے موسم حج میں اقتصادی کارکردگی

عام طور پر خانہ خدا کے زائرین پہلے مراسم عمرہ اس ترتیب سے بحالا تے ہیں:
معین نقاط جنہیں میقات کہتے ہیں سے احرام باند ھتے ہیں یعنی وہ عہد کرتے ہیںکہ احرام باند ھے ہو ئے شخص پر جو کام حرام ہیں انہیں ترک کر دیں گے اور احرام کا لباس جو وہ ان سلے کپڑ ے کے ٹکروں پر مشتمل ہو تا ہے پہن لیتے ہیں اور لبیک لبیک کہتے ہوئے خانہ خدا کی طرف چل پڑ تے ہیں۔ سب سے پہلے سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور اس کے بعد اس جگہ پر جو مقام ابراہیم کے نام سے مشہور ہے دو رکعت نماز وا کر تے ہیں ۔ اس کے بعد صفا و مروہ کی دو پہاڑیوں کے در میان آتے جاتے ہیں اورپھر اپنے کچھ بال یا ناخن کاٹنے سے احرام سے خارج ہو جاتے ہیں۔
مراسم حج بجالا نے کے لیے مکہ میں احرام باند ھتے ہیں ۔ نویں ذی الحج کو مکہ سے چار فرسخ دوربیابان عرفات کی طرف جاتے ہیں ۔ اس دن زوال سے لے کر غروب آفتاب تک وہاں رہتے ہیں ۔ یہاں۔ اپنے پروردگار سے دعا و زاری کر تے ہیں ۔ غروب آفتاب کے بعد مشعر الحرام کی طرف کوچ کر تے ہیں ۔ یہ مقام مکہ سے ڈھائی فرسخ دور ہے ۔ رات اس مقدس وادی میں بسر کر تے ہیں اور طلوع آفتاب کے وقت اس سرزمین سے منی کی طرف چل پڑ تے ہیں ۔ یہ مقام مشعر الحرام سے قریب ہی ہے ۔ یہ عید قربان کادن ہے اسی دن ایک خاص جگہ حجرہ عقبہ پر سات کنکریاں مار تے ہیں ۔ اس کے بعد قربانی کرتے ہیں اور پھر سر کے بال منڈ واکر احرام سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ اسی دن یا اس کے بعد مکہ کی طرف پٹ آتے ہیں ۔ وہاں طواف خانہ خدا ۔ نماز طوافصفا و مروہ کے در میان سعی  طواف منی اور نماز طواف منی بجالا تے ہیں گیارہ اور بارہ کی در میانی رات منی میں گزار تے ہیں ۔ اس طرح مراسم حج انجام دیتے ہیں ۔ یہ حج در اصل ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کے مراسم تہذیب نفس سے مربوط مسائل اور اجتماعی و معاشر تی فلسفوں کی طرف کنایات و اشارات ہیں (ان میں سے ہر فلسفہ متعلقہ آیات کے ذیل میں تفصیل سے بیان ہوگا)
اب اس امر کی طرف توجہ دی جانا چاہئیے کہ آیت کہتی ہے کہ یہ تمام اعمال خدا کے لیے اور اس کے فرمان کے مطابق ہو نا چاہئیں اور انہیں ظاہریت ریا کاری اور بتوں کے لیے نہیں ہو نا چاہئیے۔
اس بناء پر آیت کا پہلا جملہ (
واتموا الحج و العمرة للہ) یہ بتاتا ہے کہ حج و عمرہ کے اعمال میں تقرب الہی کے سواکوئی وجہ اور سبب نہیں ہوناچاہئیے۔
فان احصرتم فما استیسر من الہدی مزید کہتا ہے کہ اگر احرام باند ھے ہوئے ہو اور پھر کوئی رکاوٹ مثلا یا دشمن کا خوف لاحق ہوجائے اور عمرہ و حج کے اعمال نہ بجالائے جاسکیں تو ضروری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی ذبح کرو توجہ رہے کہ اگر یہ رکاوٹ بیماری و غیرہ کی طرح کی ہو اور عمرہ مفردہ کا احرام باند ھ رکھا ہے تو قربانی کو مکہ میں بھیجنا چا ہئیے تاکہ وہاں ذبیح کی جا ئے اور اگر دشمن کی طرف سے ممانعت ہوئی ہے تو جہاں ہیں وہیں قربانی کا فریضہ انجام دینا چاہئیے ۔ جیسے پیغمبر اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر کیا تھا۔ اگر حج کا احرام باند ھ رکھا ہے اور بیماری کا سامنا ہو تو قربانی منی میں بھجینا چاہئیے۔
و لا تحلقوا ر ؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ  حج میں جن کاموں کو انجام دینا ہے ان میں سے ایک سر کے بالوں کا منڈ وانا ہے لیکن توجہ رہے کہ قربان گاہ میں قربانی ذبح ہو نے سے پہلے تم یہ عمل بجالا نے کا حق نہیں رکھتے ۔
مگر جس شخص کو کوئی بیماری یا کچھ اور رکاو ٹیں در پیش ہیں جن کی وجہ سے اسے وقت سے پہلے سر منڈ وانا پڑ ے اور اس کام کے پیش آنے کی صورت میں ضروری ہے کہ فدیہ د ے اور یہ فدیہ تین دن کے روزے یا چھ مساکین کو کھا نا کھلا نا اور یا ایک بھیڑ ذبح کرنا ہو سکتا ہے۔
فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرة الی احج  جب بیماری یا دشمن سے آسودہ خاطر ہو جاؤ اور حج تمتع انجام دینا چا ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق اونٹ  گائے یا بھیڑ کی قربانی دو ۔ قربانی کا جانور نہ مل سکے یا مالی حالت اس کی اجازت نہ دے تو تین دن حج کے ایام میں (ساتویں ، آٹھویں اور نویں کادن) اور سات دن واپس جانے کے بعد کل دس دن روزے رکھو۔
تلک عشرة کاملة معلوم ہے کہ تین اور سات کل دس دن نتبے ہیں ۔ پھر بھی قرآن کہتا ہے : یہ دس دن کامل ہو جائیں گے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ حرف واؤ اگر چہ عام طور پر جمع کر نے کے لیے آتا ہے نہ کہ تخییر کے لیے تلک عشرة کاملة کا جملہ لا یا گیا ہے اور شاید لفظ کاملہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہو کہ دس دن کے روزے بطور کامل قربانی کا قائم مقام بن سکتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ دس کا عدد ایک لحاظ سے کامل ترین عدد ہے کیونکہ اعداد کو جب ایک سے شمار کر تے ہیں تو وہ دس تک اپنی صعودی سیر کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اس کے بعد تو حقیقت میں دس اور کسی دس سے پہلے والے عدد کی ترکیب ہے ۔ مثلا گیا رہ (دس اور ایک) اور بارہ (دس اور دو)
ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام یہ حج تمتع کا پرواگرام ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجدا الحرام میں موجود یا اس کے قرب و جوار میں نہ ہوں ۔( فقہا میں مشہور یہ ہے کہ جو شخص مکہ سے ۴۸ میل دور رہتا ہے حج تمتع اسکی ذمہ داری ہے لیکن جومکہ سے اتنا دور نہیں اس کا فریضہ حج قران یا حج افراد ہے اس مسئلے کی تفاصیل اور مدارک فقہی کتب میں موجود ہیں۔
آیت کے آخر میں حکم دیا گیاہے کہ تقوی اختیار کرو اور اس سلسلے میں جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو اور پروردگار کے شدید عقاب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو۔
یہ تاکید شاید اس لئے ہے کہ حج ایک اہم اسلامی عبادت ہے اور اگر اس کے مراسم و اعمال پر پوری توجہ نہ دی جا ئے یا اس کی روح کو فراموش کر دیا جائے تو مسلمانوں کوبہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ ے گا۔
حج وہ عبادت ہے جسے امیر المومنین نے اسلام کا پرچم اور اہم شعار قرار دیا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں آپ نے وصیت کر تے ہو ئے ارشاد فرمایا :
اللہ اللہ فی بیت ربکم لا تخلوہ ما بقیتم فانہ ان ترک لم تناظر وا :
تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں جب تک زندہ ہو خانہ خدا سے دستبر دار نہ ہونا کیونکہ اگر اس کی زیارت متروک ہو گئی تو تمہیں مہلت نہیں دی جائے گی اور تمہارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
دشمنان اسلام کی طرف سے یہ جملہ بھی مشہور ہے کہ وہ کہتے ہیں جب تک حج کی رونق بر قرار ہے ہم ان پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔۱
۔ ایک اور دانشور کہتے ہیں۔
مسلمانوں کی حالت پر افسوس ہے اگر وہ حج کا معنی اور حقیقت نہ سمجھ سکیں اور دو سروں پر بھی افسوس ہے اگر وہ اس کا معنی سمجھ لیں۔
اس بحث کے آخر میں جس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ اس میں شک نہیں کہ حج تمتع ( وہ حج جوپہلے عمرہ سے شروع ہو تا ہے اور اس میں عمر ے کے تمام اعمال بجالا نے کے بعد احرام سے نکل جا تے ہیں پھر نئے سر ے سے حج کا احرام باند ھتے ہیں اور اس کے مراسم بجالا تے ہیں ) شریعت اسلام میں زیر نظر آیت کے مطابق شروع ہے اور اس آیت کی منسوخی کے بارے ہیں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ نیز اس سلسلے مین شیعہ اور اہل سنت کتب میں بہت سی روایات منقول ہیں ۔ ان میں سے اہل سنت کے مشہور محدثین مثلانسائی نے اپنے سنن میں ، احمد نے اپنے مسند میں ، ابن ماجہ نے اپنے سنن میں، بیہقی نے اپنے مشہور سنن میں، ترندی نے اپنی صحیح میں اور مسلم نے بھی اپنی مشہور کتاب میں تاکیدی روایات نقل کی ہیں یہ حکم منسوخ نہیں ہوا اور قیامت کے لئے باقی ہے۔
جو مشہور روایت حضرت عمر سے اس حج کی اور نکاح موقت کی حرمت کے بارے میں نقل ہوئی ہے ، واضح ہے کہ صریح قرآن کے مقابلے میں وہ کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں ہے قطع نظر اس کے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے علاوہ کوئی شخص کسی حکم کو منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔ اسی بناپر اہل سنت کے بہت سے علما ء نے بھی مذکورہ روایت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
۱۹۷۔
الْحَجُّ اٴَشْہُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیہِنَّ الْحَجَّ فَلاَرَفَثَ وَلاَفُسُوقَ وَلاَجِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ یَعْلَمْہُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی وَاتَّقُونِی یَااٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ
ترجمہ
۱۹۷۔ حج معین مہینوں میں ہے اور جولوگ ( احرام اور مناسک حج شروع کر لینے سے ) حج اپنے اوپر فرض کر لیتے ہیں ( انہیں توجہ رکھنی چا ہیئے کہ ) حج میں عورتوں سے جنسی ملاپ ، گناہ اور جدال نہیں ہے اور جوا چھے کا م تم انجام دیتے ہو، خدا انہیں جانتا ہے ۔ زاد راہ اور توشہ مہیا کرلو کیونکہ بہترین زاد و توشہ پرہیزگاری ہے اور اے صاحبان عقل مجھ سے ڈرو ۔
تفسیر
اس آیت میں قرآن یاد دلا تا ہے کہ حج کا عمل معین مہینوں میں انجام پانا چاہیئے اور اسے سال بھر انجام نہیں دیا جا سکتا اور جیسا کہ کتب حدیث ، تفسیر اور فقہ میں ہے کہ یہ عظیم عبادت صرف شوال ، ذی القعدہ اورذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں انجام دی جا سکتی ہے( اور بعض اعمال تو صرف ذی الحجہ کی نویں ، دسویں ، گیا رھویں اور بارھویں تاریخوں ہی میں انجام دیئے جا سکتے ہیں اور باقی اعمال اس پوری مدت میں انجام پا سکتے ہیں۔
فمن فرض فہین الحج فلا رفث
اس کے بعد قرآن بیان کرتا ہے کہ جو لوگ احرام اور اعمال حج میں مشغول ہو کر اپنے او پر حج واجب کر چکے ہیں انہےں اعمال حج بجا لا تے ہو ئے جنسی ملاپ اور کوئی گناہ انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہئیے اور یونہی بی کار گفتگو ، بے فائدہ بحث ومباحثہ اور بے مصرف کشمکش ترک کر دینی چا ہئیے کیوںکہ یہ ماحول اور مقام عبادت، خلوص اور مادی لذات کے ترک کرنے کاہے یہ وہ ماحول ہے کہ جس سے روح کولینا چاہئیے اور جہان مادہ سے اسے کاملا جدا ہو ناچاہئیے اور عالم مادہ سے ماوراء راستہ پانا چاہئیے اور اس کے ساتھ ساتھ اتحاد و اتفاق اور برادری کے رشتے کو محکم کرنا چا ہیئے ۔
و ما تعفلوا من خیر یعلمہ اللہ
جیسا بھی نیک عمل تم سے سرزد ہو خدا اسے جانتا ہے اور یہ پہلی جزا اور ثواب ہے جو نیک شخص کو ملتا ہے کیونکہ ایک صاحب ایمان کی پہلی مسرت تو یہی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ پروردگار اس عمل کو جانتا ہے جسے اس نے اس کی خاطر انجام دیا ہے اور یہ پہلو بہت ہی لذت بخش ہے۔
و تزردوا فان خیر الزاد التقوی
آیت کے اس حصے میں زاد راہ مہیا کر نے کا حکم دیا گیا ہے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں یمن کے لوگوں میں سے ایک گروہ خانہ خدا کی زیارت کے لیے چل کھڑا ہوتا تھا اور کوئی زاد راہ ساتھ نہ لیتا تھا ۔ ان لوگوں کی منطق یہ تھی کہ ہم خدا کے گھر کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ہمیں کھانا نہ دے حالانکہ خدا نے سب کو غذا اور مادی وسائل دئیے ہیں لہذا آیت کے اس حصے میں حکم دیا گیا ہے کہ توشہ راہ مہیا کرو اور غذا اپنے ساتھ اٹھا کر لے جاؤ۔
اس کے علاوہ ایک معنوی مسئلے کی طرف بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ اس توشہ سفر کے علاوہ ایک اور زاد راہ کی بھی بہت ضررت ہے جسے مہیا کرنا ہے اور وہ ہے پرہیزگاری اور تقوی۔
یہ جملہ اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ سفر حج میں معنوی زاد راہ مہیا کرنے کے بہت مواقع ہیں جن سے غفلت نہیں برتنا چاہئیے وہاں اسلام کی مجسم تاریخ اور ابراہیم جیسے توحید کے علمبردار کی فداکاری کے مناظر اور پروردگار کے مخصوص جلو ے یوں نظر آتے ہیں کہ کہیں اور اس طرح سے دکھائی نہیں دیتے ۔ جن کی روح بیدار اور فکر زندہ ہے وہ ایک عمر کے لیے اس بے نظیر روحانی سفر سے معنوی اور روحانی توشہ فراہم کر سکتے ہیں۔
و التقون یا اولی الالباب
آیت کے اس حصے میں روئے سخن اہل فکر و نظر کی طرف ہے کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں کیونکہ یہی لوگ ان اعلی تربیتی پروگراموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب کہ دو سرے لوگوں کی نظر اسکے ظاہری غلاف پرہی ہوتی ہے۔
۱۹۸
۔لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ فَإِذَا اٴَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَإِنْ کُنتُمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنْ الضَّالِّینَ
۱۹۹۔
ثُمَّ اٴَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ اٴَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
ترجمہ
۱۹۸۔ کوئی گناہ اور حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے فضل سے ( اور ایام حج میں اقتصادی منافع سے) فائدہ اٹھاؤ (کیونکہ حج کا ایک فلسفہ اسلامی اقتصادی معاشرے کی بنیادرکھنا بھی ہے) اور جب میدان عرفات سے کوچ کرو تو مشعر الحرام کے پاس خدا کو یاد کرو اسے اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم لوگ گمراہ تھے۔
۱۹۹۔ پھر اس جگہ سے کہ جہاں سے لوگ کوچ کرتے ہیں (سرزمین منی کی طرف) کوچ کرو اور خدا سے طلب مغفرت کرو جو بخشنے والا مہربان ہے۔


 

۱۔ شبہات حول الا سلام

 

خرچ کرنا معاشرے کو هلاکت سے بچاتا هے موسم حج میں اقتصادی کارکردگی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma