خانہ کعبہ کی عظمت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم شخصیت:  امن و امان کی اس پناہ گاہ کے اجتماعی اور تربیتی اثرات:

گذشتہ آیت میں حضرت ابراہیم کے مقام بلند کا ذکر تھا۔ اب خانہ کعبہ کی عظمت کا تذکرہ ہے جو انہی کے ہاتھوں تعمیر اور تیار ہوا۔ فرمایا: یادرکھو اس وقت کو جب ہم نے خانہ کعبہ کو مثابہ (لوگوں کے پلٹ آنے کا مقام اور توجہ کا مرکز) اور مقام امن و امان قراردیا ( و اذ جعلنا البیت مثابة للناس و امنا
 مثابہ اصل میں ثوب سے ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ آنا۔ چونکہ خانہ کعبہ موحدین کا مرکز تھا۔ جہاں وہ فقط جسمانی طور پرہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کا مرکز تھا۔ وہ ہر سال اس کی طرف آتے تھے جہاں وہ فقط جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کی مرکز تھا۔ وہ ہر سال اس کی طرف آتے تھے جہاں وہ فقط جسمانی طور پرہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کی طرف پلٹتے تھے اس لئے کعبہ کو مثابہ قراردیا گیاہے۔ نیز انسان کا گھر ہمیشہ اس کی بازگشت کا مرکز اور آرام و آسائش کا مقام ہوتاہے۔ لفظ مثابہ میں ایک قسم کا قلبی آرام و آسائش کا مفہوم بھی داخل ہے۔ لفظ (امنا) جو اس کے بعد آےاہے اس مفہوم کی تاکید کرتاہے۔ خصوصا لفظ (للناس) نشاندہی کرتاہے کہ یہ مرکز امن و امان تمام جہانوں کے لئے ایک عمومی پناہ گاہ ہے۔ یہ در حقیقت حضرت ابراہیم کی ایک درخواست کی قبولیت کا مظہر ہے جو انہوں نے بارگاہ الہی میں کی تھی جیسا کہ اگلی آیت میں آئے گا (رب اجعل ہذا بلدا امنا) پروردگار! اس جگہ کو محل امن و امان قرار دے)۔
 اس کے بعد فرمایا: مقام ابراہیم کو اپنی نماز کی جگہ کے طور پر انتخاب کرو ( و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلی
 اس بارے میں مفسرین کے در میان اختلاف ہے کہ مقام ابراہیم سے کون سی جگہ مراد ہے۔ بعض نے کہاہے تمام حج مقام ابراہیم ہے۔ بعض عرفہ، مشعر الحرام اور تینوں جمرات کو مقام کا نام دیتے ہیں۔ بعض تمام حرم مکہ کو مقام ابراہیم شمار کرتے ہیں۔ لیکن ظاہر آیت ، روایات اسلامی اور بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق یہ اس مشہور مقام ابراہیم کی طرف اشارہ ہے جو خانہ کعبہ کے نزدیک ایک جگہ ہے جس کے پاس طواف کے بعد جاکر حجاج نماز طواف بجالاتے ہیں۔ اس بناء پر مصلی سے مراد بھی یہی مقام نماز ہے۔
 اس کے بعد اس عہد و پیمان کی طرف اشارہ فرمایا گیاہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل سے خانہ کعبہ کی طہارت کے بارے میں لیاگیاتھا۔ فرمایا: ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو حکم دیا اور انہیں وصیت کی کہ میرے گھر کو اس کا طواف کرنے والوں، اس کے پڑوس میں رہنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں (نماز گزاروں) کے لئے پاک رکھو ( و عھدنا الی ابراہیم و اسمعیل ان طہرا بیتی للطائفین و العکفین و الرکع السجود
 یہاں طہارت و پاکیزگی سے کیا مراد ہے۔ اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ہیں بتوں کی پلیدگی سے پاک کرنا مقصود ہے۔ بعض کہتے ہیں ظاہری نجاستوں سے پاک رکھنا مراد ہے، خصوصا خون اور قربانی کے جانوروں کی اندرونی غلاظتوں سے کیونکہ بعض جاہل لوگ ایسا کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں طہارت کا معنی خانہ توحید کی تعمیر کے وقت خلوص نیت ہے۔ لیکن چونکہ کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناء پر یہاں طہارت کے مفہوم کو کسی ایک چیز میں محدود کریں لہذا یہاں خانہ توحید کو ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک رکھنا مراد لیا جانا چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں اس آیت کے حوالے سے خانہ خدا کو مشرکین سے پاک رکھنے کا حکم ہے اور بعض میں بدن کی صفائی اور اسے آلودگیوں سے پاک رکھنا مراد لیاگیاہے۔

 حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم شخصیت:  امن و امان کی اس پناہ گاہ کے اجتماعی اور تربیتی اثرات:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma