بچوں کو دودھ پلانے کے بارے میں سات احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ایک اور زنجیر ٹوٹ گئیجب تک عدت ختم نہ ہو نکاح نہ کیا جائے۔

لغت عرب میں ”والدہ“ ماں کو کہاجاتاہے لیکن لفظ ”اہم“ بہت وسیع معنی کا حامل ہے۔ یہ لفظ کبھی ماں کے لیے اور کبھی ہر چیز کی جڑا اور بنیاد کے لیے بولاجاتاہے۔
اس آیت میں قرآن نو مولود بچوں کو دودھ پلانے کے لیے مختلف طریقے اور اس سلسلے میں مختلف حقوق بیان کرتاہے ان کا تعلق ماں ، بیٹا اور باپ سے ہے۔ اس آیت سے مجموعی طور پر سات احکام حاصل ہوتے ہیں۔
نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانے کے بارے میں سات احکام
۱۔ دودھ پلانے کے دو سالوں میں دودھ پلانے کا حق ماں سے مخصوص ہے اور وہی اس مدت میں بچے کو دودھ پلاسکتی ہے اور وہی دیکھ بھال بھی کرے گی۔ اگرچہ چھوٹے بچوں کی ولایت باپ کے ذمہ ہے لیکن نوزائیدہ بچے کو مال کی دیکھ بھال اور سرپرستی میں دے دیاگیاہے کیونکہ نو مولود کے جسم و روح کی غذا کے طور پر ماں کا دودھ اور شفقت مادری درکار ہے۔ بچے اور ماں کا یہ انمٹ رشتہ ہے ایک پہلو یہ ہے کہ ماں کے جذبات کا بھی لحاظ رکھاجانا چاہئیے کیونکہ ایسے حساس لمحات میں ماں اپنی گود کو خالی نہیں دیکھ سکتی اور وہ بچے کی حالت دیکھ کے آرام سے نہیں رہ سکتی۔ اس لیے اس عرصے میں دیکھ بھال اور دودھ پلانے کا حق ماں کو دیاگیاہے۔ یہ حکم دو پہلوؤں کا حامل ہے۔ اس میں بچے اور ماں دونوں کی حالت کو ملحوظ رکھاگیاہے ”( لِمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ “)
لیکن مائیں حق رکھتی ہیں کہ نو مولود کی حالت و کیفیت اور سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں کمی کردیں۔ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان میں دودھ پلانے کا مکمل دور دو سال بیان فرمایا گیاہے اور نامکمل دو را۲ ماہ بتایاگیاہے۔ بعید نہیں کہ یہ معنی زیر نظر آیت اور سورہ احقاف کی آیہ ۱۵ کو ایک دوسرے میں ضم کرنے سے پیدا ہوتاہو۔ کیونکہ سورہ احقاف میں ہے: ”و حملہ و فصالہ ثلثون شہرا“
اور اس کا حمل اور دودھ پلانے کی مدت ۳۰ ماہ ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ حمل کی مدت عموما ۹ ماہ ہوتی ہے۔ اس لیے باقی ۲۱ ماہ دودھ پلانے کی عام مدت ہوگی اور چونکہ سورہ احقاف کی مذکورہ آیت میں بھی مسئلہ وجوب کی صورت میں نہیں آیا لہذا مائیں حق رکھتی ہیں کہ بچے کی سلامتی کو نظر میں رکھتے ہوئے چاہیں تو دودھ پلانے کی مدت ۲۱ ماہ سے بھی کم کردیں۔
۳۔ ”و علی المولود لہ رزقہن و کسوتہن“:
یہاں لفظ ”الات“ جس کا معنی باپ ہے استعمال نہیں ہوا بلکہ ”المولود لہ“کی تعبیر استعمال کی گئی ہے جس کا معنی ہے ”وہ شخص جس کا بچہ پیدا ہواہے“۔ یہ بات یہاں قابل توجہ ہے یہ تعبیر گویا اس لیے استعمال کی گئی ہے ک اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے پدری جذبات کو زیادہ سے زیادہ تحریک دی جائے یعنی اگر بچے اور اس کی ماں کے اخراجات مرد کے ذمے رکھے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے اور اس کے دل کا میوہ ہے نہ کہ ایک اجنبی فرد۔
اس مقام پر ”معروفہ“ کی شرط اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غذا اور لباس رائج معیار کے مطابق اور شایان شان ہو۔ اس سلسلے میں سختی درست ہے نہ فضول خرچی۔
اس کے بعد اس سلسلے میں ہر قسم کے ابہام کو دورکرنے کے لیے مزید وضاحت فرمائی گئی ہے کہ ہر باپ اپنی طاقت کے مطابق ذمہ دار ہے کیونکہ خداوند عالم کسی کی توانائی سے زیادہ اس پر ذمہ داری نہیں ڈالتا ”لا تکلف نفس الا وسعہا“
۴۔ خدا تعالی چاہتاہے کہ ماں باپ اپنے بچے کی تقدیر اپنے اختلافات کی بھینٹ نہ چڑھادیں اور ان اختلافات کے ذریعے نوزائیدہ بچے کی روح رواں پر ناقابل تلافی ضربیں نہ لگادیں ”لا تضار والدة بولدہا و لا مولود لہ بولدہ“
دودھ پلانے کے دوران میں بچوں کی دیکھ بھال کا حق ماؤں کو حاصل ہے مردوں کو چاہئیے کہ اُن سے یہ حق چھین کر پامال نہ کردیں اور مائیں بھی جنہیں یہ حق دیاگیاہے اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں اور مختلف موہوم بہانوں سے دودھ پلانے سے پہلو تہی نہ کریں اور یو نہی مرد کو بچے کی ملاقات سے محروم نہ کردیں۔
اس جملے کے مفہوم کے بارے میں اور تفسریں بھی کی گئی ہیں لیکن جو کچھ یہاں بیان کیاگیاہے وہ گذشتہ جملوں سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔
۵۔ باپ کی موت کے بعد وارثوں کو چاہیئے کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے ذمہ لیں اور بچے کو دودھ پلانے کے دوران میں ماں کی ضرورت کو پورا کریں۔
۶۔ بچے کو دودھ چھڑوانے کا اختیار ماں باپ کو دیاگیاہے۔ گذشتہ آیت میں اگر چہ بچے کو دودھ کی مدت کا تعین ہوچکاہے لیکن ماں با پ بچے کی جسمانی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے صلاح و مشورہ اور باہمی رضامندی سے مناسب موقع پر بچے کا دودھ چھڑوا سکتے ہیں” فان ارادا فصالا عن تراض منہما و تشاورفلاح جناح علیہما“ یعنی اگر ماں باپ باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑوانا چاہیں کوئی حرج نہیں ماں نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں ہے اور وہ جب چاہے دودھ پلانے سے انکار کرسکتی ہے لیکن کیا خوب ہے کہ بچے کے رشد و تکامل کے لیے وہ اپنی بعض خواہشا ت کو قربان کردے اور اس سلسلے میں شوہر کی ہمفکری اور موافقت سے ہاتھ نہ اٹھائے اور تراضی، اور ”تشاور“ یعنی ایک دوسرے کو راضی رکھنے اور آپس میں مشورہ کرنے کے حکم کو عملی جامہ پہنائے۔
ماں کے دودھ پلانے اور دیکھ بھال کرنے کے حق کو ہرگز نہیں روکاجاسکتا۔ لیکن اگر ماں خود انکار کردے یا اس میں کوئی رکاوٹ حائل ہوجائے تو اس صورت کے لیے ارشاد فرماتاہے:
”وَإِنْ اٴَرَدْتُمْ اٴَنْ تَسْتَرْضِعُوا اٴَوْلاَدَکُمْ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ“
تمہیں حق پہنچتاہے کہ بچے کی دیکھ بھال اور اسے دودھ پلانے کا کام کسی مناسب آیاکے سپرد کردو یا پھر کچھ مدت کے لیے دودھ پلانے کا کام اسے سونپ دوتا تا کہ ماں کے لیے مدد و اعانت ہوسکے۔
(إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ)اس جملے کا معنی ہے کہ ماں کے بجائے دودھ پلانے کے لیئے دوسری عورت کا انتخاب طرفین کی رضامندی اور مشورے کے ساتھ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ماں کے گذشتہ حقوق اور جتنا دودھ اس نے پلایاہے اس کا حق پامال نہ ہوجائے بلکہ جو مروج طریقہ ہے اس کے مطابق ہر حق اداکیاجائے۔
” وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر“
بعض اوقات عورت اور مرد کے مابین اختلافات انتقامی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی اپنی یا بے چارے بچوں کی زندگی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی سازش کررہے ہوں لہذا ان تمام احکام کے آخر میں فرماتاہے: خدا سے ڈرو اور پرہیزگاری اختیار کرو اور جان لوکہ خدا تمہارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے اور وہ بیناہے۔
۲۳۴۔وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ اٴَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْہُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ اٴَجَلَہُنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا فَعَلْنَ فِی اٴَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیر
ترجمہ
۲۳۴۔ اور تم سے جو لوگ وفات پاجاتے ہیں اور اپنی بیویاں پیچھے چھوڑجاتے ہیں تو ان بیویوں کو چار مہینے اور دس دن انتظار کرنا چاہیے (اور عدت گزار نا چاہیے اور جب وہ یہ مدت پوری کرچکیں تو تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں وہ اپنے بارے میں جو چاہیں مناسب طور پر انجام دیں (اور اپنی خواہش کے مطابق کسی سے نکاح کرلیں) اور تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔
تفسیر
شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی عورت کے لیے بنیادی اور مشکل مسائل میں سے ہے پہلے شوہر کی وفات کے بعد فوری طور پر دوسری شادی کرنا سابق شوہر کی محبت، دوستی اور احترام کے منافی ہے ۔ نیز یہ یقین پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ عور ت کا رحم پہلے شوہر کے نطفے سے خالی ہے۔ علاوہ ازیں فوری طور پر دوسری شادی مرنے والے کے لوا حقین کے جذبات کے مجروح ہونے کا سبب بھی ہے لہذا مندرجہ بالا آیت میں عورتوں کے لیے یہ شرط عاید کی گئی ہے کہ ننے نکاح کے لیے چار مہینے اور دس دن کی عدت گزاریں۔
شوہر کے مرنے کے بعد بھی ازدواجی زندگی کے حریم کا احترام ایک فطری امر ہے۔ اس لیے مختلف قبائل میں اس مقصد کے لیے طرح طرح کے آداب و رسوم رہے ہیں اگر چہ بعض اوقات یہ بات زیادتی اور افراط کی شکل اختیار کرجاتی ہے اور عملی طور پر عورتیں قید و بند میں ڈال دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی عورتوں پر بہت زیادہ ظلم روا رکھا جاتا رہاہے۔ بعض لوگ تو شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو جلادیتے تھے یا مرد کے ساتھ ہی زندہ و فن کردیتے تھے۔
لوگوں میں یہ رسم بھی رہی ہے کہ عورت کو نئی شادی سے یکسر محروم کرکے گوشہ نشینی پر مجبور کردیاجاتا۔ بعض قبائل میں یہ رواج تھا کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت ایک مدت تک سیاہ اور بوسیدہ خیمہ قبر شوہر پر گاڑتی اور اُس میں پھٹے پرانے اور کثیف لباس میں وقت گزارتی، ہر طرح کی آرائش و زیور یہاں تک کہ نہانے دھونے سے بھی دور رہتی اور یونہی اس کے شب و روز گزرجاتے۔ ۱
زیر نظر آیت نے ان تمام خرافات پرخط بطلان کھینچ دیاہے اور شائستہ طور پر حریم زوجیت کی بنیاد کی حفاظت کے لیے”عدت“ مقرر کردی ہے۔
”وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ اٴَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْہُرٍ وَعَشْرًا “
لفظ ”توفی“ قرآن میں بہت سے مواقع پر استعمال ہواہے۔ اس کا معنی ہے ”گرفت میں لینا“ لفظ ”لفظ یذر“ ماضی کا صیغہ نہیں ہے اور اس کا معنی ہے ”چھوڑنا“ ۔ آیت کہتی ہے: جن عورتوں کے شوہر چل بستے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چار مہینے اور دس دن عدت میں رہیں اور اس عرصے میں نئی شادی سے اجتناب کریں۔
رہبران اسلام سے ہم تک پہنچنے والی روایات کے مطابق عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مدت میں حالت سوگواری میں رہیں یعنی آرائش و زیبائش ہرگز نہ کریں اور سادگی میں رہیں۔ عدت مقرر کرنے کا فلسفہ بھی اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام نے عورتو ںکو زمانہ جاہلیت کے آداب و رسوم سے اس حد تک نجات بخشی کہ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عدت کے دوران میں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ جن عورتوں کا یہ خیال تھا انہی میں سے ایک عورت پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ نئی شادی کے لیے اجازت کی طلب گار تھی۔ اس نے پیغمبر اکرم سے سوال کیا:
”کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں سرمہ لگاؤں اور اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کروں؟
آنحضرت نے فرمایا: تم عورتیں بھی عجیب و غریب مخلوق ہو۔ اسلام سے پہلے تو وفات شوہر کے بعد مدت عدت سخت ترین حالات میں بھی پورا کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض اوقات مرتے دم تک یہ مدت تمہارے ساتھ چلتی تھی۔ اب جب کہ خاندان کے احترام اور حق زوجیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے حکم دیاگیاہے کہ تھوڑی سی مدت مدت صبر کر لو تو اب اسے بھی برداشت نہیں کرتی ہو 2
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام میں اس بات کی تفریح کی جاچکی ہے کہ اگر عورت کے لیے عدت کی ابتداء شوہر کی وفات سے نہیں ہوتی بلکہ یہ مدت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب عورت کو شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری کرنا چاہیے۔ اسی لیے عورت کے لیے عدت کی ابتداء شوہر کی وفات سے نہیں ہوتی بلکہ یہ مدت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب عورت کو شوہر کے انتقال کی خبر ملے۔ چاہے یہ خبر کئی ماہ کے بعد ہی کیوں نہ ملے۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس حکم کی تشریع ہر چیز سے پہلے زوجیت کے احترام و حریم کی حفاظت کے لیے ہے اگرچہ احتمالی طور پرعورت کا حاملہ ہونا بھی اس قانون میں مسلم طور پر ملحوظ رکھاگیاہے۔
”فَإِذَا بَلَغْنَ اٴَجَلَہُنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا فَعَلْنَ فِی اٴَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ“
”بلوغ اجل“ کا مفہوم ہے “مہلت کا انجام کو پہنچنا “ آیت کے اس حصے کے مطابق اس مدت عدت کے خاتمے پر عورتیں اپنی خواہش کے مطابق شادی کرسکتی ہیں۔
بعض اوقات اولیاء خرافات اور موہوم افکار کی بناء پرعورت کے نکاح ثانی میں حائل ہوتے ہیں اس لیے آیت انہیں مخاطب کرکے کہتی ہے: اس سلسلے میں اب تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں، تم انہیں چھوڑ دو کہ وہ اپنی پسند کے مردوں سے رشتہ نکاح صحیح بنیاد پر قائم کرلیں۔
”وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیر“
اور اولاد کے امور کے بارے میں دخل اندازی نہ کریں کیونکہ پروردگار تمام چیزوں سے باخبر ہے اور وہ ہر شخص کو اس کے اچھے اور بُرے اعمال کی جزادے گا۔
۲۳۵۔وَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ اٴَوْ اٴَکْنَنتُمْ فِی اٴَنفُسِکُمْ عَلِمَ اللهُ اٴَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ وَلَکِنْ لاَتُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا إِلاَّ اٴَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا وَلاَتَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ اٴَجَلَہُ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی اٴَنفُسِکُمْ فَاحْذَرُوہُ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ
ترجمہ
۲۳۵۔اور اس بات کا تم پر کوئی گناہ نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ اشارے کنائے سے تم ان عورتوں سے) خواستگاری کرو (جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں) یا بلا اظہار دل میں اس کے لیے پختہ ارادہ کرلو۔ خدا جانتاتھا کہ تم ان کی یاد میں گرفتار ہوجاؤگے (اور وہ معقول طریقے سے ظاہر ہونے والی تمہاری فطری خواہش کا مخالف نہیں) لیکن اُن سے پوشیدہ طور پر مباشرت کا وعدہ نہ کرو ہاں مگر (کنایہ کے طور پر) پسندیدہ طریقے سے اظہار کرو (لیکن ہر حالت میں) ان کی عدت ختم ہونے تک شادی کا اقدام نہ کرو اور جان لوکہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے خدا اُسے جانتاہے، اس کی مخالفت سے ڈرو اور جان لوکہ خدا بخشنے والا اور بردبار ہے (اور بندوں کو سزادینے میں جلدی نہیں کرتا)۔



 
۱ :۔ اسلام و عقائد بشری
2 المنار ج۲
ایک اور زنجیر ٹوٹ گئیجب تک عدت ختم نہ ہو نکاح نہ کیا جائے۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma